اگر ان تمام عوامل کو یکجا طور پر بیان کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے حسینیت ہی حقیقت میں زندگی میں عزت و آبرو کا دوسرا نام ہے اگر راہ حسینیت پر ہم گامزن ہو گئے تو سربلندی ہمارے قدم چومے گی اس لئے کہ حسینیت ایک ایسی شاہراہ عزت کا نام ہے جس پر چلنے والے خود بھی عزت دار ہوتے ہیں سماج اور معاشرہ کا سر بھی اونچا کرتے ہیں۔
میرے پروردگار میرے سید و سردار میں چاہتا اگر تیری اطاعت ومحبت پر مجھے ستر ہزار مرتبہ بھی قتل کیا جائے اور پھر مجھے زندہ کیا جائے تو گوارا ہے خاص کر جب میرا قتل تیرے دین کی نصرت کا سبب اورتیرے امر کے احیاء کا وسیلہ بنے، اور تیری ناموس شریعت کی حفاظت کا سبب بنے ۔
جس مفہوم کو روایات میں بیان کیا جا رہا ہے اسکا مکمل مصداق امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی ہے چنانچہ امام حسین ع نے دشمن سے ایک شب کی مہلت مانگ کر بتایا کہ زندگی میں اگر کسی چیز کے لئے حسین کومہلت درکار ہے۔
عزت اگر استحکام و پائداری و ناقابل شکست ہونے کے معنی میں کبھی بیان ہوتی ہے اور یہ وہی عزت ہے جو باطل کے مقابل مومنین کو حاصل ہے اور یہی عزت کبھی مذموم بھی واقع ہوتی ہے اور یہ اس وقت ہے جب حق کے مقابل باطل کے اندر سختی کے کو بیان کر رہی ہو
عزت کو گوہر نایاب کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ ہر جگہ ہاتھ نہیں آتی اور وہیں ملتی ہے جہاں انسان بندگی کی حدوں کو نہیں لانگتا اور حدود بندگی کی پاسداری و نگہداشت آسان نہیں ہے چنانچہ صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائی لکھتے ہیں کہ کلمۂ عزت، نایابی کے مفہوم کو بیان کرتا ہے لہذا جب کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز عزیز ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس تک آسانی سے رسائی ممکن نہیں ہے
لاہور میں برآمد ہونیوالی یہ تین ریلیاں بھی اُمت کے وحدت اور کاز کیساتھ مخلصی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ بعض شرکاء نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا۔ شرکاء یہ کہتے پائے گئے کہ اگر ان تینوں ریلیوں کی انتظامیہ مل کر ایک ہی ریلی نکال لیتی اور یہ مشترکہ ریلی لاہور کی تاریخ کی ایک مثالی ریلی بن سکتی تھی، مگر نجانے کیوں ہر تنظیم شائد یہ چاہتی ہے کہ ان کے نام کا ہی ڈنکا بجے۔
امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے کارناموں میں ایک بڑا کارنامہ مسئلہ فلسطین کو ایک اسلامی اور انسانی مسئلہ کی صورت بیان کرنا ہے یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے فلسطین کے مسئلہ کو ایک اسلامی مسئلہ کے طور پر پیش کیا جبکہ بعض ممالک اسے ایک عربوں کے مسئلہ کے طور پر پیش کر رہے تھے۔
جمعہ الوداع میں مسئلہ قدس کو عالمگیریت کے ساتھ پیش کرنا بھی ہماری ایک دینی و ایمانی ذمہ داری ہے امید ہے کہ اس بار کی نماز جمعہ کے بعد ہم الگ ہی انداز میں بیت المقدس کی آزادی کے سلسلہ سے احتجاج کریں گے اور اپنے مظلوم فلسیطینی بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں گے
حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین ایسا قضیہ نہیں، جسے مسلمان اقوام کی غیرت، روز افزوں خود اعتمادی و بیداری فراموش ہو جانے دے گی، حالانکہ اس مقصد کیلئے امریکہ اور دیگر تسلط پسند طاقتیں اور ان کے مہرے اپنا پیسہ اور طاقت استعمال کر رہے ہیں۔