اسراف، عریانیت و بے حجابی کے مقابل ہماری معاشرتی ذمہ داری

کتنے افسوس کی بات ہے کہ بعض شادیوں میں دوسرے مذاہب و اقوام کے لوگ بھی آتے ہیں جب وہ لوگ ہماری شادیوں میں شریک ہوتے ہوں گے بعض محفلوں میں عریانیت و بے حجابی کودیکھتے ہوں گے تو کیا تصور لے کر جاتے ہوں گے ہمارے دین کے بارے میں ؟ کیا رائے قائم کرتے ہوں گے ہمارے مذہب کے بارے میں ؟ وہ بھی اس دور میں جہاں حجاب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ؟

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: وطن عزیز میں جہاں ہمارے ساتھ سیاست کے میدان میں بڑے بڑے مسائل ہیں وہیں معاشرتی مسائل بھی ہیں جنکا کوئی تعلق سیاست سے نہیں ہے ہم چاہیں تو خود انہیں حل کر سکتے ہیں ، آج جب پوری دنیا میں حجاب کے خلاف مغربی تہذیب کے دلدادہ مل کر یلغار کر رہے ہیں اور ہماری بعض با حیا خواتین اپنے حجاب کی خاطر صاحبان اقتدار سے بھڑی ہوئی ہیں کتنے افسوس کی بات ہے کہ کچھ جگہوں پر ہمارے درمیان ہی ایسے مناظر دیکھنے کو ملیں جہاں سے روح دین و مذہب حتی غیرت و حیا غائب ہو ۔
آج ہم سب پر لازم ہے کہ اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو پہچانیں، دیکھیں اور غور کریں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ہمارے بزرگوں نے ہمیں کہاں چھوڑا تھا ہمارے سامنے جو ایام ہیں ان میں عام طور پر شادی بیاہ کی رسمیں منعقد ہوتی ہیں خاص کر دسمبر جنوری میں موسم کو دیکھتے ہوئے بھی اور ان ایام کی مناسبتوں کا دیکھتے ہوئے بھی ایام فاطمیہ کو چھوڑ کر ربیع الاول سے لیکر شعبان کے آخر تک یہ وہ ایام ہیں جن میں لوگ عام طور پر کہیں شادی حال بک کراتے نظر آتے ہیں کہیں شادی کارڈ چھپواتے تو کہیں نکاح کی محفلوں کے لئے ضروری وسائل کی فراہمی میں مشغول نظر آتے ہیں ، آج کر ہماری ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ دنیاوی زرق برق نے ذہن و دل و دماغ کو اتنا بری طرح متاثر کیا ہے کہ ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے تعریفوں کے تمغوں سے سجا دیا جائے کہ صاحب بیٹے کی کیا شادی کی ، کیا زبردست کارڈ تھا ، کیا زبردست نیوتہ تھا کیا رسمیں ہوئیں کیا ہی شاندار پر تکلف ولیمہ تھا ہم نے تو آج تک نہ ایسا ولیمہ دیکھا نہ ایسی شادی دیکھی نہ ایسا کھانا دیکھا نہ ایسی کیٹرنگ ہر ایک چیز لا جواب و بے نظیر تھی ، ان جھوٹے سچے ستائشی تمغوں نے پورے معاشرے میں اس سنت نبوی کا مذاق بنا دیا ہے جسے اگر سادگی کے ساتھ انجام دیا جائے اور سلیقہ سے انجام دیا جائے تو اس میں شریک ہر فرد کو عبادت کا ثواب ملے ، کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہاں کچھ لوگوں کو اپنے بچوں کی شادی میں یہ بھی نظر نہیں آتا کہ اپنی خوشی میں وہ ائمہ طاہرین علیھم السلام کی ناراضگی کا بھی خیال نہیں رکھ رہے ہیں ان کی ناراضگی ہو ہوتی رہے ہمیں اپنی خوشی عزیز ہے ۔
بعض جگہوں پر دل یہ دیکھ کر روتا ہے کہ ہر طرف عریانیت و بے حجابی ہے مکس گیدرنگ ہے خود نمائیاں ہیں اور ان کے درمیان علماء ایسے بیٹھے ہیں جیسے کسی اجنبی شہر میں کوئی مسافر چلا آ یا ہو اور ہر ایک کو ٹٹولتی نظروں سے دیکھ کر سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو کہ کیا ہو رہا ہے ۔
ایسے ایسے شادی کارڈ تقسیم ہو رہے ہیں کہ لگتا ہے کوئی پورا صحیفہ ہو ، چاندی کے کام سے مزین ، سنہرے نقش و نگا ر کے حامل ایسے ایسے کارڈز جس کی ایک ایک کاپی پر خاصہ خرچ آتا ہے اچھی خاصی لاگت لگتی ہے ، یہ وہ بیماری ہے جو روز بروز پھیلتی جا رہی ہے جبکہ آج کر نیٹ کی سہولت ہے، اجتماعی رابطے کی مختلف ایپس موجود ہیں ڈیجیٹل کاررڈ کی سہولت فراہم ہے لیکن بس یہ دکھاوا ہے جو انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا ، ان کارڈ پر جتنی لاگت آتی ہے کاش اتنی لاگت لگا کر ائمہ طاہرین علیھم السلام کے اقوال سے مزین کوئی کتابچہ انسان نکال لے ، کاش کوئی شادی بیاہ کے مسائل پر کوئی کتاب پرنٹ کروا کر تقسیم کرا دے ، لیکن کتاب تو وہاں چھپتی ہے جہاں کوئی پڑھنے والا ہو ، جہاں ہر ایک انسان ایک نمائشی میدان کا گھوڑا بن چکا ہو وہاں کیا ہو سکتا ہے ۔
دوسرے مذاہب و اقوام کی رسموں کی شمولیت :
بعض شادیوں میں اب یہ وبا بھی چلی ہے کہ ہماری اپنی شادیوں میں وہ رسمیں بھی شامل ہو رہی ہیں جنکا تعلق ہماری مروجہ رسموں سے نہیں ہے لیکن انہیں اب ایڈ کیا جا رہا ہے اور اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں کہ کیا پہلے کم رسمیں تھیں جو اور بھی بڑھائی جا رہی ہیں ، مایوں ، ہلدی ، مانجھا ، بری ، نہ جانے کیا کیا تو ہے اس کے بعد دوسرے اقوام کی رسموں کو شامل کیا جانا کہاں تک صحیح ہے ۔
جو مذہبی لوگ ہیں بے چارے ہر شادی میں پریشان نظر آتے ہیں کہ کیا پہنیں کیا نہیں ؟ کہاں جائیں کہاں نہیں ؟ کہاں بیٹھیں کہاں نہیں ؟
اب ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ہر ایک رسم کے کپڑے ایک جیسے ہوں ، جس گھر میں شادی ہے پہلے ہی وہاں ایک گروپ بن جاتا ہے کہ اور روز ہی ایک وحی صبح اٹھتے ہی لوگوں کا انتظار کرتی ہے کہ اب آگے کیا کرنا ہے آج اٹھ کر کیا کرنا ہے ، مہندی کا لباس کیسا ہوگا ، مایوں اور ہلدی میں سب کو کونسے کلر کا لباس پہننا ہے چوتھی کے دن سب کو کیا پہننا ہے ، اس اوڑھنے اور پہننے کے درمیان وہ لباس جسے دین کہا گیا ہے انسان اس بری طرح تار کر پھینکتا ہے کہ ان چند دنوں میں تو اس کی ضرورت ہی نہیں کوئی مرے گا اس دنیا سے جائے گا تو دیکھا جائے گا ۔
بے حجابی اور بے پردگی اس طرح کی محفلوں کی ایک دوسری بڑی مشکل ہے ، کہاں دین کہتا ہے کہ عزیز کی شادی ہے تو پاگل ہو جاو ، شریعت کی دھجیاں اڑا دو دین کے دستور کو پامال کر دو ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ بعض جگہوں پر یہ سننے اور دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہم جو ہال بک کر رہے ہیں کیا کریں وہاں پر مجبوری ہے کہ پردہ کا انتظام نہیں ہو سکتا ؟ سب لوگ ایک جگہ اکھٹے ہی کھا پی لیں گے اس میں برا کیا ہے جس کو پردہ کرنا ہے وہ پردہ کرے جس کو نہیں کرنا ہے وہ نہ کرے ہم کیوں خواتین و مرد کے درمیان دیوار کھڑی کریں ؟ کیا یہ چیز قابل برداشت ہے ؟
کیا امر بالمعروف و نہی عن المنکر صرف علماء پر واجب ہے ؟ ہمارے اوپر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ؟ افسوس کا مقام ہے دینی انحطاط و زوال کا یہ عالم ہے کہ وہ بچیاں جن کا تعلق آل رسول ص سے ہیں جو نسل زہرا سلام اللہ علیہا سے ہیں بسا اوقات ان بے ہنگم محافل میں حجاب و چادریں اتار اتار کر تماشا بینوں کی نگاہوں کا مرکز بن جاتی ہیں اور سب کچھ ویسا ہی چلتا رہتا ہے جیسا ہونا ہے ، کسی کے دل میں در د نہیں ہوتا کسی کا سینہ نہیں جلتا کہ کیا ہو رہا ہے ؟ یہ اس گھرانے سے متعلق خواتین ہیں جس کے لئے آیہ تطہیر نازل ہوئی ؟ مارڈنزم و جدیدیت کی ہوا ہمیں کہاں لے کر جا رہی ہے ؟ ہم کس تہذیب کے پیچھے اندھے ہو کر بھاگ رہے ہیں ذرا سوچیں اور غور کریں ؟ وہ شادی کیسے شادی ہے جس میں ہم تو خوش ہوں لیکن روح سیدۃ النسا ءالعالمین فریاد کرتی نظر آئے ، وہ شادی کیا شادی ہے جہاں شہنائیاں بج رہی ہوں اور ان کے درمیان گریہ زہرا س کی آواز سننے والا کوئی نہ ہو ، وہ شادی کیسی شادی ہے ، جہاں دولہا دلہن کے ہاتھوں میں لگہی مہندی اتار کر دین کو بھی دھو دیا جائے کہ اب اسکا کوئی کام نہیں ہے ۔
دوسرے مذاہب کے لوگوں کا ہمارے بارے میں تصور :
کتنے افسوس کی بات ہے کہ بعض شادیوں میں دوسرے مذاہب و اقوام کے لوگ بھی آتے ہیں جب وہ لوگ ہماری شادیوں میں شریک ہوتے ہوں گے بعض محفلوں میں عریانیت و بے حجابی کودیکھتے ہوں گے تو کیا تصور لے کر جاتے ہوں گے ہمارے دین کے بارے میں ؟ کیا رائے قائم کرتے ہوں گے ہمارے مذہب کے بارے میں ؟ وہ بھی اس دور میں جہاں حجاب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ؟ عالمی طور پر ایک سازش رچی جا رہی ہے حجاب کو لیکر ؟ جب یہ کہا جا رہا ہے حجاب دین کا حصہ نہیں ہے حجاب کرنا ایک اختیاری عمل ہے یہ دوسرے مذاہب و اقوام سے متعلق افراد جب ایسی شادیوں میں آتے ہوں گے جہاں زن و مرد کا مخلوط اجتماع ہو جہاں حجاب سروں پر نہ ہو اور بالوں میں سندور نظر آتا ہو تو کیا یہ اس بات کی تقویت نہیں ہوگی کہ بلا وجہ مسلمان حجاب کو لیکر تنازعہ کھڑا کر رہے ہیں ان کے یہاں عملی طور پر بھی تو یہی ہے اگر یہ ضروری امر ہوتا تو سبھی حجاب میں ہوتے ، اس طرح کے شبہات کا جواب نہ کتابیں لکھ کر دیا جا سکتا ہے نہ مضامین سے اسکا جواب ممکن ہے ، کتابیں ، مقالات اور تحریریں اپنی اپنی جگہ اثر اانداز ضرور ہوتی ہیں لیکن اسکا جواب جیسا ہم اپنے عمل سے دے سکتے اپنی فرض شناسی و ادائگی فرض سے دے سکتے ہیں ویسا کسی اور طرح سے ممکن نہیں ہے لہذا ہم سب کے لئے ضروری ہے سماج اور معاشرے میں اپنے فرائض کو پہچانیں اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں ۔ کیا ہم نہیں دیکھ رہے ہیں کس طرح مسلسل ہماری ثقافت کو تاراج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کس طرح ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جن سے ہماری شریعت کا ٹکراو ہو اور ہمیں مجبور کیا جائے کہ ہم قانون کے احترام میں شریعت سے ہاتھ کھڑے کر لیں کیا ایسے میں ضروری نہیں ہے کہ ہم اپنی تہذیب و اپنی ثقافت کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے ملک کے تئیں اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے مذہب سے بھی اپنی محبت و وفاداری کا ثبوت دیں ، شک نہیں کہ اگر ہم اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کی نزاکت کو سمجھیں تو کافی حد تک ان مسائل کا حل تو کر ہی سکتے ہیں جو دوسروں کے ہاتھوں میں نہیں اور اسکے ذمہ دار ہم خود ہیں ۔