اسرائیل پر فلسطینی حملے کے اثرات

اسرائیل اپنی جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کے حوالے سے بہت وسعت رکھتا ہے جبکہ اس کی پشت پناہی یورپی ممالک اور امریکہ جیسی نام نہاد سپر طاقتیں بھی کر رہی ہیں۔ لیکن فلسطین سے اکثر اسلامی ممالک نے شرمناک حد تک منہ موڑ رکھا ہے۔ لیکن اس کسمپرسی کے باوجود مسلم دنیا میں سے فلسطین کے مجاہدین نے وہ کام کر دکھایا ہے، جو کسی بڑی سے بڑی قوت کا بھی حوصلہ نہیں پڑتا تھا کہ اسرائیل سے جنگ کرے۔

فاران: روس اور یوکرائن کی جنگ کو شروع ہوئے تقریباً دو سال ہونے کو ہیں۔ اس جنگ میں ایران اپنے تمام تر وسائل کیساتھ روس کا اتحادی ہے اور روس ایرانی اسلحے کو بھرپور طریقے سے استعمال کر رہا ہے، جس کے باعث اب یہ ختم نہ ہونیوالی جنگ کی شکل اختیار کرچکی ہے اور دنیا میں بہت ساری چیزوں کی نایابی کا باعث بھی بنی ہے۔ اسی وجہ سے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کا آسمان سے باتیں کرنا بھی آج کل میڈیا کی زینت ہے۔ لیکن 7 اکتوبر کو ملت مظلوم فلسطین نے اپنے خطے کو آزاد کرانے کیلئے غاصب اسرائیلی ریاست پر بھرپور حملہ کرکے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اور اب تک عالمی میڈیا پر تبصرے جاری ہیں کہ حماس نے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کے نام سے اتنے بڑے ظالم و جابر دشمن پر کیسے دن دیہاڑے حملہ کر دیا۔ جس میں پہلے ہی دن پانچ ہزار سے زائد راکٹ فائر کیے گئے، جو تل ابیب سمیت کئی شہروں پر گرے اور صیہونی ہلاکتوں کیساتھ دفاعی نقصان کا بھی باعث بنے۔

اسرائیل اپنی جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کے حوالے سے بہت وسعت رکھتا ہے جبکہ اس کی پشت پناہی یورپی ممالک اور امریکہ جیسی نام نہاد سپر طاقتیں بھی کر رہی ہیں۔ لیکن فلسطین سے اکثر اسلامی ممالک نے شرمناک حد تک منہ موڑ رکھا ہے۔ لیکن اس کسمپرسی کے باوجود مسلم دنیا میں سے فلسطین کے مجاہدین نے وہ کام کر دکھایا ہے، جو کسی بڑی سے بڑی قوت کا بھی حوصلہ نہیں پڑتا تھا کہ اسرائیل سے جنگ کرے۔ اس جنگ میں سینکڑوں کی تعداد میں اسرائیلی یہودی مارے گئے اور کم و بیش اتنے ہی یرغمال بنائے گئے۔ لیکن اسرائیلی حکومت کو خبر ہی نہ ہوئی کہ یہ سب کیسے ہوگیا؟ میں حیران ہوں کہ اسرائیل اپنے دفاع کے بارے میں دعویدار تھا کہ اس کے پاس “آئرن ڈوم” کی شکل میں دنیا کا بہترین ائیر ڈیفنس سسٹم موجود ہے، جسے روس اور یوکرائن بھی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

لیکن اس تین روزہ اپنی مثال آپ جنگ میں فلسطینیوں کے حملے اور اسرائیل کی ناکامی سے ثابت ہوگیا کہ اس کے پاس کوئی ایسا ائیر ڈیفنس سسٹم موجود ہی نہیں تھا، جو حماس کے نوجوانوں کے فائر ہوتے راکٹوں کو روک سکتا۔ جنگ کے بعد ایک دن بعد ہوش آیا تو اسرائیلی حکام نے اپنی خفیہ ایجنسی “موساد” کی ناکامی بارے پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوگیا تو اس کا تسلی بخش جواب نہ دیا جا سکا۔ اب اسرائیل نے حکومتی سطح پر اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دے گا۔ جس کے بعد اسرائیلی فورسز نے ہوائی حملے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ ان میں شہری علاقوں پر حملوں سے بچوں، عورتوں سمیت سینکڑوں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ لیکن اس کا کوئی ایسا اثر نظر نہیں آیا، جس سے حماس کی کمزوری ظاہر ہوتی ہو۔ جس دن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ہم حماس کو اس سرزمین سے نکال باہر کریں گے، اسی دن حزب اللہ لبنان کے جنگجووں نے بھی اسرائیل پر حملہ کر دیا۔

دوسری طرف ایک بڑا امریکی بحری بیڑا بھی اسرائیل کی سمندری حدود میں اس کی مدد کیلئے پہنچ چکا ہے۔ جس سے ثابت ہوگیا کہ اسرائیل کے پاس حماس سے لڑنے کی ہمت اور وسائل نہیں ہیں کہ امریکہ بہادر کو صیہونی ریاست کی مدد کیلئے آنا پڑا۔ امریکہ نے اپنے دفاعی نظام، اسلحے اور وسائل کو اسرائیل کے تحفظ کیلئے اسرائیلی بحری حدود میں لا کھڑا کیا ہے، لیکن صیہونی حکومت کو یہ پتہ ہی نہیں کہ آج مسلمان جہادی قوتیں جو فلسطین اور بیت المقدس کو آزاد کروانے کیلئے میدان عمل میں ہیں، وہ بھی حماس اور حزب اللہ کے ساتھ ہیں۔ یمن کے حوثی قبائل پر مشتمل تنظیم “انصار اللہ” کے نوجوان بھی حماس کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کرتے ہوئے شمولیت کا اعلان کرچکے ہیں۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ اس وقت اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ مجاہدین کی طرف سے سیز فائر ہوگا تو وہ بہت بڑی غلطی پر ہے۔ آج مجاہدین نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی قوت کے سہارے اس صیہونی شیطانی قوت کو خطے سے باہر نکال کریں گے۔

اگرچہ امریکہ یا یورپی ممالک برطانیہ، فرانس، جرمنی بھی میدان میں آجائیں، حالات بتا رہے ہیں کہ جنگ ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے اور فتح ان شاء اللہ مسلمان جہادی نوجوانوں کی ہوگی۔ جو حماس، حزب اللہ اور القدس فورس کی صورت میں بے خوف و خطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، یقیناً اللہ کی نصرت سے یہی کامیاب ہوں گے۔ میں یہ کہتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ جنگ کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور قوت کے بعد ایران کے رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا وہ بیان ہے، جس میں وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ اسرائیل یا کسی بھی سامراجی قوت نے ایران پر حملے کی حماقت کی تو اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ یہ بھی مجاہدین کی فتح ہی کی برکت سمجھئے کہ سعودی عرب نے بھی اسرائیل کیساتھ جاری مذاکرات ختم کر دیئے ہیں اور اس حوالے سے مجھے ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کا وہ بیان یاد آ رہا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مسلم ممالک کیساتھ اسرائیل کے مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے۔

ایک اور اہم بات پاکستانی عوام، حکمرانوں اور مذہبی تنظیمات کے سربراہان سے کرنا چاہتا ہوں کہ اتنے دن گزر چکے ہیں کہ ہماری طرف سے فلسطین کے عوام کی حمایت میں کوئی کیمپ لگائے گئے اور نہ ہی امداد کا اعلان کیا گیا، جبکہ حکومت یا عوامی سطح پر فلسطینی عوام کہ جن پر پانی، ادویات، خوراک، بجلی اور گیس بند کی گئی ہے، اس حوالے سے امداد کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ پاکستان امت مسلمہ کے مسائل میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا ہے۔ ہمیں عوام سے اپیل کرنی چاہیئے کہ اپنے مسلمان بھائیوں اور قبلہ اول کے محافظوں کو خوراک اور ادویات پہنچانے کیلئے مدد کریں۔ پاکستان سے ادویات اور ڈاکٹروں کی ٹیمیں بھیجنے کا اعلان کرنا چاہیئے۔ اس حوالے سے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور چاروں وزرائے اعلیٰ کی طرف سے بھی حمایت کا اعلان اور فنڈ ریزنگ کیلئے آگے بڑھنا چاہیئے۔ہمارے سرمایہ داروں اور بڑے بڑے صنعتکاروں کو بھی اس کام کے لیے اگلی صفوں میں نظر آنا چاہیئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں جماعت اسلامی سمیت بڑی تنظیمیں موجود ہیں، جو امدادی کیمپ لگا سکتی ہیں اور ادویات اکٹھی کرکے فلسطین بھجوا سکتی ہیں۔ انسانیت کی خدمت میں ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیئے۔