اسرائیلی مظالم میں شریک مسلم حکمران

اسرائیل کی اشکلون بندرگاہ سے روزانہ 1 لاکھ 80 ہزار بیرل درآمد ہوتا ہے۔ یہ بندرگاہ غزہ کے قریب ہے اور طوفان الاقصی آپریشن شروع ہونے کے بعد بند کر دی گئی ہے۔ یمن کے حوثی مجاہدین نیز عراق میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے اسرائیل کی ایلات بندرگاہ کو کئی بار میزائل حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔

فاران: اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے تمام تر بین الاقوامی قوانین اور انسانی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غزہ کی پٹی کی شدید ناکہ بندی جاری رکھی ہوئی ہے۔ حتی ایندھن، بجلی، ادویہ جات اور کھانے پینے کی اشیاء بھی غزہ جانے سے روکی جا رہی ہیں جو بذات خود جنگی جرم ہے۔ ایسے وقت خطے کے بعض مسلم ممالک ایسے بھی ہیں جو مسلسل غاصب صیہونی رژیم کو تیل اور گیس فراہم کرنے کے علاوہ کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر بنیادی ضرورت کی چیزیں بھی فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف کچھ مسلم ممالک ایسے ہیں جو غاصب صیہونی رژیم سے گیس درآمد کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مصر اور اردن غاصب صیہونی رژیم سے گیس درآمد کرتے ہیں جبکہ قازقستان اور آذربائیجان اسرائیل کو گیس فراہم کرنے والے اصلی ممالک ہیں۔

افریقہ کے دو ممالک گیبن اور نائیجیریا اسرائیل کو تیل فراہم کرنے والے دو بڑے ملک ہیں۔ مصر بھی محدود پیمانے پر اسرائیل کو تیل فراہم کرتا ہے۔ اس وقت جب اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم جنگ کی حالت میں ہے تو اسے ہر وقت سے زیادہ تیل، گیس، کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر بنیادی ضرورت کا سامان درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی ممالک سے حاصل ہونے والے تیل کے ذریعے ہی غاصب صیہونی رژیم کے جنگی طیارے پرواز کرتے ہیں اور اس کے ٹینک میدان جنگ کی جانب بڑھتے ہیں۔ لہذا وہ اسلامی حکومتیں جو ان دنوں بھی غاصب صیہونی رژیم کو گیس اور تیل فراہم کرنے میں مصروف ہیں درحقیقت غزہ میں جاری نسل کشی اور اسرائیلی مظالم میں شریک جرم ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ترکی سے وسیع پیمانے پر کھانے پینے کی اشیاء اسرائیل بھیجی جا رہی ہیں۔

Solution نامی تحقیقاتی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حیفا اور اشدود میں اسرائیل کی دو ریفائنریز مجموعی طور پر روزانہ 3 لاکھ بیرل تیل صاف کرتی ہیں۔ تیل کی یہ مقدار قازقستان اور آذربائیجان فراہم کرتا ہے۔ اتفاق سے یہ دونوں ممالک او آئی سی کے رکن بھی ہیں۔ اسرائیل کی انرجی کی ضروریات کا 40 فیصد حصہ تیل پر مشتمل ہے جو مذکورہ بالا دو اسلامی ممالک کے علاوہ گیبن اور نائیجیریا سے بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ اخبار بلوم برگ نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بھی اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ قازقستان اور آذربائیجان اسرائیل کو تیل فراہم کرنے والے دو بڑے ملک ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے: “مئی 2023ء سے اسرائیل نے روزانہ 2 لاکھ 20 ہزار بیرل تیل درآمد کیا ہے جس کا 60 فیصد حصہ قازقستان اور آذربائیجان سے حاصل کیا گیا ہے۔”

کچھ دیگر رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردن اسرائیل سے گیس درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ ان رپورٹس کی روشنی میں اردن نے 2017ء سے اسرائیل سے گیس درآمد کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور 2020ء کے بعد اس میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سال سے مصر نے بھی اسرائیل سے گیس حاصل کرنا شروع کر دی ہے۔ گذشتہ برس مصر نے 6 ارب میٹر مکعب گیس اسرائیل سے حاصل کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر مسلم ممالک جو اسرائیل سے تجارت میں مصروف ہیں حالیہ غزہ جنگ میں اسرائیلی اقدامات کی مذمت بھی کر چکے ہیں۔ شاید اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ یہ اسلامی ممالک محض بیان کی حد تک باقی نہ رہیں اور غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کیلئے غاصب صیہونی رژیم پر دباو ڈالنے کی خاطر اس سے تجارتی تعلقات ختم کر دیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبدالہیان نے تمام اسلامی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ غاصب صیہونی رژیم کو تیل اور گیس کی فراہمی بند کر دیں۔ انہوں نے کہا: “اسلامی ممالک کی جانب سے فوری اقدامات انجام دینے کی ضرورت ہے۔ بعض اسلامی ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ فوراً اپنے ملک سے اسرائیلی سفیر اور دیگر سفارتی عملے کو نکال باہر کریں۔ اسی طرح او آئی سی میں ایک قانونی کمیٹی بنائی جائے جو اسرائیلی فوجی اور سیاسی رہنماوں کے جنگی جرائم کی تحقیق کرے۔ اسلامی ممالک کو چاہئے کہ وہ اسرائیل کو گیس اور تیل کی فراہمی بھی مکمل طور پر بند کر دیں۔” یاد رہے غاصب صیہونی رژیم تیل اور گیس کی زیادہ تر درآمدات اپنی بندرگاہوں کے ذریعے انجام دیتی ہے۔ ان میں بحیرہ قلزم میں واقع اشکلون اور حیفا کی بندرگاہیں اور بحیرہ احمر میں واقع ایلات کی بندرگاہ زیادہ اہم ہیں۔

اسرائیل کی اشکلون بندرگاہ سے روزانہ 1 لاکھ 80 ہزار بیرل درآمد ہوتا ہے۔ یہ بندرگاہ غزہ کے قریب ہے اور طوفان الاقصی آپریشن شروع ہونے کے بعد بند کر دی گئی ہے۔ یمن کے حوثی مجاہدین نیز عراق میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے اسرائیل کی ایلات بندرگاہ کو کئی بار میزائل حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ لیبیا کی پارلیمنٹ نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کو تیل اور گیس کی فراہم بند کر دینے اور ان ممالک کے سفیروں کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس قرارداد میں عرب ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات کے مقابلے میں مضبوط موقف اختیار کریں۔ لیبیا کی پارلیمنٹ نے اپنے بیانیے میں عرب لیگ اور او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔