اسرائیلی گلوکار کی جانب سے متحدہ عرب امارات کا تَمَسخُر/ کاش تمام عرب سب امارات کی طرح ہوتے

یہ ایک اسرائیلی مزاحیہ گلوکارہ "نوعم شوستر" کے گانے کے بول تھے جو اس نے اسرائیل کی [بحیثیت ایک ملک] بحالی کے خواہاں اپنے اماراتی دوستوں کے لئے گایا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: “میں سرنگ کے آخر میں ایک روشنی دیکھ رہا ہوں … کاش تمام عرب امارات کی طرح ہوتے اور اسرائیل سے محبت کرتے اور اسے پانی میں نہ پھینکتے … کروڑ پتی عربوں سے بہتر کوئی نہیں، جو فلسطینی عوام کو یکسر بھول گئے… اور کہا کہ اسرائیل دریائے نیل سے فرات تک باقی رہے گا…”۔
یہ ایک اسرائیلی مزاحیہ گلوکارہ “نوعم شوستر” کے گانے کے بول تھے جو اس نے اسرائیل کی [بحیثیت ایک ملک] بحالی کے خواہاں اپنے اماراتی دوستوں کے لئے گایا ہے۔
اس گانے کے بول اتنے واضح ہیں کہ تجزیئے اور وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ گانا واضح طور پر عرب حکومتوں بالخصوص متحدہ عرب امارات کے زوال و ذلت کو ظاہر کرتا ہے جو اسرائیل کو تسلیم، اور اس کے ساتھ تعلق بحال اور اس کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں، لیکن اسرائیلی اب بھی آسانی سے ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کی تذلیل کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ گانا عربی زبان میں گایا گیا تھا تاکہ اس کا پیغام بہرحال ساز عرب ریاستوں تک براہ راست پہنچایا جا سکے اور انہیں ان کے تراجم میں سنسر شپ کا موقع نہ دیا جائے اور نتیجے کے طور پر انہیں ان کے اسرائیلی دوست کے ہاتھوں اپنی توہین، تضحیک اور تمسخر سے بچنے کا امکان چھین لیا جائے۔
اسرائیلی گلوکار نوعم شوستر کے اس گانے کے مقصد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گلوکار نے ایک اسرائیلی سماجی کارکن کے طور پر متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی شرمناک بحالی پر تنقید کی ہے؛ کچھ کا خیال ہے کہ اس کا مقصد تعلقات کی بحالی کے حامی عربوں بالخصوص امارات کو نیچا دکھانا اور ان کی تحقیر و تذلیل کرنا ہے؛ اور یہ رویہ عربوں کے بارے میں اسرائیلیوں کے ہجو گوئی اور تضحیک پر مبنی نقطۂ نظر سے جنم لیتا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لا کر – جو کہ تمام نئی اور پرانی معمول سازیوں سے بالاتر تھا – اپنے آپ کو ایسی افسوسناک صورت حالت میں ڈال دیا کہ اب “اسرائیل” کی خواہش ہے کہ تمام عرب متحدہ عرب امارات کی طرح ہوں، جیسا کہ وہی چیز جو گلوکار شوستر کے گانے میں بیان ہؤا ہے کہ “اسرائیل نے عربوں کی جائیدادوں اور سرمایوں پر بھی قبضہ کیا اور فلسطین کو بھی ان کے دل و دماغ سے نکال دیا”۔
آخر میں ہم معمول سازی میں بنیادی کردار ادا کرنے والی عرب ریاستوں اور ان کے تشہیری نرسنگوں سے دو سوال پوچھتے ہیں:
1۔ اگر یہ گانا کسی عرب اور خاص طور پر لبنانی گلوکار نے گایا ہوتا، تو ان کا کیا موقف کیا ہوتا؟ کیا وہ پھر بھی اپنی زبانیں نگل لیتے اور اپنی حکمرانی اور قومی سالمیت کو بھول جاتے؟ یا نہیں بلکہ، جس طرح کہ لبنانی وزیر جارج قُرداحی نے جب یمن پر سعودی اتحاد کے فضول حملے کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا تھا، تو خلیج فارس کے تمام عرب حکمران غصے سے بھڑک اٹھے تھے، اس گانے پر بھی مشتعل ہو جاتے؟
2۔ دبئی پولیس چیف ضاحی خلفان اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے سب سے زیادہ بلند بانگ پرچارک تھے، سوال یہ ہے کہ اس اسرائیلی گانے کے بارے میں ان کا کیا رد عمل ہے؟ کیا وہ ایک ٹویٹ کے ضمن ميں اس اسرائیلی گلوکارہ کو جواب دیں گے، جس طرح کہ وہ ہر معاملے پر ٹویٹس دیا کرتے تھے؟ کیا وہ توہین آمیز اسرائیلی گانے کا انتقام لیں گے اور اسرائیلی گانے کے جواب میں ایک گانا لکھیں گے اور اسے کسی اماراتی گلوکار سے گوائیں گے؟ یا پھر وہ بھی دوسرے چھوٹے بڑے عرب شیخوں کی طرح اپنی زبان نگل جائیں گے؟
3۔ کیا عرب – بالخصوص اماراتی – حکمران صہیونیوں اور مغربیوں کی توہین و تذلیل پر غضبناک ہوتے بھی ہیں؟ جبکہ سابق صدر ٹرمپ نے بارہا سعودیوں اور اماراتیوں سمیت عرب حکمرانوں کی توہین کی تھی اور یہ سلسلہ آج بھی مغرب اور غاصب صہیونی ریاست میں بدستور جاری ہے۔