اسرائیل کے قیام کا تاریخچہ (۲)

اس اقدام کے چند ہی گھنٹے بعد امریکہ اور سووویت روس نے اس ریاست کو تسلیم کیا۔ اور یہودی ایجنسی نے اسرائیلی ریاست کی تشکیل کے اعلامیے کے ضمن میں اقوام متحدہ کی قرارداد ۱۸۱ کو یہودی عوام کی طرف سے خودمختار ریاست کی تشکیل کا حق تسلیم کئے جانے کا اظہار قرار دیا۔

فاران؛ دوسری عالمی جنگ کے بعد سنہ ۱۹۴۷ میں برطانیہ اگلے سال (۱۹۴۸ میں) فلسطین سے اپنے انخلا اور فلسطین کا انتظام اقوام متحدہ کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔ ۲۹ نومبر سنہ ۱۹۴۷ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قراداد کے تحت فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور اس سرزمین کے ۴۳ فیصد حصے کو عربوں اور ۵۶ فیصد حصے کو یہودیوں کے حوالے کیا اور بیت المقدس کو بین الاقوامی عملداری میں دیا گیا۔
مورخہ ۱۵ مئی کو فلسطین پر برطانیہ کی سرپرستی کی مدت اختتام پذیر ہوئی تو فلسطین کے تمام ادارے نیست و نابود ہوچکے تھے اور انگریزوں کے انخلاء سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لئے کوئی بھی ادارہ موجود نہیں تھا۔ یہودیوں نے ـ جو اقوام متحدہ کے تقسیم کردہ علاقوں پر مسلط ہوچکے تھے ـ ایک عبوری حکومتی کونسل تشکیل دی جو ۳۸ اراکین پر مشتمل تھی اور اس کونسل نے ایک تیرہ رکنی کابینہ کا انتخاب عمل میں لایا۔ اسی دن ڈیوڈ بن گورین نے ـ جو بعد میں وزیر اعظم بنا ـ وزارت دفاع کا قلمدان سنبھال لیا اور کابینہ کے قیام کا اعلان کیا۔
اس اقدام کے چند ہی گھنٹے بعد امریکہ اور سووویت روس نے اس ریاست کو تسلیم کیا۔ اور یہودی ایجنسی نے اسرائیلی ریاست کی تشکیل کے اعلامیے کے ضمن میں اقوام متحدہ کی قرارداد ۱۸۱ کو یہودی عوام کی طرف سے خودمختار ریاست کی تشکیل کا حق تسلیم کئے جانے کا اظہار قرار دیا۔
اس اعلامیے میں البتہ اسرائیل کے لئے کوئی سرحد متعین نہیں کی گئی تھی لیکن یہودی ایجنسی نے امریکی صدر ٹرومین کے نام اپنے پیغام میں انہیں اسرائیل کے باضابطہ تسلیم کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی کا اعلامیہ ان سرحدوں تک محدود ہے جن کا تعین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کی منظور کردہ قرارداد میں ہوا تھا۔ قرارداد نمبر ۱۸۱ کے ساتھ ساتھ، یہودی ایجنسی نے فلسطین کے سلسلے میں اپنے دعوے کے ضمن میں مقدرات کے فیصلے اور فلسطین پر قدیم یہودی مالکیت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور مختلف ملکوں اور اقوام میں سے ہجرت کرنے والے یہودیوں کو قدیم عبرانیوں کا جانشین قرار دیا۔
اسی دن، بوقت شام، مصر، شام، اردن اور لبنان نے نوظہور اسرائیلی ریاست کے خلاف اعلان جنگ کیا اور یہ عرب ـ اسرائیل کی پہلی خونریز جنگ تھی۔
اسرائیل کے قیام کے اعلامیے میں فلسطینی عوام ـ جو ۹۷ فیصد سرزمینوں کے مالک تھے ـ کو “غیر یہودی معاشروں” کے تحت سرے سے نظر انداز کیا گیا تھا جس کے باعث پوری دنیا کے یہودی غیر قانونی طور پر فلسطین کی طرف آنا شروع ہوئے اور امریکی صدر ولسن نے بھی اس غیرقانونی ہجرت کی حمایت کا اعلان کیا۔ دوسری طرف سے فلسطین کے خون بھرے واقعات کی وجہ سے عالمی رائے عامہ میں نفرت کی لہر دوڑ گئی اور یہودیوں کی نوزائیدہ ریاست کو شدید تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکہ میں مقیم صہیونی یہودیوں نے بھی اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرکے یہودی ریاست کی تشکیل پر زور دیا۔ فلسطینیوں پر تشدد اور ان کے آزار و اذیت کے باعث صہیونیوں کے خلاف عالمی غیظ و غضب میں شدت آئی اورانھوں نے اقوام متحدہ سے احتجاج کیا۔ قبل ازیں ـ یعنی ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کو ـ امریکہ اور سوویت روس نے اپنے ایک غیر معمولی اور نادر مفاہمت نامے کے تحت فلسطینی سرزمین کی دو عرب اور یہودی حصوں میں تقسیم کے منصوبے پر عملدرآمد کیا اور اقوام متحدہ سے کہا کہ اس منصوبے کو منظور کرلے؛ جس نے عالم اسلام میں غصے اور نفرت کی لہر دوڑا دی اور سابق سوویت روس اور صہیونیوں کے خلاف بیت المقدس، یافا، حیفا اور فلسطین کے کئی دوسرے شہروں اور کئی اسلامی ممالک میں خونی مظاہرے ہوئے۔
مورخہ ۸ دسمبر ۱۹۴۷ کو عرب لیگ نے ایک نشست میں اقوام متحدہ کے خائنانہ فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے یہودی صہیونیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ فیصلے کئے۔ سنہ ۱۹۴۸ میں مصری طیاروں نے ابتداء میں اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کو بمباری کا نشانہ بنایا اور لبنان کی بکتر بند یونٹوں نے شمال سے، شام اور اردن نے مشرق اور مصر نے مغرب سے فلسطین کی طرف عزیمت کی۔
ابتدائی دنوں میں اردن کی افواج نے بیت المقدس کے ایک بڑے حصے کو یہودی قبضے سے آزاد کرایا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دیکھا کہ جنگ یہودی غاصبوں کے نقصان میں ہے، تو اس نے ۲ جون ۱۹۴۸ کو ـ جبکہ جنگ کے آغاز سے ۱۹ دن گذر رہے تھے ـ جنگ بندی کی اپیل کی۔ یہودیوں نے اس جنگ بندی سے فائدہ اٹھایا اور امریکہ اور چیکوسلواکیہ کی مدد سے اپنے فوجی دستوں کو کیل کانٹے سے لیس کیا اور اسی سال ماہ ستمبر میں ـ یعنی صرف تین ماہ بعد ـ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا اور فلسطین کے اندر “ہاگانا” یا “یہودی حملہ آور اور دفاعی فوج” نے علاقہ “عکا” پر حملہ کیا جہاں حیفا اور دوسرے عرب علاقوں کے ہزاروں عربوں نے پناہ لی تھی اوران پر زبردست فائرنگ کی۔ اور بعدازاں ہاگانہ کے ساتویں بریگیڈ نے گھمسان کی لڑائی کے بعد شہر “ناصرہ” پر قبضہ کرلیا اور مصر کی طرف پیشقدمی کا آغاز کیا۔
دوسری جنگ میں عرب افواج مشترکہ کمان اور ہماہنگی نہ ہونے کے باعث استقامت نہ دکھا سکے جس کے نتیجے میں اسلامی سرزمینوں کا ۶۰۰۰ کلومیٹر کا رقبہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا اور یہ جنگ اقوام متحدہ کی مداخلت سے اختتام پذیر ہوئی۔
بہار ۱۹۴۹ میں اسرائیل نے مصر، لبنان، ماورائے اردن اور شام کے ساتھ الگ الگ مذاکرات کرکے اختتام جنگ کے مفاہمت ناموں پر دستخط کئے۔ لیکن یہ مفاہمت نامے بھی دیرپا ثابت نہ ہوئے اور اسرائیلی ریاست کے حملے وقتا فوقتا جاری رہے۔ اسی سال غاصب یہودی ریاست نے فلسطین کے ۴۰۰ شہروں اور دیہاتوں کو ویراں کردیا اور ویرانوں پر مصنوعی جنگل کاری کا اہتمام کیا۔
چنانچہ اس جنگ میں ۱۰ لاکھ فلسطینی بےگھر ہوکر عرب ممالک میں پناہ گزین ہوئے اور فریقین کے ہزاروں سپاہی ہلاک اور زخمی ہوئے اور یہودی فلسطین کے ۷۸ فیصد حصے پر مسلط ہوئے۔ دوسری طرف سے دنیا بھر سے یہودیوں کی فلسطین آمد میں اضافہ ہوا اور یہ سلسلہ ۱۹۵۱ میں اپنے عروج کو پہنچا۔
جنگ اور فلسطینیوں کے قتل اور ان کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیوں نیز اپنی آبائی سرزمینوں سے ان کے مسلسل فرار کے نتیجے میں فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ معرض وجود میں آیا اور یہ مسئلہ ۱۹۶۷ کی ۶ روزہ عرب ـ اسرائیل جنگ کا سبب بنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔