ہمارا تہذیبی سرمایہ اور ہماری شناخت
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: کوئی بھی قوم ہو اپنے کلچر کو بچائے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتی ہے ، ترقی و کامیابی اسی قوم کی تقدیر بنتی ہے جس نے اپنی تہذیب اپنی ثقافت کو محفوظ رکھا ہو آج ہمارے کلچر و ہماری تہذیب پر ہر سمت سے یلغار ہے ایسے میں اپنی اسلامی تہذیب کی پاسداری کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے اس لئے کہ فرہنگ و ثقافت کے بغیر قومیں آگے نہیں بڑھ سکتی ہیں انکی زندگی بغیر کلچر کے بے معنی ہے ۔
فرہنگ کے سلسلہ سے آنتھونی گیڈنز لکھتے ہیں :کلچر سے مراد وہ اقدار ہیں جو کسی معاشرے میں محترم جانی جاتیں ہیں وہ اصول ہیں جن کی ایک معاشرہ رعایت کرتا ہے کہ ان اصولوں سے ہٹ کر نہ جئیے انسان کی اجتماعی زندگی میں کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ہونا چاہیے یہ کلچر بتاتا ہے
موریس دروژہ کی نظر میں ایک معاشرہ کے معنوی محرک کو کلچر کہا جاتا ہے جس میں عقائد و نظریات طریقہ کار اساطیری واقعات ایک ذہنی تصور کی صورت ایک پورے معاشرہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اڈوارڈ ٹایلر کا ماننا ہے کہ کلچر علم ، عقیدے ، ہنر کے مجموعے ، قوانین و رسوم اور ہر طرح کی ایسی اکتسابی صلاحیت کا نام ہے جو ایک معاشرہ کا حصہ بن کر رہنے والے انسان کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے
رہبرانقلاب اسلامی کلچر کے مفہوم کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
کلچر کا مطلب ہے ایک معاشرہ کے عادات و اطوار ، ایک قوم کی فکر اس کا ایمان ،اسکی آرزوئیں تمنائیں ، یہ سب کے سب وہ چیزیں ہیں جو ملک و قوم کے فرہنگ کی بنیادوں کو تشکیل دیتی ہیں ۔
ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ :
رہبر انقلاب کے اس بیان کی روشنی میں ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کلچر کے اعتبار سے ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ ہماری عادات و اطوار اسلامی ہیں یا غیر اسلامی ؟ ہماری فکر کیا ہے ؟ فکر ہے بھی یا نہیں ، دوسرے فکر کرتے ہیں اور ہم ان کے حساب سے چلتے ہیں ، ہم نے اپنی فکروں پر تالے جڑ دیئے ہیں ہمارے بزرگوں نے جو کچھ سوچنا تھا سوچ لیا اب ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے رہبر انقلاب نے کلچر کی بنیادوں میں ایک رکن ایمان کو بیان کیا ہے ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ متزلزل ایمان کے ساتھ ہماری تہذیب و ہماری ثقافت کا کیا مستقبل ہے ؟
ایک اور مقام پر آپ کلچر کے ظاہری و باطنی مظاہر کو الگ الگ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
سب سے پہلے ہمیں اس بنیادی بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ کسی بھی سماج کا کلچر اس معاشرے کی شناخت ہے جب ہم کلچر کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے زبان رسم الخط اور اس طرح کی ساری چیزیں جو کسی کلچر کے ظاہر کو بیان کرتی ہیں باطنی طور پر عقائد ، معاشرتی آداب و رسوم ، قومی میراث ، قومی و مقامی خصائل و عادتیں یہ سب وہ چیزیں ہیں جو کسی قوم کے باطنی اجزا و مصالحہ کو تشکیل دیتی ہیں ایک قوم کی بنیاد یہی چیزیں ہیں
لمحہ فکریہ :
ہمیں سوچنے کی ضرور ت ہے کہ چاہے کلچر کی ظاہری شکل و صورت ہو یا باطنی ؟ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ آج ہماری زبان کیا ہمارے گھروں میں بولی جاتی ہے کہ باہر ہماری پہچان بچے کتنے لوگ ہیں جو گھروں میں اپنی قومی زبان بولتے ہیں اور اپنے کلچر پر فخر کرتے ہیں ؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں وہ طبقہ جو تھوڑا پڑھ لکھ جاتا ہے یہ گوارا نہیں کرتا ہےکہ گھر میں اپنے بچوں سے اردو میں گفتگو کرے گھر میں بچہ جب مادری زبان میں بات نہیں کرے گا تو کہاں سے اس کے اندر اپنے کلچر کو باقی رکھنے کا جذبہ پیدا ہوگا ، ماں باپ آپس میں بھلے کسی مجبوری میں مادری زبان میں بات کر لیں لیکن اکثر دیکھنے میں آتا ہے اپنے بچے سے انگریزی میں ہی بات کرتے ہیں ، اب جب یہ بچہ بڑا ہوگا تو سوچیں کون سے کلچر کے ساتھ بڑا ہوگا اس کے ذہن میں کونسی زبان کی چھاپ رہے گی ، جب اس کی مادری زبان انگریزی ہو جائے گی مادری زبان سے بے بہرہ ہوگا تو کیا اس کا طرز فکر مشرقی ہوگا ؟ کیا یہ مغربی تہذبیب کا دلدادہ نہیں ہوگا ؟
یقینا ایسے بھی گھرانے ہیں جو اس بات کو اہمیت دیتے ہیں اور اپنی تہذیب و اپنے کلچر کی خاطر محنت کرتے ہیں مشقت کرتے ہیں کتنے ہی بیرون ملک یورپ و امریکہ میں رہنے والے اپنے بچوں سے گھروں میں اردو میں بات کرتے ہیں مادری زبان میں گفتگو کرتے ہیں اور قابل غور بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں کی طرح نہیں کہ رسم الخط سے بے بہرہ و نا واقف ہوں وہ اچھی و شیریں اردو بولتے بھی ہیں اور اپنے والدین کی توجہ کی بنا پر اچھی اردو لکھ بھی لیتے ہیں لہذا یہ بہانا تو بے کار ہے کہ اب ملک میں اردو کہاں رہ گئی اپنی زبان کون جانتا ہے ؟ مجبوری ہے ۔ اگر انسان اپنی تہذیب کو اہمیت دیتا ہے تو اسکے لئے راستے بھی ڈھونڈ لیتا ہے لیکن جہاں فرہنگ کی اہمیت ہی نہ ہو اپنی شناخت کی ضرورت کا احساس ہی نہ ہو وہاں انسان دوسروں کی دی گئی شناخت کے ساتھ جیتا ہے اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم کہاں جی رہے ہیں کیسے جی رہے ہیں اسکی ساری توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ دنیا کی رفتار سے رفتار ملا کر چلا جائے اب تہذیب تاراج ہو تو ہوتی رہے کلچر تباہ ہو تو ہوتارہے ہمیں اس سے کیا لینا دینا ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ لوگ کہیں واہ بھئی واہ انہوں نے تو کمال کر دیا زمانے کے مطابق کتنے شاندار طریقے سے ڈھالا ہے ۔
ذہنیت کی تبدیلی :
کلچر کی بات سے پہلے ہمیں اپنی ذہنیت کو بدلنا ہوگا اپنے سوچنے کے انداز کو تبدیل کرنا ہوگا رہبر انقلاب اسلامی ایک مقام پر اسی سلسلہ سے فرماتے ہیں : ہماری کلچر سے مراد ہماری ذہنیت ہے جہاں بھی میں کلچر کی بات کرتا ہوں تو میری مراد وہ عام ذہنیت ہے جو انسان کے ذہن کو کسی خاص طرف لے جاتی ہے ، کسی سمت لے جانے میں تیزی لاتی ہے یا اسے سست بناتی ہے ۔ درحقیقت دیکھا جائے تو کلچر ایک قوم کے معنوی دھانچے کو سامنے لاتا ہے پھر اس کی مصداقی کسوٹیاں بھی ہوتی ہیں اسکی ایک کسوٹی عقائد ہے ، ایک اخلاق ہے ایک آداب و رسوم ہیں انسان کےمعاشرتی طور طریقے ہیں قومی عادتیں ہیں یہ معنوی کسوٹیاں ہیں ا نہیں معیاروں کے تحت ہم جانچ سکتے ہیں کہ معنوی ڈھانچہ کسی بھی قوم کا کیا ہے ؟ اس قوم کی حیثیت کیا ہے ؟ اکا مقام کیا ہے ؟ ممکن ہے کسی قوم کے پاس سیاسی و اقتصادی مضبوط ڈھانچہ نہ ہو اور وہ سیاسی امور میں مشکلات کا شکار ہو اقتصادی مشکلات کا ہو لیکن اس کے پاس ایک پائدار کلچر ہو ایسی قوم ایک مقتدر قوم ہے ہم جو اپنی فرہنگی میراث پر تاکید کرتے ہیں وہ اسی لئے ہے کہ یہ ایسے خزانے ہیں جن کی حفاظت ضروری ہے ، ہو سکتا ہے کبھی ایک عمارت منہدم ہو جائے ، اسکی بنیادیں سست پڑ جائیں اسکے ستون جھک جائیں لیکن خزانہ وہاں محفوظ ہے اگر یہ خزانہ باقی بچا تو ا سکے ذریعہ سے ہم دوبارہ ستونوں کی تعمیر کر سکتے ہیں دوبارہ گری ہوئی عمارت کو کھڑا کر سکتے ہیں اسکا مطلب کیا ہوا ؟ مطلب یہ ہے کہ قوم کی ظاہری خرابی ظاہری تباہی اسکی مٹ جانے کی ختم ہو جانے کی دلیل نہیں ہے بلکہ وہ چیز جو ایک قوم کو ویران و تباہ کرتی ہے و اسکے کلچر کا تباہ ہونا ہے ۔ اگر کوئی ملک کلچر کے اعتبار سے فرہنگ کے اعتبار سے ،علم کے اعتبار سے عقیدہ کے اعتبار سے اخلاق کے اعتبار سے طرز سلوک و انسانی خصلتوں کے اعتبار سے شہری خلقیات کے اعتبار سے بری حالت میں ہو تو یہ انحطاط کا شکار ہے اب اس کی کمر ٹوٹ چکی ہے چاہے ظاہر میں اسکی حالت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو لیکن اسکا باطن تباہ ہو گیا ہے اب اسے دوبارہ صحیح نہیں کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ اسکا خزانہ ہی ختم ہو گیا ہے یہ اس کے برخلاف ہے کہ جہاں خزانہ اپنی اصل حالت میں موجود ہو کلچر کی یہ اہمیت ہے
ہماری تہذیب کا سرمایہ کہاں ہے ؟ :
آج ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے ہماری تہذیب کا خزانہ جو اسلاف نے چھوڑا تھا وہ کہاں ہے ؟ اور ہم کیا کر رہے ہیں اپنے خزانے کو تاراج کر رہے ہیں یا نہیں ظاہری طور پر اقتصادی و سیاسی مشکلات کے باوجود ہم نے اپنے خزانے کو باقی رکھا ہے اور اب ہماری کوشش یہ ہے کہ ہم اسی خزانے کے بل پر انشاء اللہ اپنی شناخت کے ساتھ پھر کھڑے ہوں گے۔
اگر ہم دیکھیں اور غور کریں تو ہماری حقیقی شناخت ایمان ہے ہمارا دین ہے قرآن ہے اہلبیت علیھم السلام کے تعلیمات ہیں اس خزانے کو ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا جب کوئی نہیں چھین سکتا تو ہمیں ایک بار پھر ہمت کرنا ہے آگے بڑھنا ہے ہمت ہم کریں گے مدد اللہ کی جانب سے ہوگی اللہ اپنے ان بندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا جو اس کی راہ میں قدم بڑھاتے ہیں۔
بس ہمیں ایک بار اس بات کا احساس کرنا ضروری ہے کہ ہمارے پاس کتنا بڑا سرمایہ موجود ہے ، یہ سرمایہ حیات کم نہیں ہے جسے ہم دین کہتے ہیں اسلامی تعلیمات و اسلامی اصولوں سے بڑا سرمایہ کیا ہوگا ولایت سے بڑا سرمایہ کیا ہوگا ؟
جب یہ اتنا بڑا سرمایہ ہے یہ خزانہ ہمارے پاس موجود ہے تو کیوں نہ اپنے فکری تشخص کے ساتھ آگے بڑھا جائے کیوں نہ ہم ایک قوم کی صورت اس ملک میں اپنی ایک شناخت قائم کریں جس طرح ہمارے اسلاف نے کی امید کے ہم قرآن و اہلبیت اطہار علیھم السلام کے تعلیمات کی روشنی میں ایک بار پھر اغیار کی دست نگری چھوڑ کر اپنے سرمائے کی طرف پلٹیں گے اور دنیا کی جدید تہذیب پر فخر کرنے کے بجائے اپنی قومی اسلامی تہذیب پر فخر کرتے ہوئے ملک و قوم کا سر اونچا کریں گے ۔
تبصرہ کریں