انسانی حقوق و ترقی کے مرکز عین الانسانیہ نے یمن پر سعودی اتحاد کی چھبیس سو روزہ جارحیت اور اس جارحیت میں ہونے والے نقصانات کے اعداد و شمار جاری کئے ہیں۔
ایک طرف سے مأرب کے تزویراتی علاقے کے مرکز کی طرف یمنی مجاہدین اور افواج کی تیزرفتار پیشقدمی اور جھڑپوں کے خاتمے کے لئے مؤثر اقدامات کے بعد سعودی قبضے سے اس شہر کی آزادی کے لیے الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے جس کے بعد سفارتی کوششوں میں ناکام امریکہ نے اس جنگ کے خاتمے اور مأرب پر سعودی قبضہ بحال رکھنے کے لئے متبادل روشوں کا سہارا لینا شروع کیا ہے جبکہ مقبوضہ فلسطین پر مسلط یہودی ریاست مأرب سمیت یمن کے مختلف علاقوں میں انصار اللہ کی فتوحات سے تشویش ظاہر کر رہی ہے۔
سعودی عرب میں اردنی نظربندی کمیٹی کے سربراہ خضر مشائخ نے کہا کہ ریاض کی اپیل کورٹ پیر سے اردنی اور فلسطینی نظربندوں کے بارے میں فوجداری عدالت کے جاری کردہ فیصلوں پر غور شروع کرے گی۔
یہ بالکل وہی حکمت عملی ہے جو اسرائیل کی غاصب رژیم نے اختیار کر رکھی ہے اور اس کے تحت صہیونی حکمران اپنے مجرمانہ اقدامات سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کیلئے خطے میں نت نئے بحران ایجاد کرتے رہتے ہیں۔
سعودی ایلکس ویب سائٹ کے مطابق اس اخبار نے لکھا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل پر سعودی عرب کے موقف کے باوجود تل ابیب اور ریاض کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام پر اب تک کامیاب مذاکرات ہوئے ہیں ۔
اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان براہ راست فضائی سروس شروع ہو چکی ہے۔
کیا اس نفرت کا سبب وہ احساس کمتری ہے جو ایران کے مد مقابل تمہارے اندر جڑ پکڑ چکا ہے؛ اس لئے کہ ایران نے ۳۵ سالہ بدترین محاصرے اور شدید ترین پابندیوں کے باوجود نہ صرف مغرب کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا بلکہ کامیاب بھی ہوا اور دنیا کو مجبور کیا کہ اس کے ایٹمی پروگرام کو تسلیم کرے؟
عرب ممالک کی طرف سے صہیونی ریاست کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے اور ’نارملائزیشن‘ کے منحوس عمل کو سنہ1993ء میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے طے پائے نام نہاد ’اوسلو‘ سمجھوتے کی ’جائز‘ اولاد کے طورپر دیکھا جا رہا ہے۔
یمن کی آئل کمپنی کا کہنا ہے کہ اس ٹینکر میں پچیس ٹن ڈیزل تھا جو وہ یمنی عوام کے لئے جارہا تھا۔ اس ٹینکر کے پاس اقوام متحدہ کالائسنس بھی ہے تاہم سعودی اتحاد اسے الحدیدہ بندرگاہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔