یزید لعین کے لیے نرم گوشہ کیوں؟

یہ جو آج یزید زندہ باد کے نعروں کی حمایت کر رہے ہیں، یزید رضی اللہ کے نام سے کتب شائع کرکے کربلا کو دو شہزادوں کی جنگ ثابت کرنا چاہتے ہیں یہ تاریخ نئی نہیں ہے۔ آج سے چودہ سو سال قبل بنو امیہ نے مورخ خریدے۔بھرپور میڈیا نیٹ ورک کا استعمال کیا گیا۔طاقت، منبر، محراب، فوج، سپاہ اور علمائے سوء باقاعدہ طور پر خریدے گئے تاکہ درہم و دینار کے عوض حدیثیں گھڑی جائیں۔

فاران؛ ماہ محرم میں باقاعدہ منظم سازش کے تحت وطن عزیز پاکستان کشت و خون کی آماجگاہ بنا رہا ان ایام میں ایک بار پھر مومنین پر ایف آئی آر کے اندراج کا سلسلہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ محبان اہل بیت پر قید وبند کی صعوبتوں کی تاریخ نئی نہیں ہے مگر شاید یہ تاریخ میں پہلی بار دیکھا گیا کہ نواسہ رسول حسین ابن علی کے قاتل پر تبرا کرنے کی وجہ سے ایف آئی آر کاٹی گئی۔ہم نے ہمیشہ امت مسلمہ کے احترام میں بعض شخصیات کے حوالے سے کبھی علی اعلان کچھ نہیں کہا مگر یزید اپنے فسق و فجور اور اولاد رسول کو قتل کرنے کی بناء پر ہر مکتب اور ہر گروہ میں لعن و دشنام کا مرتکب ہے مگر اب یزید اور اس کے بعد کے تمام خلفائے بنو امیہ راسخ العقیدہ مسلمان، عاشق رسول اور نیک نفس قرار دئیے جارہے ہیں۔

یزید کے فسق و فجور اور آلِ رسولؑ سے عداوت کی داستان فقط قتل امام حسین علیہ سلام اور آل رسول کو اسیر بنائے جانے تک ختم نہیں ہوتی بلکہ مدینۃ الرسول(ص) کی تباہی یزید کا سب سے سیاہ کارنامہ ہے۔ یزید نے مسلم بن عقبہ کو مدینہ والوں کی سرکوبی کے لیے متعین کیا اور بمقام حرہّ اہلِ مدینہ کا مقابلہ ہوا۔ گھمسان کا رن پڑا مگر افسوس اہلِ مدینہ کو شکست ہوئی۔ ٢٧ ذی الحج سنہ ٦٢ ھ کو مسلم بن عقبہ نے اپنے لشکر کو شہر کی غارتگری کے لیے چھوڑ دیا۔ جس نے تین دن تک شہریوں کا قتلِ عام کیا۔ باکرہ لڑکیوں کو حاملہ بنایا، مسجدِ نبوی میں گھوڑے باندھے۔ وہ شہر جس نے رسول(ص) کو پناہ دی تھی، وہ شہر جو مصیبت کے وقت آنحضرت کے ساتھ رہا تھا، اب کشت و خون اور قتل عام کا آماجگاہ بن رہا تھا۔ انتہا یہ کہ جامع مسجد کو طویلہ بنا دیا گیا۔ مزارات زر و جواہر کی خاطر زمین کے برابر کر دیئے گئے۔ یہ عوض تھا بنی امیہ کی طرف سے اُس لطف و کرم کا جو فتح مکہ کے وقت ان سے روا رکھا گیا۔

یہ جو آج یزید زندہ باد کے نعروں کی حمایت کر رہے ہیں، یزید رضی اللہ کے نام سے کتب شائع کرکے کربلا کو دو شہزادوں کی جنگ ثابت کرنا چاہتے ہیں یہ تاریخ نئی نہیں ہے۔ آج سے چودہ سو سال قبل بنو امیہ نے مورخ خریدے۔بھرپور میڈیا نیٹ ورک کا استعمال کیا گیا۔طاقت، منبر، محراب، فوج، سپاہ اور علمائے سوء باقاعدہ طور پر خریدے گئے تاکہ درہم و دینار کے عوض حدیثیں گھڑی جائیں۔مولائے کائنات علی ابن ابن طالب علیہ سلام کے خلاف ایک حدیث گھڑنے پر بیس بیس ہزار دینار انعام رکھا جاتا۔مگر یہ پھر بھی اعجاز ہے کہ خیبر شکن کی حقانیت اور فضائل سے یہ دنیا خالی نہ ہوسکی اور علی علیہ السلام اور اولاد علی کا ذکر آج بھی جاری ہے۔

دور یزیدی آج ایک بار پھر پلٹ آیا ہے۔آج بھی نسل یزید حسین علیہ السلام کا ذکر روکنے پر بضد ہے۔اگر اس وقت حسین علیہ السلام وقت کی پکار پر لبیک نہ کہتے تو نماز بھی رہتی،روزہ بھی رہتا مگر سب کچھ بدل گیا ہوتا۔اسلام اپنی مرضی کے سانچوں میں ڈھل گیا ہوتا، حلال محمدی کو حرام محمدی میں بدل دیاجاتا۔اس لیے امام عالی مقام نے قیام کیا اور کہا *مثلی لا یبایع مثلہ* یعنی مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔قیامت تک کوئی بھی حسینی کسی یزید کے سامنے نہیں جھک سکتا چاہے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں یا لاشیں اٹھانا پڑیں۔کتنے مومنین جیلوں میں گئے، کتنے گھر ویران ہوئے، کتنے مومنین شہید ہوئے کیا ذکر ابا عبداللہ الحسین رکا؟ بلکہ ہر سال نئے جوش وجذبے کیساتھ بھرپور انداز میں حسین کا فرش اعزاء بچھایا جاتا ہے۔علم وہی علم ہے جو حسین علیہ سلام کے راستے میں فنا ہونا سیکھاتا ہو ،خانقاہوں میں بیٹھ جانے کا نام علم نہیں ہے، جب حسین علیہ السلام آواز دے تو حبیب کیطرح فقیہ بنو، فقیہ کوفہ یعنی ایسا فقیہ جو حسین علیہ سلام کے عشق میں فنا ہونے کا جذبہ رکھتا ہو۔خانقاہوں کا قیدی نہ ہو۔پیری مریدی کا اسیر نہ ہو مقدس نما نہ ہو،تقدس کا لبادہ نہ اوڑھے بیٹھا ہو بلکہ میدان عمل میں آکر اپنا کردار ادا کرے۔

وہ لوگ جو یزید اور اس کے ساتھیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، حقیقت میں نفاق کا روپ دھار کر اسلام کو نقصان پہچانا چاہتے ہیں۔ ہمارے اردگرد حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔یزیدیت ایک بار پھر پوری شدت سے سر اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔حسینیت تو ہمیشہ سے معرض آزمائش اور امتحان ہے، حسینیت کو کسی زمانے میں بھی سازگار حالات میسر نہیں آسکے۔حسینیت نوع بشر کے درمیان حق وباطل کی ازلی نبرد آزمائی میں، اہل حق و حقیقت کیطرف سے مسلسل اعلان بغاوت اور مستقل کشمکش کااعلان ہے۔لہذا یہ راہ خون آلود بھی ہے اور امتحانوں اور آزمائشوں سے بھری ہوئی بھی۔اب آج کی اس کربلا میں ہم نے کیا کردار ادا کرنا ہے یہ ہم نے خود طے کرنا ہے۔