قابل توجہ بات یہ ہے کہ عیسائیوں اور غیر یہودیوں کو سود پر پیسہ دینے اور ان سے جتنا ممکن ہو سود کمانے کا جواز حتیٰ یہودیوں کی فقہ میں موجود ہے اور یہودی ربیوں “یعقوب بن مہ یر” اور ” داوود کہمی نور بونی” نے اس بارے میں فتاویٰ بھی دئے ہیں۔
قرآن میں یہودیوں کے کھوکھلے خیالات اور بےبنیاد نعروں کی طرف اشارے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے تھے: ہم اعلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور اللہ کے چہیتے ہیں اور قیامت کو جہنم کی آگ ہمیں چند گنے چنے دنوں کے سوا، چھو تک نہيں سکے گی۔
دلچسپ یہ ہے کہ تاریخی مطالعات میں کبھی بھی صہیونیوں اور نازیوں کے درمیان پائے جانے والے اس گہرے رابطے کی طرف اشارہ نہیں ہوتا اور صرف نازیوں کے ظلم و ستم اور یہودیوں کی مظلومیت کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ کہنا بجا ہے کہ جرمنی میں یہود دشمنی کی فضا بھی خود صہیونیوں کے ذریعے وجود میں لائی گئی تھی۔
یہ کمیٹی امریکہ کی حکومت میں اعلی پیمانہ پر اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر اقوام متحدہ میں تجویز تقسیم کی منظوری کے سلسلہ میں اپنے نفوذ سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہی ۔
صہیونی تفکر کے بھید بھاو پر مشتمل دنیاوی طرز فکر اور نسلی برتری کے نظریہ کی بنیاد پر یہ اجتماعی و معاشرتی شگاف مزید گہرا ہوتا جا رہے.
ایک بہت اہم اور دلچسپ واقعہ مئی ۱۹۸۹ میں ‘اوپرا’ کے عنوان سے براہ راست ٹیلی ویژن پروگرام میں پیش آيا جس نے ناظرین کو حیران کردیا۔
عیسائیوں کو قتل کرنا یہودیوں کے مذہبی واجبات میں سے ہے اور اگر یہودی ان کے ساتھ کوئی پیمان باندھیں تو اس کو وفا کرنا ضروری نہیں ہے، نصرانی مذہب کے روساء پر جو یہودیوں کے دشمن ہیں ہر روز تین مرتبہ لعنت کرنا ضروری ہے۔
بہشت یہودیوں سے مخصوص ہے اور ان کے علاوہ کوئی بھی اس میں داخل نہیں ہو سکتا لیکن عیسائیوں اور مسلمانوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
گوکہ یہودیوں کی آج کی جرائم پیشگی ذرا عجیب سے معلوم ہو لیکن یہودی خونخواری کی روایت میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ چونکہ آج کے زمانے میں جرم کا تیزی سے سراغ لگایا جاتا ہے اور قانون کا تعاقب کچھ زیادہ رائج اور ناگزیر اور رشوت وسیع سطح پر بدنامی کا سبب بنتی ہے چنانچہ یہودیوں نے روش بدل دی ہے، بڑوں کو چھوڑنا پڑا ہے لیکن شیرخواروں کا خون چوسنا جاری و ساری ہے۔