یہودی-سعودی تعلقات کا سفر؛ خفیہ تکمیلی اتحاد سے لے کر ہمزادیت تک
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: یہودی ریاست – جس نے کبھی بھی سعودیوں کو دشمنی کے زمرے میں شمار نہیں کیا – آج اس تکمیلی اتحاد کا پھل چن رہا ہے، جو کسی وقت خفیہ تھا؛ اور اب یہ اتحاد اس مرحلے تک پہنچا ہے کہ ریاض تل ابیب کے ساتھ ہمزادیت محسوس کر رہا ہے اور ان کے تزویری اہداف بالکل یکسان ہیں۔
حزب اللہ لبنان یہودی ریاست کا دشمن نمبر ایک ہے اور سعودی حکومت لبنان میں حزب اللہ کی کردار کشی میں مصروف ہے اور اسے عرب ممالک کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دے رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبنان میں سعودی سفیر ولید بخاری کی طرف سے حزب اللہ کی کردار کشی اور اس کا دامن داغدار کرنے اور اسے عرب ممالک کی قومی سلامتی کے لئے خطرے کے طور پر پیش کرنے کی سازش سے صہیونی ریاست کے ساتھ سعودی ریاست کا وسیع تعاون اور ہمآہنگی اور ان دو ریاستوں کا جڑواں پن پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہؤا ہے۔
لبنانی روزنامے “الاخبار” نے ایک یادداشت کے ضمن میں لکھا ہے کہ یہ ایک حادثاتی اور عارضی امر نہیں ہے کہ لبنان میں سعودی سفیر حزب اللہ کو – جو صہیونی ریاست کے تمام تر سیاسی، فوجی اور سیکورٹی اداروں کے مطابق غاصب ریاست کی سلامتی کے لئے ایک تزویراتی خطرہ سمجھی جاتی ہے – عربی قومی سلامتی! کے لئے خطرے کے طور پر پیش کررہا ہے۔
الاخبار کی یادداشت کا خلاصہ:
یہ توصیف اسرائیلی دشمن کے ساتھ سعودی اہداف کے انضمام اور باہمی ادغام کے ذریعے، سعودی کردار میں اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔ لگتا ہے کہ گویا سعودی ریاست نے – صہیونیوں کی طاقت کے توازن کو خطرے میں ڈالنے والی بعض تبدیلیوں کے پیش نظر اور صہیونی ریاست کی ذاتی اور موروثی بےبسیوں سے جنم لینے والے مسائل کی وجہ سے – صہیونی ریاست کے وکیل کا کردار سنبھال لیا ہے۔
ریاض مذہبی تعصبات اور بڑی پٹرو-دولت (Petro-wealth) کے ذریعے، – جنہوں نے اسے مالی، سیاسی اور سیکورٹی کے امور کو یرغمال بنانے اور ان سے متعلق مطالبات کو قابو میں لانے کی استعداد دی ہے – لبنان اور خطے میں اسلامی مقاومت [مزاحمت] کا راستہ بند کرنے کی غرض سے، یہ خطیر ذمہ داری!!! قبول کرلی ہے۔
اس حقیقت سے قطع نظر کہ سعودی ریاست جلد اور کھلے عام اسرائیل کے ساتھ معمول کی راہ پر گامزن ہو جائے گی، یہ امر واضح ہے کہ علاقائی حالات و واقعات دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے اور ان تعلقات کو ہر سطح پر خفیہ مرحلے سے اعلانیہ مرحلے تک پہنچانے کا تقاضا کرتے ہیں۔
اس مرحلے کی طرف لے جانے والے عوامل میں سے ایک یہ ہے کہ امریکہ، یورپ اور صہیونی ریاست، نیز اس ریاست سے وابستہ عرب ریاستوں کے حکمرانوں کے پاس – مقاومتی قوتوں سے نمٹنے کے زیادہ تر متبادلات غیر مؤثر ہوچکے ہیں، اور اسلامی مقاومت ایک علاقائی طاقت کے طور پر ابھر چکی ہے، جس سے اسرائیل کی نسلی سلامتی اور اثر و رسوخ کو خطرہ لاحق ہے؛ ادھر امریکہ اپنے کندھوں سے اس خطے کا بوجھ اتارنے اور اپنی طاقت اور توجہ چین پر مرکوز کرنے کا خواہاں ہے؛ چنانچہ ایک فطری امر ہے کہ جن قوتوں کا مفاد اور انجام مشترکہ ہے وہ اپنے لئے درپیش مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے لئے باہمی تعلقات کو تزویراتی سطح تک پہنچا دیں، گوکہ ممکن ہے ان تزویراتی تعلقات کے بر ملا ہونے میں کچھ عرصہ لگ جائے۔
اس کے باوجود، یہودی-سعودی تعلقات کی خصوصیات ان حالات میں سے جنم نہیں لیتے جنہیں ہم حالیہ کچھ دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں؛ گوکہ ان حالات نے ان تعلقات کے فروغ میں مدد دی ہے۔ اس مسئلے کا باضابطہ اسرائیلی حوالہ، صہیونی ریاست کے بانی اور پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گورین کی زبان سے سنا گیا ہے۔ بن گورین نے 27 اپریل 1949ع کینسٹ کی خارجہ تعلقات اور سلامتی کی کمیٹی کے سامنے عرب ریاستوں میں سے ہر ایک کے مقابلے میں اپنا موقف واضح کرکے بیان کیا۔
بن گورین نے اس زمانے میں کہا تھا کہ “سعودی عرب آج ہمارا دشمن نہیں ہے، اور حتی کہ اس سے پہلے بھی ہمارا دشمن نہیں تھا”۔ (ماخذ: جنگ کی یادداشتیں سنہ 1949 تا1974 ، ڈیوڈ بین گورین، صفحہ 746، فارسی ترجمہ: انسٹی ٹیوٹ فار فلسطین اسٹڈیز). یوں بن گورین نے ایک رسمی اور سرکاری اسرائیلی اہلکار کے طور پر ایک رسمی نشست میں اپنی اس خواہش کو نمایاں طور پر ظاہر کیا کہ وہ سعودی ریاست کو دشمنوں کی فہرست سے نکالنا چاہتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سعودیوں کی کارکردگی سے خوشنود تھا اور حتی کہ ریاست کی تشکیل سے بھی پہلے – نوآبادیوں کی تعمیر اور صہیونی ریاست کی باقاعدہ تشکیل کے لئے ہونے والی جنگوں میں بھی سعودیوں کا کردار صہیونیوں کے ہاں قابل قبول تھا اور حجاز مقدس پر قابض سعودی قبیلہ بھی فلسطینیوں کے خلاف غاصب یہودیوں کی جنگوں میں، غاصبوں کا ہاتھ بٹاتا رہا تھا۔
الاخبار نے لکھا:
یہودی-سعودی اشتراکات ناقابل انکار شواہد اور ثبوتوں پر استوار ہیں اور اس حقیقت کے ادراک سے کافی سارے دوسرے حقائق کا بھی اظہار ہوتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سعودی بادشاہ ماضی اور حال میں صہیونیت اور صہیونی ریاست کی حمایت میں کیا کیا موقف اپناتے رہے ہیں۔ اور یہ بھی کہ دونوں حکومتیں علاقائی تناظر میں، ایک تاریخی مرحلے پر، بڈھے سامراج برطانیہ کے ہاتھوں وجود میں آئیں اور اب انہیں ایک بین الاقوامی سامراجی چھتری یعنی امریکہ کی پناہ میں ہیں۔ لہٰذا، سعودی عرب کا عملی کردار اور اس کا مشن، برطانیہ کی سابقہ اور امریکہ کی موجودہ تزویراتی ضروریات کے مطابق، اسرائیل کی نسلی سلامتی کے مطابق ہونا اور ان ضروریات کی تکمیل کی راہ پر ہونا، ایک فطری امر ہے۔
اسرائیل اور سعودی عرب کی یہ یکجہتی اور باہمی اشتراک واضح طور پر بیسویں صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائیوں میں – مصر کے اس وقت کے صدر جمال عبدالناصر کے مقابلے میں – بخوبی ابھر کر سامنے آیا؛ جب عبدالناصر اسرائیل کے خلاف جنگ میں مرکزی تزویراتی حیثیت رکھتے تھے۔ مصری صدر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد، سعودی عرب نے 1981ع میں اس وقت کے ولی عہد شہزادہ فہد کے منصوبے کے ذریعے فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو قانونی حیثیت دینے کے کام اور مشن کے ساتھ، میدان عمل میں اترا اور ستمبر 1982ع میں منعقدہ بارہویں عرب سربراہی کانفرنس (Fez initiative) باقاعدہ منظوری سے پہلے ہی، اسرائیل کے وجود اور سلامتی کے حق کو تسلیم کیا تھا۔
اسی سلسلے میں سعودی عرب نے 2006ع میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی جنگ کو واضح تحفظ فراہم کیا۔ اس کے بعد اس کا کردار – دشمن کو محدود اور اس کے کردار کو کسی حد تک بےاثر کرنے والے – تسدیدی قواعد کے عملی جامہ پہننے کے بعد، ارتقاء یافتہ شکل میں ظہور پذیر ہؤا اور یوں سعودی عرب دہشت گردوں کی بھرتی اور امریکہ و اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کرنے والے ممالک کے خلاف تباہ کن پالیسیاں اپنانے کے مرحلے میں داخل ہؤا۔ مختصر یہ کہ حالیہ دہائیوں میں سعودی ریاست اسرائیل کی تزویراتی حکمت عملی کے لئے متبادل، متوازی اور تکمیلی پالیسیاں اپناتی رہے ہے۔
دوسری طرف سے، اسرائیل نے مذکورہ تمام مراحل میں، اور ان مراحل کے سیاسی تقاضوں کے عین مطابق، سعودی عرب کے علاقائی کردار سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ یہاں تک کہ اس عرصے میں تل ابیب ان تمام افراد یا ممالک کا حلفیہ دشمن رہا ہے جنہیں عرب دنیا میں سعودی عرب اپنا دشمن سمجھتا ہے۔
یہ دو طرفہ رابطہ اور تعاون مشترکہ تزویراتی ماحول میں تبدیلیوں اور علاقائی ترجیحات کے تعین اور ان کا مقابلہ کرنے میں ہم آہنگی آج سیاسی اور ابلاغیاتی میدان میں ہمزادیت [اور جڑواں پن] کی حد تک بڑھ گئی ہے۔ یہاں تک کہ – بطور خاص ایران، حزب اللہ، شام، فلسطینی مزاحمت اور یمن کے خلاف – ان کی تشہیری مہمات میں بروئے کار لائے جانے والے الفاظ تک میں بھی یکسانیت پائی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر، تل ابیب میں نسلی سلامتی سے متعلق تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے شائع ہونے والی تازہ ترین تحریر اس بات پر زور دیتی ہے کہ “محور مقاومت” (محاذ مزاحمت) کو یمن پر سعودی مسلط کردہ جنگ کے فوائد حاصل کرنے سے روکنے میں اسرائیل کے واضح مفادات ہیں۔ لیکن آخری پیراگراف میں سفارش کی گئی ہے کہ “خلیج فارس سے متصل ممالک کو فراہم کردہ اسرائیلی امداد کو مکمل طور پر خفیہ رکھا جائے تاکہ ان ممالک کے حکمرانوں کو شرمندگی نہ ہو!۔”
مذکورہ بالا نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے لبنان میں محور مقاومت کا چہرہ مجروح کرنے اور اس سے متعلق حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی سعودی حکمت عملی بخوبی سمجھ میں آتی ہے۔ کیونکہ اسلامی مقاومت نے ان ریاستوں کو شرمسار اور بدنام کردیا ہے جنہوں نے اسرائیل کی بحالی کی پالیسی اپنا رکھی ہے اور [محور مقاومت] خطے کو امریکی بالادستی سے چھڑانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اسی بنا پر [یہودی ریاست کی جڑواں] سعودی ریاست کا اصرار ہے کہ اس محور کو – حجاز و نجد سمیت عرب ممالک کے عوام سے دور کردے، حالانکہ عرب عوام مقاومت کو عرب اور مسلم دنیا کی نجات دہندہ قوت سمجھتے ہیں اور سعودی عوام کا عزم بھی یہی ہے – اور محور مقاومت کو ایران کا وکیل اور نمائندہ قرار دے، اور استدلال کرے کہ “چونکہ ایران محور مقاومت کی حمایت کرتا ہے، لہذا یہ ایک ایران نواز قوت ہے”۔
اس کے باوجود، حزب اللہ اور فلسطینی مقاومت پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کے بعد، “اسرائیل کی نسلی سلامتی” کو “عربوں کی قومی سلامتی” کا ہمزاد قرار دینا”، تمام تر عواقب کے باوجود، دونوں فریقوں کے درمیان اتحاد کا اعلان کرنے اور اس اتحاد کو خفیہ مرحلے سے نکال کر اعلانیہ مرحلے میں لے جانے کے لئے ضروری تمہید فراہم کرتا ہے۔
تبصرہ کریں