صیہونی حکومت میں پھوٹ پڑنے کا امکان
صیہونی حکومت کے قومی سلامتی کے وزیر نے دھمکی دی ہے کہ اگر، وزیر اعظم نیتن یاہونے فلسطینیوں کے بارے میں اپنی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں کی تو وہ چند ماہ کے اندر مستعفی ہو جائیں گے۔
اپلوڈ ہو رہا ہے ...
جہاد اسلامی فلسطین اور حماس نے صیہونیوں کو خبردار کیا ہے کہ تحریک مزاحمت تل ابیب کے جرائم کا جواب دینے اور صیہونیوں سے ہمہ گیر جنگ کے لئے مکمل طور پر تیار ہے۔
قابض فوجیوں نے شہریوں اور ان کے گھروں پر گیس کے گولے برسائے جب کہ نوجوانوں نےقابض فوج کی دراندازی کا جواب پٹرول بموں سے حملوں اور سنگ باری سے دیا۔
امریکہ، یورپ اور یہودی ریاست اور ان کے علاقائی گماشتے پوری طاقت سے میدان میں آئے اور ایران میں وسیع پیمانے پر بغاوت کے اسباب فراہم کرنے اور ایران کے اسلامی نظام کو پسپائی پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔
فلسطینیوں کی طرف سے یہ اپیل ایک ایسے وقت کی گئی ہے جب آباد کاروں نے کل بدھ کو باب العامود میں ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے۔
جرائم پیشہ صیہونی فوجیوں نے اپنے تازہ ترین وحشیانہ اقدام میں جنین کیمپ پر حملہ کرکے کم سے کم نوفلسطینیوں کو شہید کردیا ہے صیہونی فوجیوں کے اس حملے میں متعدد فلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں
غرب اردن کے شہر جنین کے کیمپ پر حملے اور فلسطینیوں کا قتل عام کرنےکے بعد صیہونی فوجیوں نے جوابی حملوں کے خوف سے پسپائی اختیار کرلی ہے
فلسطینی مجاہدین نے حملہ آور صیہونی فوجیوں پر جوابی کارروائی کے دوران ایک صیہونی فوجی افسر کو موت کے گھاٹ اتاردیا
سعودی سرمائے سے چلنے والا ٹی وی چینل MBC اپنے پروگرام "فی الآفاق" میں جیسن گوبرمین کی میزبانی کی ہے اور سے اپنے ناظرین کو فخریہ انداز سے بتایا کہ "سعودی حکومت اس شخص کے منصوبے دیارنا کو مالی سہولیات فراہم کر رہی ہے"۔
فاران: اسرائیلی حکومت کی دائیں بازو اور انتہا پسند کابینہ کے داخلی سیکورٹی کے وزیر اتمر بن گویر نے کہا کہ اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل میں گارڈین آف دی وال- 2 کے نام سے مشہور آپریشن اور اور وہ کارروائی جس میں مئی 2021 میں صیہونی حکومت کی جانب سے فلسطینی علاقوں […]
لبنانی رکن پارلیمان کا کہنا تھا: الحاج قاسم مسئلۂ فلسطین پر عالم اسلام کی توجہ مرکوز کرنا چاہتے تھے / وہ محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کی حمایت کی راہ میں کسی بھی سرخ لکیر کو تسلیم نہیں کرتے تھے / انھوں نے شام کی جنگ میں روس کے شامل ہونے میں بنیادی کردار ادا کیا / وہ محور مقاومت کا ستون تھے / شہدائے فتح (حاج قاسم اور حاج ابو مہدی المہندس) کی حکمت عملی بدستور نافذالعمل ہے
ڈاکٹر احمد کاظمی کا کہنا تھا: جمہوریہ آذربائیجان میں یہودیوں کو بسانا، صہیونی ریاست کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ اسرائیلی یہودیوں کے لئے دوسرا گھر تلاش کر رہے ہیں۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے قائم مقام کمانڈر بریگیڈیئر جنرل علی فدوی نے العالم چینل کے پروگرام "مِن طَهران" کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا: امریکہ انقلاب اسلامی کے آغاز ہی سے ایران کے خلاف تمام سازشوں میں ملوث رہا ہے، جزیرہ فارسی میں امریکی میرینز کے ساتھ آمنا سامنا، اور ان کی گرفتاری کا واقعہ پہلا واقعہ نہ تھا۔ ہم 1987ع میں پہلی بار امریکی جنگی بحری جہازوں سے دو دو ہاتھ کر لئے ہیں۔
آل سعود کا دعوی ہے کہ منطقہ الشرقیہ کے شیعہ بھی ایران کے حامی ہیں، اور یہ لوگ سنیوں کو ماریں گے اور اگر ایران اور سعودیہ کے درمیان جنگ شروع ہو جائے تو یہ لوگ سعودی ریاست کے خلاف ایران کی حمایت کریں گے۔
ہاں مفادات کی حکمرانی ہے؛ مغرب پر بھروسہ ناممکن ہے؛ مثلا خاشقجی کا کیس ایک سیاسی بلیک میلنگ اور سعودی عرب سے بڑی رقوم حاصل کرنے کا کیس تھا۔ روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد یورپ کو سعودی عرب کے تیل کی ضرورت پڑی چنانچہ مغرب نے خاشقجی کا کیس بند کیا اور امریکہ نے اس کیس میں ایم بی ایس کو استثنا دے دیا۔
نو لبرل معیشت ایک قسم کی نو لبرل سیاسی آمریت کی معاشی بنیاد ہے، جو آزادی کے نعرے کے پیچھے چھپ کر رہتی ہے۔
خطے کے ممالک میں اسرائیل کے نفوذ اور اثر و رسوخ میں ڈیوڈ مِیدان کا کردار اس قدر نمایاں تھا کہ بہت سے لوگ اسے نیتن یاہو کا اصل وزیر خارجہ کا عنوان دیتے تھے۔ بعض ذرائع نے اس کو خطے میں مصروف کار دہشت گردوں کے دادا کا لقب بھی دیا ہے۔
اے جی ٹی اور 4D کے ڈیزائن کردہ سسٹمز نے ٹینڈرز میں جمع کرائے گئے تین ابتدائی نمونوں میں سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کئے؛ لیکن اس کے باوجود یہ منصوبہ بظاہر انہيں سپرد نہیں کیا گیا۔
عالمی سطح پر جدید سیکورٹی-انٹیلی جنس نظام کی تشکیل کے سالوں کے دوران ماتی کوچاوی نے اپنی توجہ ایسے شعبے پر مرکوز کرلی جس نے 11 ستمبر کے واقعے کے بعد تیزی سے فروغ پایا اور آج یہ شعبہ بڑی اور چھوٹی طاقتوں کے مقابلے کا میدان بن چکا ہے: سائبر اسپیس۔
امارات کی طرف اشارہ اس لئے ہے کہ ابو ظہبی میں آل نہیان قبیلے کی آمرانہ بادشاہت اسرائیلی سائبر آلات اور سائبر حکمت عملیوں کی سب سے بڑی صارف ہے اور غاصب اسرائیلی ریاست میں سائبر ٹیکنالوجی کے تمام اہم افراد کا اس عربی ریاست کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
ہ بتانا ضروری ہے کہ یہ تمام اقدامات امارات اور غاصب ریاست کے درمیان تعلقات کے باضابطہ اعلان سے کئی برس پہلے عمل میں لائے گئے ہیں، اور اسی بنا پر کوچاوی وہ پہلا اسرائیلی شخص سمجھا جاتا ہے جس نے خلیج فارس کے علاقے - بطور خاص متحدہ عرب امارات - میں ریشہ دوانی کی ہے اور اپنے لئے مضبوط پوزیشن کا انتظام کیا ہے۔
ایک سو (100) سے بھی زیادہ ڈاکٹر اور ماہر انجنیئر اس مجموعے کے مشینی امور، مصنوعی ذہانت اور اشیاء کا انٹرنیٹ میں کام کر رہے ہیں؛ اور سینسرز سے حاصل ہونے والی معلومات کے پراسیسنگ اور تجزیئے میں مصروف ہیں تا کہ فزیکی ماحولیات کو قابل فہم بنا دیں۔
امریکی صہیونی تنظیم صرف صہیونی ریاست کے تحفظ کے لیے کام کرتی اور اس راہ میں پائے جانے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہے اس تنظیم کی ایک اہم سرگرمی اسرائیل پر حاکم نظام کی حمایت کے لیے دوسرے ممالک کے حکمرانوں میں نفوذ پیدا کرنا ہے۔
مسجد علی البکاء کی تاریخ ۸ صدیاں پرانی ہے۔ اس کے اطراف میں یہودی کالونیوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود آج بھی اس کے گنبد و مینار سے اذان کی صدا گونجتی سنی جا سکتی ہے۔
ادارہ "آئی این ایس ایس" سلامتی، دہشت گردی اور عسکری امور پر متعدد مقالات اور کتابیں انگریزی اور عبرانی زبانوں میں شائع کرتا ہے۔ ان میں ہی میں سے ایک اہم تحقیقی مقالہ ایران کے میزائل سسٹم کے بارے میں ہے جس کا عنوان "ایران کا میزائل سسٹم: بنیادی تسدیدی اوزار" ہے۔
جو چیز قارئین کو اس کتاب کے مطالعہ کے لیے ترغیب دلاتی ہے وہ یہ ہے کہ “میٹی گولن” ایک متعصب اسرائیلی یہودی ہے اور اس کے برخلاف جو اکثر لوگ تصور کرتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے یہودیوں کے باہمی تعلقات بہت اچھے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ان ملکوں کے روابط جیسا کہ میڈیا دکھاتا ہے اندرونی طور پر بھی ویسے ہی دوستانہ ہیں، اس کتاب میں ان کے درمیان پائی جانے والی دراڑوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔
یاسر عرفات اس کے باوجود کہ ایک فعال، ایکٹو اور فلسطینی مقاصد کے تئیں جذباتی شخص تھے، ایک مغرور سیاست دان اور اپنے گرد و نواح میں رہنے والوں کے اوپر بھرسہ نہ کرنے والے شخص بھی تھے۔ التبہ ان کی یہ خصوصیات کسی حد تک فلسطینی مقاصد کی راہ میں کی جانی والی مجاہدت میں اخلاص کے منافی تھیں۔
کتاب کا مقدمہ جنگ کے کلی پہلووں جیسے صہیونی حکومت کی جنایت و تعدی، صہیونی ظلم و جنایت کا بین الاقوامی انعکاس ،غزہ کی پائداری و مزاحمت اور مظلومیت وغیرہ کو بیان کر رہا ہے ۔
یہ قیمتی کتاب، ایک مقدمہ، ایک پیش لفظ اور کلی عناوین کے تحت سات فصلوں پر مشتمل ہے، مصنف نے اسی طرح کتاب کے اختتام میں ضمیمہ کے عنوان سے ایک حصہ مخصوص کیا ہے جس میں اسرائیل کی موساد اور ایرانی شہنشاہیت کی خفیہ ایجنسی ساواک کے درمیان خفیہ اطلاعات، سیاسی اور اقتصادی مشترکہ تعاون کو بیان کیا گیا ہے ۔
یہ کتاب تاریخ کے بارے میں ایک کاوش ہے، جس کا آغاز چند ذاتی داستانوں سے ہوتا ہے۔ مصنف اس کتاب کی سطور میں پہلی صدی عیسوی میں رومیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی جبری جلاوطنی کے افسانے پر بطلان کی لکیر کھینچے ہیں اور کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے یہودی ان نومذہب یہودیوں کی اولاد میں سے ہیں جن کی جنم بومیاں مشرق وسطی اور مشرقی یورپ میں پھیلی ہوئی ہیں۔
فلسطینی مقاومت کے 21 سالہ نوجوان "خیر اللقم" نے مقبوضہ قدس شریف کے قصبے "نبی یعقوب" میں غاصب یہودی ریاست کی بنیادوں پر لرزہ طاری کردیا۔
ایرانی قوم اور رہبر معظم امام سید علی خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے وقار و عظمت کے ساتھ اس شیطانی لہر پر غلبہ پایا؛ المختصر "دشمنوں کو ناکام بنانے کے لئے ایران کا عزم، ہمیشہ کی طرح، اس عزم کو توڑنے پر مرکوز ہونے والے مغربی ارادے سے زیادہ محکم اور قوی تھا"۔
سعودی سرمائے سے چلنے والا ٹی وی چینل MBC اپنے پروگرام "فی الآفاق" میں جیسن گوبرمین کی میزبانی کی ہے اور سے اپنے ناظرین کو فخریہ انداز سے بتایا کہ "سعودی حکومت اس شخص کے منصوبے دیارنا کو مالی سہولیات فراہم کر رہی ہے"۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سیاحت کو رونق دینے کے بہانے اور یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا امکان فراہم کرنے کے مقصد سے، مدینہ منورہ کی حدود میں واقع مشہور زمانہ "خیبر" کے علاقے میں یہودیوں کو دوبارہ آنے کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔
شہید لیفٹننٹ جنرل الحاج قاسم سلیمانی کے جانشین اور سپاہ قدس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل الحاج اسماعیل قا آنی نے کہا ہے کہ امریکہ ذلت و خفت کے ساتھ خطے سے بھاگ جائے گا اور سابق سوویت اتحاد کے انجام سے دوچار ہو جائے گا؛ یہ وہ حقیقت ہے کہ امریکہ کے اپنے تحقیقی ادارے بھی اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایران میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب کے مقابلے میں مغربی طاقتیں پوری طرح شکست کا شکار ہو چکی ہیں جبکہ وہ اپنی شکست قبول کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں جس کے نتیجے میں گھٹیا اور پست حرکتوں پر اتر آئی ہیں اور اپنے ہرکاروں کو اسلام اور اسلامی شخصیات کے خلاف ہرزہ سرائی کا مشن سونپ چکی ہیں۔ اس کا واحد راہ حل اور دشمن کو دشمنی جاری رکھنے سے باز رکھنے اور مکمل طور پر مایوس کرنے کا واحد راستہ اسلامی دنیا کا مزید طاقتور ہونا ہے۔
"قفقاز کے علاقے میں، آذربائیجان اور صہیونی ریاست کے تعلقات، اسلامی جمہوریہ ایران [اور بقیہ اسلامی ممالک] کے لئے اہم ہیں۔ یہ تعلقات سیاسی، سفارتی، ثقافتی اور فنکارانہ بھی ہیں اور تعلیم و تربیت کے میدان میں بھی: آذربائیجانی اسکولوں اور جامعات میں یہودیوں کا بڑھتا ہؤا اثر و رسوخ اور یہودی تعلیمی مراکز کا قیام، اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
نیتن یاہو خود بھی نااہل ہو کر وزیراعظم کا عہدہ گنوا بیٹھنے کے خطرے سے روبرو ہیں۔ عبری زبان چینل کان کے مطابق اٹارنی جنرل کا دفتر بنجمن نیتن یاہو کو نااہل قرار دینے کیلئے اقدامات شروع کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔
دشمن ایرانیوں کی خصوصی صلاحیتوں سے غافل رہا یا اگر ان پر توجہ بھی دی تو ان کا مقابلہ کرنے کیلئے اس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ ایرانی قوم وہی قوم ہے جس نے گذشتہ 150 برس میں مغربی تسلط کے خلاف مسلسل تحریکیں چلائی ہیں۔
مغرب نے ایک طرف تکفیری دہشت گردی کی بنیاد رکھی اور اسلام کا بدنما چہرہ دکھانے کیلئے ہمیشہ اس کی ترویج کی جبکہ دوسری طرف سرکاری طور پر قومی شدت پسندی اور اسلاموفوبیا کو فروغ دیا ہے۔ تکفیری دہشت گردی اور نسل پرستانہ اسلاموفوبیا کے درمیان دوطرفہ تعاون ایک ہی مرکز یعنی امریکہ اور یورپ (خاص طور پر فرانس کی انٹیلی جنس ایجنسیز اور سیاسی اداروں) کی جانب سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔
حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال سب سے پہلے رومیوں نے کیا جو دشمن کے آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کے لئے ان میں مردہ جانور پھینکتے تھے؛ جس کی وجہ سے دشمن کی افرادی قوت میں کمی آتی تھی اور جنگجؤوں کے حوصلے گر جاتے تھے۔ دوسری مثال منگولوں کی ہے جو طاعون زدہ جانوروں کے لاشے منجنیق کے ذریعے جزیرہ کریمیا میں پھینکتے تھے۔ کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ منگولوں کا یہ اقدام قرون وسطی میں یورپ میں طاعون پھیلنے کا سبب بنا اور ڈھائی کروڑ یورپی مارے گئے۔
مشہور امریکی سیاسی ماہر اور ہارورڈ یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر سٹیفن والٹ (Stephen M. Walt) نے استدلال کیا ہے کہ لبرلزم کے اصولوں کے نفاذ پر امریکی حکومت کا اصرار، اس مسئلے کا سبب بن رہا ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنی غلطیوں سے کبھی بھی سبق حاصل نہ کرسکے؛ اور مسلسل خطاؤں کا ارتکاب کرتی رہے۔ انھوں نے اپنے مضمون کا عنوان "امریکہ چاہے بھی تو بے وقوفی سے باز نہیں آ سکتا" (The United States Couldn't Stop Being Stupid if It Wanted) قرار دیا ہے۔
چین کے دورہ ریاض اور ریاض-ماسکو کے درمیان سیاسی ہم آہنگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے حسابات میں غلطیاں کرکے اپنے مغربی ایشیائی اتحادیوں کو، مشرق کے ساتھ مقابلے میں، کھو چکا ہے۔
امریکہ کی جانب سے روس کے ساتھ تعلقات کی سطح کم کرنے، اسلحہ کی تجارت محدود کرنے یا روس کو انرجی کی محصولات سے حاصل ہونے والی آمدنی کو کم کرنے نیز زبردستی قیمتوں کا تعین کرنے کیلئے جو کوششیں انجام پا رہی ہیں ان کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ روس سے متعلق اسٹریٹجک اہداف کا حصول ہے۔
مقبوضہ فلسطین میں خانہ جنگی کا ماحول، صہیونیت کو درپیش شناختی چیلنج، ایک قوم کی تشیل میں "اسرائیل" کہلوانے والی ریاست کی شکست فاش اور تل ابیب میں سیاستدانوں کے درمیان جنگ صہیونی یہودی ریاست کی شکست و ریخت کے اصل اسباب ہیں؛ ایسی ریاست جو تجزیہ نگاروں کے بقول اس وقت "خود شکستگی" (Self-Destruction) کے مرحلے سے گذر رہی ہے۔
امریکہ، یورپ اور یہودی ریاست اور ان کے علاقائی گماشتے پوری طاقت سے میدان میں آئے اور ایران میں وسیع پیمانے پر بغاوت کے اسباب فراہم کرنے اور ایران کے اسلامی نظام کو پسپائی پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سیاحت کو رونق دینے کے بہانے اور یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا امکان فراہم کرنے کے مقصد سے، مدینہ منورہ کی حدود میں واقع مشہور زمانہ "خیبر" کے علاقے میں یہودیوں کو دوبارہ آنے کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔
ایک اور عنصر صیہونی فوج کی کسی بھی ممکنہ جنگ میں صیہونی حکومت کو تحفظ فراہم کرنے کی صلاحیت پر عدم اعتماد کا بڑھتا ہوا احساس ہے، خاص طور پر جب سے اسرائیل کے دشمنوں نے اپنی ڈیٹرنس پاور میں اضافہ کیا ہے، صیہونی فوج بے بس نظر آرہی ہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ بعض شادیوں میں دوسرے مذاہب و اقوام کے لوگ بھی آتے ہیں جب وہ لوگ ہماری شادیوں میں شریک ہوتے ہوں گے بعض محفلوں میں عریانیت و بے حجابی کودیکھتے ہوں گے تو کیا تصور لے کر جاتے ہوں گے ہمارے دین کے بارے میں ؟ کیا رائے قائم کرتے ہوں گے ہمارے مذہب کے بارے میں ؟ وہ بھی اس دور میں جہاں حجاب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ؟
حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال سب سے پہلے رومیوں نے کیا جو دشمن کے آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کے لئے ان میں مردہ جانور پھینکتے تھے؛ جس کی وجہ سے دشمن کی افرادی قوت میں کمی آتی تھی اور جنگجؤوں کے حوصلے گر جاتے تھے۔ دوسری مثال منگولوں کی ہے جو طاعون زدہ جانوروں کے لاشے منجنیق کے ذریعے جزیرہ کریمیا میں پھینکتے تھے۔ کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ منگولوں کا یہ اقدام قرون وسطی میں یورپ میں طاعون پھیلنے کا سبب بنا اور ڈھائی کروڑ یورپی مارے گئے۔
مشہور امریکی سیاسی ماہر اور ہارورڈ یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر سٹیفن والٹ (Stephen M. Walt) نے استدلال کیا ہے کہ لبرلزم کے اصولوں کے نفاذ پر امریکی حکومت کا اصرار، اس مسئلے کا سبب بن رہا ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنی غلطیوں سے کبھی بھی سبق حاصل نہ کرسکے؛ اور مسلسل خطاؤں کا ارتکاب کرتی رہے۔ انھوں نے اپنے مضمون کا عنوان "امریکہ چاہے بھی تو بے وقوفی سے باز نہیں آ سکتا" (The United States Couldn't Stop Being Stupid if It Wanted) قرار دیا ہے۔
قرآن نے انسانی زندگی کے لئے ایک خاص طرز و روش کو پیش کیا ہے جسے حیات طیبہ کہہ کر یاد کیا ہے تاکہ انسان اس پاکیزہ حیات کے ذریعہ اپنے رب سے نزدیک ہو سکے اور اسکے صفات کا مظہر قرار پا سکے ۔
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: آج ہم جس ملک اور جس معاشرے میں جی رہی ہیں وہاں زندگی سے جڑے ان گنت ایسے مسائل ہیں جو لا ینحل نظر آتے ہیں اور ہر دن کے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ساتھ ان لاینحل مسائل کے ڈھیر میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، ایک طرف خود […]
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا نظریہ تھا ’’ کسی بھی قوم کی سعادت کا سرچشمہ اسکا فرہنگ ہے کسی بھی قوم کی بدبختی کی پہچان بھی اسکا کلچر ہے ‘‘۔
فاران تجزیاتی ویب سایٹ: آج ہمارے ملک میں ہر سو عدم برداشت کی فضا ہے ، ایک طرف کچھ نفرت کے پجاری مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہر اگل رہے ہیں تو دوسری طرف معاشرے میں غلط طرز اصلاح اور درشتی و سختی کی بنا پر ہم روز بروز دوستوں اور اپنوں کا حلقہ از خود […]
رہبر انقلاب اسلامی نے حال ہی میں پوری دنیا سے آئے ہوئے عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کی مجلس عمومی کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "پیروان اہل بیت(ع) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے استکبار کے سات سروں والے اژدہے کو پیچھے دھکیل دیا اور ان منصوبوں کو خاک میں ملا دیا"۔
فرش عزا محض ہمیں غم منانا نہیں سکھاتا بلکہ اس غم کے سایے میں معاشرے کی تعمیر کا ہنر بھی سکھاتا ہے اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم سماجی مسائل میں کس انداز سے دلچسپی لے رہے ہیں کتنا توجہ معاشرے میں کمزور و ضعیف طبقے پر ہماری ہے اور کتنا محض کچھ مجالس منعقد کر کے ہم مطمئن ہیں کہ ہم نے غم منا لیا۔
امر مسلّم یہ ہے کہ ہر وہ پالیسی اور ہر وہ عمل جس سے اپنوں کو فائدہ اور دشمن کو نقصان نہ پہنچے، آج کے حساس زمانے میں اس سے دشمن کو فائدہ اور اپنوں کو نقصان پہنچتا ہے اور یوں یہ حضرات بھی اسلام اور تشیّع کے حلفیہ دشمنوں کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں،
مجالس سید الشہداء سے بڑھ کر اور کونسی جگہ ہے جہاں پر احیاء امر اہلبیت اطہار علیھم السلام ہوتا ہو ، یہ ایام عزا ہی کی برکت ہے کہ ہم حق کے آئینہ پر پڑی گرد کو ان ایام میں صاف کرتے ہیں ، باطل کے چہرے سے نقاب نوچی جاتی ہے۔
یہ ہمارے اس امام کا کردار جس پر ہم گریہ کرتے ہیں روتے ہیں جس کے مصائب پر آنسو بہاتے ہیں لیکن ہم میں سے بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اس امام مظلوم کی شخصیت سے واقف ہوں اس کے فضائل سے آشنا ہوں ، ایام عزا میں ہماری ذمہ داری ہے کہ اس شخصیت کے ان پنہاں گوشوں کو لوگوں کے سامنے لائیں جن میں فضائل و کمالات کا ایک لا متاہی سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے ۔