یمن کی جنگ سے وابستہ عرب امارات کے مقاصد
فاران؛ حالیہ چند برسوں میں لیبیا اور یمن سمیت کئی ملکوں میں امارات کی براہ راست فوجی مداخلت نے بہت سوں کو حیران کردیا ہے۔ کچھ مبصرین کے خیال میں امارات کے مقاصد معاشی اور بعض کے خیال میں سیاسی ہیں لیکن لگتا ہے کہ اس کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ امارات مغربی ممالک کی استعماری پالیسیوں کا تابع ہونے کے ناطے معاشی اور حتی سیاسی لحاظ سے خاص پوزیشن کا حامل ہے تو اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ سیاسی یا معاشی مفادات کے لئے دوسرے ممالک میں فوجی مداخلت کرے؟ اس کے پاس تیل اور گیس کے اچھے خاصے ذخائر ہیں اور سیاحت کے شعبے میں اچھی خاصی آمدنی کماتا ہے تو اسے آمدنی کے مزید وسائل کی کیا ضرورت ہے کہ جس کے لئے اسے اپنا وجود تک خطرے میں ڈالنا پڑ رہا ہے؟ لہذا دیکھنا پڑے گا کہ وہ کونسی چیز ہے جس کے لئے اسے دوسرے ممالک میں آگ و خون کا کھیل کھیلنا اور بعض اوقات بھاری قیمیت چکانا پڑ رہی ہے؟
کافی عرصے سے عرب ممالک کے درمیان اختلاف اور باہمی دوری کی رفتار میں تیزی آئی ہے، آج عرب لیگ ایک مہمل سا مفہوم بن کر رہ گئی ہے کیونکہ لبنان، الجزائر، عراق، قطر اور حتی لیبیا اور عمان عرب لیگ پر سعودی فوقیت اور بنی سعود کی مسلط کردہ پالیسیوں کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں؛ خلیج فارس تعاون کونسل بھی پھیکی پڑ گئی ہے اور رکن ریاستوں کے درمیان شدید اختلافات بہت گہرے ہیں۔ بحرین، امارات، قطر اور سعودی عرب کے مجموعے کو جزیرہ نمائے عرب کہا جاتا ہے اور یہ ممالک مغرب کی استعماری پالیسیوں کے تحت معرض وجود میں آئی ہیں؛ چنانچہ بنی سعود کا خیال ہے کہ چھوٹے اور جزائر کی صورت میں اطراف میں واقع ممالک سعودی عرب ہی کا حصہ ہیں جو تاریخ کے مختلف ادوار میں اس ملک سے الگ ہوچکے ہیں۔ بنی سعود کی بادشاہت ان چھوٹے مگر صاحب ثروت ممالک کو اپنی ملکیت سمجھتی ہے جس کی وجہ سے ان ممالک کے ساتھ سعودیوں کے سرحدی تنازعات وقتا فوقتا علاقے میں تناؤ کا سبب بنتے رہے ہیں۔
ستمبر ۱۹۹۲ میں بنی سعود کی فوج نے قطر کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرلیا جس کے نتیجے میں قطر نے سعودی عرب کے ساتھ ۱۹۶۵ کے سرحدی معاہدے کو معطل کردیا اور احتجاج کے طور پر خلیج فارس تعاون کونسل کے اجلاسوں میں شرکت سے اجتناب کیا اور آخرکار مصر کی ثالثی میں دونوں ملکوں نے اختلافات کے حل کے لئے نئے سرحدی مفاہمت نامے پر دستخط کردیئے۔
بنی سعود کا دعوی ہے کہ قطر سعودی عرب کے صوبے “الاحساء” کا حصہ ہے اور انھوں نے برطانیہ کے دباؤ میں آکر اسے ایک خودمختار ملک کے طور پر تسلیم کیا ہے؛ برسوں تناؤ کے بعد دو ملکوں نے ۱۹۶۵ کے سرحدی معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت ان کے درمیان سرحدوں کا تعین ہوا اور دونوں کو اس معاہدے کے احترام کا پابند بنایا گیا۔
بنی سعود امارات کے بارے میں یہی تصور رکھتے ہیں۔ اماراتی خوب سمجھتے ہیں کہ جلدی یا بدیر انہیں بنی سعود کی توسیع پسندی کا شکار ہونا پڑے گا تا کہ سعودیوں کے ساتھ جلدی یا بدیر چھڑنے والی جنگ میں ان کے ہاتھ میں بھی کوئی تُرپ کا پتّہ ہو۔ عرب امارات سمیت خلیج فارس کی ریاستوں کا سعودیوں کا ساتھ تعلق باہمی احترام پر مبنی برابر کا تعلق نہیں ہے۔ بلکہ حاکم اور محکوم کا سا تعلق ہے اور ان روابط میں سعودیوں کی طرف کا احساس برتری و سیادت نمایاں ہے۔
امارات ـ سعودی تعلق کا خد و خال بتاتا ہے کہ تاریخی اختلافات، علاقائی حالات، عقیدتی مغایرت اور ان ملکوں میں امریکہ کا اثر و رسوخ جیسے عوامل ان کے مستقبل کے روابط کی تشکیل میں کردار ادا کریں گے۔
پہلا موضوع امارات اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی، زمینی اور سرحدی تنازعات ہیں۔ سعودی عرب نے امارات کا کچھ حصہ ہڑپ کرلیا ہے جس سے روزانہ چھ لاکھ پچاس ہزار بیرل خام تیل نکالا جارہا ہے چنانچہ بنی نہیان بنی سعود کو ہمیشہ ایک خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسی بنا پر حال ہی میں واشنگٹن میں امارات کے سفیر کے ہیک شدہ ایمیل پیغامات میں اس نے امارات کے سیکورٹی حکام کو خبردار کیا ہے کہ سعودی عرب امارات کے لئے دوسرا بڑا خطرہ ہے لہذا سعودی عرب سے مختلف سطحوں کی معلومات فراہم کرنا ضروری ہے۔
امارات کو تزویری گہرائی یا متبادل سرزمین چاہئے!
چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ یمن میں امارات کی فوجی مداخلت اور موجودگی اس ملک کے بعض جزائر پر قبضہ جمانا ہے تا کہ وہ اپنی تزویری گہرائی (Strategic depth) کو پھیلا سکے امارات ان ممالک میں سے ہے جو تزویری گہرائی سے محروم ہیں اور اگر بنی سعود کی افواج حملہ آور ہوجائیں تو ہتھیار ڈالنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔
یا شاید اگر حملہ ہوا اور امارات میں شامل ننھی منھی ریاستیں بنی سعود کے قلمرو میں شامل ہوئیں تو بنی نہیان کہیں اور جاکر، کسی جزیرے میں، اپنی ریاست تشکیل دیں۔
چنانچہ امارات نے بہت زیادہ کوششیں کیں کہ یمن کے جزیرے “سقطری” پر قبضہ کرلے اور ان دنوں وہ مغرب اور یہودی ریاست کی مدد سے الحدیدہ کے ساحلی صوبے میں اپنے مقاصد کے حصول کے درپے ہے۔ امارات کا حکمران خاندان ان جزائر سمیت عدن اور سقطری پر اور اب الحدیدہ پر قبضہ جمانا چاہتا ہے تا کہ اگر کسی وقت بنی سعود نے حملہ کرنا چاہا تو اپنے منفرد اور تُرپ کے پتّے کو سعودیوں پر دباؤ بڑھانے کے لئے بروئے کار لاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں