وحدت اسلامی کانفرنس (۳)

اتحاد بین المسلمین ایک اسٹراٹیجی یا دین کی بنیادی ضرورت؟

آج کچھ جگہوں پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اتحاد وقت کی ضرورت ہے مشترک دشمن کا مقابلہ کرنا ضروری ہے اس لئے اتحاد ضروری ہے کچھ لوگ اسی بنیاد پراتحاد کو ایک اسٹراٹیجی کے طور پر بیان کرتے ہیں لیکن اس اتحاد کانفرنس میں رہبر انقلاب نے اتحاد بین المسلمین کو ایک اسٹراٹیجی نہیں بلکہ مسلمہ اصول قرار دیتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ مسلمانوں کے درمیان تعاون و تعلق ضروری ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: پچھلی تحریر میں ہم نے مختصر طور پر تہران میں ہونے والی وحدت کانفرنس کے تناظر میں اپنی ذمہ داریوں کا ایک جائزہ لیتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی کی تقریر سے کچھ اہم نکات پیش کرتے ہوئے کوشش کی تھی کہ ان نکات کی روشنی میں ہم اپنی ذمہ داریوں کو تلاش کریں پیش نظر تحریر میں اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے کہ اتحاد بین المسلمین کیا ایک حکمت عملی ہے ایک اسٹراٹیجی ہے جس کے بغیر ملت اسلامیہ کا گزارا ممکن نہیں ہے یا پھر دین کا ایک بنیادی دستور ہے جس سے بے اعتنائی ممکن نہیں اورایک انسان اسی وقت دیندار بن سکتا ہے جب وہ اپنے تصور کائنات میں متحد ہو کر جینے پر یقین رکھتا ہو ۔
آج کچھ جگہوں پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اتحاد وقت کی ضرورت ہے مشترک دشمن کا مقابلہ کرنا ضروری ہے اس لئے اتحاد ضروری ہے کچھ لوگ اسی بنیاد پراتحاد کو ایک اسٹراٹیجی کے طور پر بیان کرتے ہیں لیکن اس اتحاد کانفرنس میں رہبر انقلاب نے اتحاد بین المسلمین کو ایک اسٹراٹیجی نہیں بلکہ مسلمہ اصول قرار دیتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ مسلمانوں کے درمیان تعاون و تعلق ضروری ہے، گو کہ رہبر کا اشارہ تعاونو علی البر والتقوی کی طرف تھا اب ایک یہ تعاون متحد ہو کر ہو اگر تمام مسلمان متحد ہوں، ایک دوسرے سے تعاون کریں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ سبھی طاقتور ہو جائیں گے یہاں تک کہ جو لوگ غیر مسلموں سے تعاون کرنا چاہتے ہیں وہ بھی مضبوط ہو جائيں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی کی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس تعاون کا اس باہمی اشتراک کا فائدہ کس طرح سب کو ہوگا اسلئے کہ اس تعاون کی وجہ سے دشمن ہم سے نہیں کھیل سکے گا اپنے منصوبوں پر عمل نہیں کر سکے گا جس کے ثبوت میں رہبر انقلاب اسلامی نے افغانستان میں شیعوں پر حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ گزشتہ دو جمعوں کو افغانستان میں ہونے والے افسوسناک رلانے والے اور دل دہلانے والے واقعے کے سلسلہ سے ہمیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کی مسجد کو، نماز کی حالت میں دھماکے سے اڑا دیا گيا تو کس نے اڑایا؟ داعش نے۔ داعش کون ہے؟ داعش وہی تنظیم ہے جسے امریکیوں نے وجود عطا کیا ہے، اسی امریکی ڈیموکریٹ گروہ نے کھل کر اعتراف کیا تھا کہ ہم نے داعش کو وجود بخشا ہے، یعنی جو کچھ مسلمانوں کو جھیلنا پڑ رہا ہے وہ اس بنیاد پر ہے کہ آپس میں اگر اتحاد ہوتا آپس میں تعاون ہوتا تو کبھی یہ اتحاد کی مضبوط دیوار وہ توڑ کر ایسے رخنے ڈالنے میں کامیاب نہ ہوتے کہ جب چاہے مسلمانوں کا قتل عام مسلمانوں ہی کے ذریعہ کرائیں اور ساری دنیا میں اسلام و مسلمانوں کو بدنام بھی کریں ۔
یہیں سے ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دشمن ہمارے ساتھ کتنا خطرناک کھیل کھیل رہا ہے جبکہ قرآن کریم نے کتنے پہلے اسکا حل پیش کر دیا تھا ۔
محور ایمان پر اتحاد اورقرآن کا نظریہ
آج جہانِ فکر و نظر میں گفتگو ہے خاص کر ماہرین عمرانیات نے اس مسئلہ پر بہت زور دیا ہے کہ قافلہ انسانی کا نقطہ اشتراک کیا ہے؟ فلاسفہ و دانشوروں اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے کہیں زمین و جغرافیہ تو کہیں قوم قبیلہ و خون و زبان کو لوگوں کے نقطہ اشتراک کے طور پر بیان کیا ہے جبکہ دیکھا جائے تو یہ ساری چیزیں مفادات کے پیش نظر بدلتی رہتی ہیں انسان فائدے کی بنیاد پر اپنا ملک و وطن چھوڑ کر دوسرے وطن میں آباد ہو جاتا ہے اگر اسکا مفاد اپنی مادری زبان سے حاصل نہیں ہوتا تو وہ دوسری زبان اختیار کر کے اپنی زبان بھول جاتا ہے اسی طرح مختلف اغراض کی بنا پر قوم و رنگ و نسل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس رنگ اس قوم و قبیلہ کے ساتھ ہم رنگ و ہم فکر ہو جاتا ہے جس سے اسکو فائدہ حاصل ہو رہا ہو۔ ایسی صورت میں یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو اسی وقت تک ایک محور پر لوگوں کو جمع کر سکتی ہیں جب تک مفادات کا حصول رہے مفادات کا ٹکراو سارا کھیل بگاڑ دیتا ہے ہاں دنیا میں فکری محاذ کا اشتراک ضرور لوگوں کو ایک رکھ سکتا ہے وہ بھی اس وقت جب فکر الہی و ایمانی ہو یعنی اگر ہر غرض اور مفاد سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے تو ایمان وہ محور ہے جس پر ہر رنگ ہر قوم ہر قبیلے ہر نسل اور ہر ملک سے متعلق لوگوں کو جمع کیا جا سکتا اس لئے ایمانی اتحاد سے بڑا کوئی اتحاد نہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے مومنین کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتے ہوئے فرمایا: ” إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ”
بیشک بس مومنین ہی آپس میں بھائی بھائی ہیں پس آپس کے رشتوں کی اصلاح کرو اور صلح و آشتی کے ساتھ رہو اور اللہ کا تقوی اختیار کرو شاید وہ تم پر سایہ رحمت کو ڈال دے ۔
قرآن کریم کی یہ آیت واضح طور پر اس بات کو بیان کر رہی ہے کہ قرآن کی نظر میں مومنین کا ایک دوسرے کے ساتھ اخوت کے رشتے میں بندھ کر رہنا ضروری ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے ہم اپنے دشمن کا مقابلہ کر سکتے ہیں ، یعنی یہ بات واضح ہے کہ اتحاد اس لئے نہیں ہے کہ دشمن سے مقابلہ کیا جائے یہ اور بات ہے کہ جب ہم متحد ہو کر جئیں گے تو اپنے دشمن کے سامنے مضبوط ہوں گے اور جب ہم مضبوط ہوں گے تو وہ آسانی کے ساتھ ہمیں زیر نہیں کر سکے گا ۔ دشمن اگر ہم پر کہیں حاوی ہے تو قرآن کے اس بنیادی دستور کی خلاف ورزی کی بنیاد پر ہمارے ساتھ ایسا ہو رہا ہے اس لئے ہمیں اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا ۔
آج امت مسلمہ کا ایک بڑا مسئلہ اس امت کی صفوں میں پایا جانے والا انتشار ہے جس کے سبب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا میں ہماری کیا درگت بنی ہوئی ہے ، آپ تکفیریوں کے حملوں کو دیکھیں یا پھرجگہ جگہ ایک دوسرے سے متصادم گروہوں کو دیکھیں ہر جگہ دشمن ہمارے آپسی جھگڑوں سے فائدہ اٹھاتا نظر آتا ہے ، آپ نے کچھ دنوں کے اندر مسلسل افغانستان میں شیعوں کے مسجدوں کے حملوں کی غم ناک خبر سنی اور آپ نے دیکھا کہ کس طرح حقوق بشر کا نعرہ لگانے والی دنیا افغانستان کے حملوں کے سامنے دم بخود و ساکت و بے حرکت نظر آئی ،چاہے یہ افغانستان ہو ،عراق و شام ہو یا پاکستان و دوسرے مقامات جہاں پر مسلمان ہی مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے پر تلے ہیں ان سب حوادث کا ایک ظاہر ہے اور انکا ایک باطن ہے ظاہر میں تو یہی نظر آتا ہے ایک خشک قسم کے متہجر گروہ نے بے عقلی کا ثبوت دیتے ہوئے فدائین حملہ کر دیا لیکن اسکے باطن پر لوگوں کی توجہ کم جاتی ہے کہ ایسا کیوں کر ہوہا ہے اور اس طرح کے حملوں کے پیچھے کونسی فکر کار فرما ہے ؟ اگر آپ ان حملوں کی تہہ میں جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان خشک مغز و متہجر لوگوں کو لیس کرنے والے آج دنیا کے پڑھے لکھے اور بظاہر متمدن لوگ ہیں جو ۱۴ سو سال سے اسلام کے خلاف کمر بستہ ہیں کل وہ خود کھل کر سامنے تھے آج کبھی کھل کر اس وقت سامنے آتے ہیں جہاں دیکھتے ہیں انکے مفادات پر کاری ضرب لگ رہی ہے ورنہ اصل گیم پیچھے رہ کر کھیلتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہیں اسلحوں سے کہیں مالی سپورٹ کر کے ایسے گروہوں کو آگے بڑھا دیتے ہیں جو نظریاتی طور پر اس طرح کے حملوں کو عبات سمجھتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں اس طرح ہم خدا سے نزدیک ہو رہے ہیں بعض سلفی گروہ اور خاص کر دولت اسلامیہ جیسی نام نہاد تنظیموں کا اکثر یہی حال ہے چونکہ ان دشمنان اسلام کو پتہ ہے ان مذہبی جنونوں کو اگر کہیں مشغول نہ کیا گیا تو ان کے جنگجویانہ مزاج سے کچھ بعید نہیں یہ یورپ و امریکہ کو آگ کی خندق بنا ڈالیں لہذا انہیں کہیں نہ کہیں مشغول رکھنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ جاری …