یہودی ریاست مآرب میں آل سعود کی شکست پر تشویش کا شکار

ایک طرف سے مأرب کے تزویراتی علاقے کے مرکز کی طرف یمنی مجاہدین اور افواج کی تیزرفتار پیشقدمی اور جھڑپوں کے خاتمے کے لئے مؤثر اقدامات کے بعد سعودی قبضے سے اس شہر کی آزادی کے لیے الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے جس کے بعد سفارتی کوششوں میں ناکام امریکہ نے اس جنگ کے خاتمے اور مأرب پر سعودی قبضہ بحال رکھنے کے لئے متبادل روشوں کا سہارا لینا شروع کیا ہے جبکہ مقبوضہ فلسطین پر مسلط یہودی ریاست مأرب سمیت یمن کے مختلف علاقوں میں انصار اللہ کی فتوحات سے تشویش ظاہر کر رہی ہے۔

فاران؛ المیادین اخباری ویب گاہ نے حال ہی میں ایک رپورٹ کے ضمن میں اس حوالے سے لکھا ہے: ڈونلڈ ٹرمپ دور کے امریکی نائب معاون وزیر خارجہ برائے یورپی اور یوریشین امور ڈیوڈ شینکر (David Schenker) نے حال ہی میں مرکز برائے مشرق وسطیٰ اسٹریٹجک اسٹڈیز (Center for Middle Eastern Strategic Studies) کے جرنل میں ایک مضمون شائع کیا ہے اور خیال ظاہر کیا ہے کہ “امریکہ کے دشمن جلد یا بدیر یمنی جنگ کو جیت جائیں گے اور یمن کے تیل کے ذخائر کو اپنے قابو میں لیں گے”۔ ۔ اس نے اپنے دشات کے ضمن مں بائیڈن انتظامیہ کو تجویز دی ہے کہ منصور ہادی اور اس کی حامی جماعتوں کو بہتر انداز سے مسلح کرنے کے لئے سعودی اتحاد کے ساتھ تعاون کا ایک نیا منصوبہ نافذ کرے یا پھر امریکی افواج کو یمن میں براہ راست مداخلت کے احکامات جاری کرے۔
المیادین نے لکھا: اس منصوبے سے صاف ظاہر ہے کہ واشنگٹن کو مأرب میں اپنی (اور سعودیوں و صہیونیوں کی) شکست کا یقین ہو چکا ہے اور دوسری طرف سے یہ صورت حال بجائے خود، خطے اور بالخصوص یمن میں امریکی گماشتوں کی شکست کا اعتراف ہے؛ یہ وہ جنگ ہے جس کے پہلے دن سے امریکہ اور اس کے گماشتے اس میں شریک ہوئے اور یمن پر بربریت کی انتہاؤں میں بنیادی کردار ادا کیا اور ابھی تک اس ظالمانہ جارحیت میں شریک ہے یہاں تک کہ حالیہ ہفتوں میں اس نے اپنے جنگی طیاروں کا ایک اسکواڈرن سعودی عرب کے سلطان ایئر بیس پر اتارا اور ایک بحری مائن سویپر (Minesweeper) بحر احمر میں تعینات کیا نیز سعودیوں کو 65 کروڑ ڈالر کے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل فروخت کئے؛ تاکہ ایسا کوئی بھی ظلم تشنۂ اقدام نہ رہے جو امریکہ نے سعودیوں کے ذریعے یمنیوں پر نہیں ڈھایا ہو: میزائل حملوں، توپخانے کے حملوں، فضائی حملوں، پورے یمن کا محاصرہ اور معاشی پابندیاں۔۔۔ یہاں تک کہ حال میں یمن کے امور میں امریکی ایلچی ٹم لینڈر کنگ (Tim Lenderking) نے حال ہی میں یمنیوں پر پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے ان کو مزید دھمکیاں بھی دیں۔
المیادین نے لکھا: حقیقت یہ ہے کہ واشنگٹن اور اس کے علاقائی ایلچی “نہ کوئی آپشن اور نہ کوئی متبادل” کے مرحلے تک پہنچ گئے ہیں؛ اور اگر شینکر کی باتوں کا مطلب یہ ہو کہ امریکی اپنی افواج یمن میں اتار دے، جبکہ براہ راست امریکی مداخلت یمنیوں کے لئے ایک نئی اور بڑی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
یمنی عرصے سے امریکہ کے گماشتوں سے لڑ رہے ہیں اور بڑے اشتیاق کے ساتھ امریکی افواج کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے لئے پر تول رہے ہیں اور ان کی بڑی خواہش ہے کہ سرزمین یمن ميں امریکیوں کا قبرستان بنائیں یہاں تک کہ وہ ویت نام میں اپنی خفت کو بھول جائیں۔ گو کہ یمن میں براہ راست مداخلت وہ بھی افغانستان سے ذلت آمیز فرار کے بعد، بعید از قیاس ہے اور امریکی صدر نے افغانستان میں تاریخی شکست کے بعد اعلان کیا ہے کہ اس کے بعد امریکہ “دوسروں کی طرف سے جنگ” نہيں لڑے گا۔
المیادین کے مطابق، یمن میں امریکیوں کی مایوسی، سعودیوں کی شکست اور امریکہ اور سعودی عرب کے کرائے کے فوجیوں کی مکمل نا امیدی کے ساتھ ساتھ، صہیونی-یہودی حلقوں پر بھی تشویش کے سائے منڈلا رہے ہیں جو سنہ 2014ع‍ سے یمن پر جارحیت میں شریک ہیں اور سعودیوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ حالیہ ایام میں صہیونی ذرائع ابلاغ نے اپنی پوری توجہ مأرب میں یمنی افواج اور انصار اللہ کی پیشقدمی پر مرکوز کی ہوئی ہے۔ ان صہیونی ذرائع میں ایک یروشلم پوسٹ ہے جو عبرانی زبان میں شائع ہوتا ہے اور اس روزنامے نے یمنیوں کی فتح کو “اسرائیل اور امریکہ کے خلاف وسیع البنیاد جنگ” کا سنگ بنیاد قرار دیا ہے۔
یمنیوں نے بارہا فلسطینی مجاہدین کے ساتھ یکجہتی اور اعلانیہ دشمنی کا اظہار کر لیا ہے اور اس رپورٹ کے مطابق، یمن کی جنگ پر غاصب یہودی ریاست کی غیر معمولی توجہ ان کے شدید خوف و ہراس کی عکاسی کرتی ہے کیونکہ یمنیوں نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ “قدس شریف پر یہودیوں کے حملے کا مطلب علاقائی جنگ ہے”۔ علاوہ ازیں یہودی ریاست یمن میں سعودی شکست سے عبرت حاصل کرے گی اور یمن یا محاذ مزاحمت میں شامل کسی بھی علاقے میں سعودیوں جیسی کسی مداخلت سے پہلے ہزار بار سوچے گی اور نتیجہ یہ ہوگا کہ سعودیوں کی شکست صہیونیوں کی سرکشی کو لگام دے گی؛ کیونکہ یہودیوں اور سعودیوں کے درمیان نقطہ نظر، تربیت اور مسلح سازی کے حوالے سے تمام تر خصوصیات ایک جیسی ہیں۔
المیادین نے مزید لکھا ہے کہ مختلف علاقوں بالخصوص مأرب میں سعودیوں کی شدید بمباریوں کے باوجود، وہ یمنی فوج اور عوامی کمیٹیوں کی پیشقدمی روکنے میں ناکام رہے ہیں؛ اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، یمنی افواج اور انصار اللہ نے شہر مأرب کے اطراف میں اہم ترین ٹھکانوں اور تزویراتی فوجی آڈوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور انھوں نے حالیہ چند دنوں کے دوران سعودیوں کو ام ریش کے فوجی بیس اور اراک اور الروضہ سمیت متعدد اہم علاقوں سے مار بھگایا ہے اور البلق الوسط کے متعدد حصوں پر بھی کنٹرول حاصل کیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، البلق الشمالی اور البلق الشرقی اور ان دو علاقوں کے درمیان واقع تزویراتی اہمیت کا حامل علاقہ الفلج، یمنی افواج اور انصار اللہ کے توپخانے کی زد میں آ چکے ہیں؛ جنہیں عسکری لحاظ سے آزاد شدہ علاقے بھی کہا جا سکتا ہے؛ جبکہ یمنی مجاہدین “الکری” کے علاقے میں واقع مأرب کے گورنر “سلطان العرادہ” کی رہائشگاہ کی طرف قدم بقدم بڑھ رہے ہیں۔
ان سکری حصول یابیوں کے ساتھ ساتھ، صنعاء نے روابط اور مذاکرات کے عمل کو بھی فعال کردیا ہے اور سعودیوں کے قبضے میں رہنے والے آخری علاقے “الوادی” میں رہنے والے قبیلے “عبیدہ” نے ایک طرف سے اعلان کیا ہے کہ “ہم سعودی اتحاد کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے ملک یمن کو میدان جنگ میں تبدیل کریں” اور دوسری طرف سے ان لوگوں کو خبردار کیا ہے جو جنگ کو ان کے مسکن میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔
یہ تبدیلیاں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں کہ “العبدیہ” کے علاقے میں رہنے والے قبائل کی طرف سے کئی بڑے وفود اوران قبائل کے شیوخ اور سرکردہ افراد اپنے 1500 جنگجؤوں کے ساتھ صنعا میں داخل ہوئے اور انصار اللہ کے قائد سید عبدالمالک بدر الدین الحوثی الطباطبائی نے ان کا والہانہ استقبال کیا، حالانکہ اس سے چند ہی روز پہلے، یہی لوگ انصار اللہ اور یمنی افواج کے خلاف بر سر پیکار تھے۔
المیادین نے واضح کیا کہ انصار اللہ کے قائد کی یہ بخشش، روا داری اور مصالحت و مفاہمت پر مبنی رویئے اور قبائل کے جنگی قیدیوں کی یک طرفہ رہائی نے انصار اللہ کے خلاف یہودی-سعودی ذرائع کی تشہیری مہم اور انصار اللہ کو بد روح بنانے (Demonization) کے عمل کو بے اثر کر دیا ہے، عوام کے درمیان سعودیوں-یہودیوں کی پیدا کردہ دراڑوں کو ختم کر دیا ہے اور اندرونی محاذ روز بروز پہلے سے زیادہ طاقتور ہو رہا ہے۔
المیادین نے امید ظاہر کی ہے کہ اس طرح کے اقدامات سعودیوں اور اماراتیوں اور ان کے کرائے کے گماشتوں کے زیر قبضہ علاقوں میں اس یقین کو تقویت پہنچائیں کے کہ سعودی-اماراتی اتحاد اور ان کے یہودی و امریکی آقاؤں نے ان کی صلاحیتوں کو ایک غلط اور بے جا جنگ میں استعمال کیا ہے اور وہ ان ہی کی قومی و علاقائی ذرائع آمدنی اور قدرتی وسائل کو – بالخصوص شبوہ اور مأرب کے صوبوں میں – لوٹ رہے ہیں جبکہ ان کے اپنے عوام اسی جنگ کے نتیجے میں بھوک و افلاس سے دوچار ہیں؛ چنانچہ یہ قوی امید ہے کہ نام نہاد سعودی اتحاد کے زیر قبضہ علاقوں کے مزید عوام اور مسلح دستے بھی صنعا کا رخ کریں گے اور مأرب سمیت یمن کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کی جنگ میں انصار اللہ کے شانہ بشانہ لڑیں گے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب نے ایک عربی اتحاد بنا کر امریکی حمایت کے سائے میں، مورخہ 26 مارچ 2015‏ع‍ کو، یمن کے مستعفی اور مفرور صدر “عبد ربہ منصور ہادی” کی اقتدار میں واپسی کے بہانے، یمن پر جارحیت کا ارتکاب کیا اور مغربی اور عرب ممالک کی مدد سے اس ملک کا فضائی، بری اور بحری محاصرہ کر لیا۔ سعودی ولیعہد ایم بی ایس نے جنگ کے آغاز پر اعلان کیا تھا کہ یہ جنگ ایک سے تین ہفتوں میں اختتام پذیر ہوگی اور یمن میں وہی ہوگا جو وہ چاہے گا، لیکن یہ جنگ آج تک جاری ہے۔
گوکہ بنی سعود اور اس کے حامیوں نے لاکھوں یمنیوں کو شہید اور زخمی کیا ہے، یمن کے ڈھانچے کو ویراں کردیا ہے، اور لاکھوں کو بےگھر کردیا ہے لیکن سعودی عرب اور اس کے حلیف اور آقا نہ صرف اس ملک میں اپنا کوئی ایک بھی مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ یمن فوجی لحاظ سے آج پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم ہے اور یمنی عوام نے جارحین کو ہمیشہ کے لئے پیچھے بیٹھنے اور صنعا کے ساتھ ادب سے پیش آنے کا سبق دیا ہے۔
ایک نکتہ:
صہیونی روزنامے یروشلم پوسٹ نے یمنیوں کی فتح کو “اسرائیل اور امریکہ کے خلاف وسیع البنیاد جنگ” کا سنگ بنیاد قرار دیا ہے۔ اور یہودی ریاست اس تزویراتی شکست سے تشویش میں مبتلا ہے اور صہیونیت و استکبار کی تشویش نے در حقیقت حرمین کے تحفظ کے نام پر کرائے کے قاتلوں کی بھرتی کا راز فاش کردیا ہے؛ چنانچہ وہ لوگ جو مسلمان ہو کر بھی جان بوجھ کر اس جنگ میں امریکی اور صہیونی مفادات کے لئے لڑے ہیں یا لڑ رہے ہیں اور مظلوم یمنیوں کا خون بہانے میں ملوث ہیں، تو ان کا استحالہ ہوچکا ہے اور وہ امت کے دائرے سے خارج ہوکر عالم کفر و استکبار کا حصہ بن چکے ہیں اور اگر ناسمجھی میں یا مال کمانے کی غرض سے اس جنگ میں شامل ہوئے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک مسلمان اس قدر احمق و نادان اور بےبصیرت بھی ہوسکتا ہے؟