ہم کیوں فلسطین کی حمایت کرتے ہیں؟
بعثت انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ تاریخ کے عہدیدار حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محسن محمدی نے فلسطین کے دفاعی پہلو اور قرآن و تاریخ کے حوالے سے فلسطین کی حمایت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: فلسطین کی حمایت کے حوالے سے مختلف نظریات پائے جاتے ہیں قومی نظریہ، نسل پرستانہ نظریہ، دینی اور اسلامی نظریہ، غالب نظام کی بنیاد پر حمایت، تہذیب و تمدن کی بنیاد پر حمایت، اور ہمارا یہاں موضوع سخن بھی یہی تہذیب و تمدن کی بنیاد پر فلسطین کی حمایت ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہم قومی یا نسل پرستانہ نظریہ کی بنیاد پر فلسطین کی حمایت نہیں کر سکتے، لیکن دینی نظریہ کی بنیاد پر ہم فلسطین کے امور میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ اسی طرح غالب نظام کی بنیاد پر دنیا کے حریت پسند افراد مسئلہ فلسطین کی حمایت کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم یہاں پر یہ کہنا چاہیں گے کہ ایران کی جانب سے فلسطین کی حمایت، قرآن کریم کے اصولوں پر مبنی اسلامی تہذیب کی بنیادوں پر ہے۔
حجت الاسلام محمدی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ فلسطین صرف اپنی دینی میراث پر بھروسہ کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے مدمقابل کھڑا نہیں ہو سکتا کہا: یہ اس وجہ سے ہے کہ فلسطین کے اہل سنت کا اکثر دینی ورثہ دین یہود سے متاثر ہے۔
انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ تاریخ کے عہدیدار نے فلسطین کے حوالے سے بانی انقلاب اسلامی امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان بزرگوں کے نظریات اسلامی تہذیب پر مبنی ہیں اس لیے کہ ان کے بیانات پر غور و فکر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے صہیونی ریاست کے ساتھ کسی طرح کی گفتگو اور مذاکرات کا کوئی دروازہ کھلا نہیں چھوڑا ہے اور صریحاً کہا ہے کہ “اسرائیل کو نابود ہونا چاہیے”۔
انہوں نے زور دے کر کہا: رہبر انقلاب بین الاقوامی قوانین کے سخت پابند ہیں لیکن اس کے باوجود جب صہیونی ریاست کی بات آتی ہے تو واضح طور پر اپنے موقف کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس رژیم کو تسلیم نہیں کرتے، بلکہ اس کے مخالف دھڑوں کی حمایت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محمدی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ فلسطین کی حمایت دو صورتوں میں قابل تصور ہے ایک “فلسطین فی نفسہ” کی حمایت، اور دوسرے “فلسطین اسرائیل کے مقابلے میں” کی حمایت، کہا: فلسطین کی حمایت کے سلسلے میں سب سے پہلے گفتگو خود خداوند عالم نے کی ہے۔ اس لیے کہ جب خدا نے اس علاقے میں اپنے نبی کو بھیجنا چاہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ موجودہ فلسطین کے علاقے میں سکونت اختیار کریں اس طریقے سے اس علاقے میں انبیا کا سلسلہ شروع ہوا۔
انہوں نے مزید کہا: مسجد الاقصیٰ کی بحث، پیغمبر اکرم کی معراج کا مسئلہ اور یہ کہ یہ سرزمین ایک وقت میں مسلمانوں کا قبلہ رہی ہے یہ سب چیزیں اس سرزمین کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اسلامی تہذیب اس بات کا باعث بنی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطین کی حمایت کرے، کہا: فلسطین جغرافیائی لحاظ سے ایسی جگہ پر واقع ہے کہ ایشیا، یورپ اور افریقہ کو آپس میں جوڑ رہا ہے اور دوسری طرف سے ایک اقتصادی مرکز بھی پہچانا جاتا ہے اس اعتبار سے جو بھی اس علاقے پر اپنا کنٹرول حاصل کر لے گا بہت آسانی سے اطراف و اکناف پر تسلط قائم کر لے گا اور اپنے افکار و عقائد کو پھیلا سکے گا۔ بنابرایں، یہ علاقہ اسلامی تہذیب سازی میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔
حجت الاسلام محمدی نے اس سوال کے جواب میں کہ مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے بنی اسرائیل کیا وہی بنی اسرائیل ہیں جن کا قرآن میں تذکرہ ہے؟ کہا: مقبوضہ فلسطین کے یہودی وہی قوم ہے جسے قرآن کریم نے “پیغمبروں کی قاتل” کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ اور یہ وہی قوم ہے جس کے ساتھ پیغمبر اکرم نے آغاز اسلام میں سخت رویہ اپنایا اور یہ قوم بھی ہمیشہ کوشش کرتی رہی کہ پیغمبر اکرم قدس تک نہ پہنچ سکیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہودی اپنی آبادی کے لحاظ سے کبھی بھی مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لہذا وہ ہمیشہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ حکمران طبقے کے اندر نفوذ پیدا کریں اور اس طریقے سے اپنی سیاستوں کو عملی جامہ پہنائیں۔
ڈاکٹر محمدی نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اگر اہل بیت اطہار(ع) کے قاتلین کی نسب شناسی کی جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ یا خود سلسلہ نسب کے اعتبار سے یہودی تھے یا یہودی سازشوں کا شکار تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی دلیل کہ پیغمبر اکرم کیوں یہودیوں کے سب سے زیادہ مخالف تھے یہ ہے کہ آپ جانتے تھے کہ یہودی اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے آخر میں یہ بیان کرتے ہوئے کہ جو چیز آج بھی خدا کی آخری حجت اور منجی عالم بشریت کے ظہور کی راہ میں رکاوٹ ہے یہی صہیونیت ہے کہا: فلسطین کی حمایت مکمل طور پر قرآنی اصولوں پرمبنی ہے اس لیے کہ صہیونیت اور صہیونی ریاست مطلقاً باطل ہے اور باطل کے مقابلے میں حق کا دفاع کرنا اسلام کا مسلمہ قانون ہے۔
تبصرہ کریں