اسٹاک ہوم اور کوپن ہیگن کیلئے موساد کا نسخہ

ڈیموکریسی کے دعویدار دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے بعد محض معذرت خواہی کر کے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے کیونکہ اسلامی مقدسات کی بے حرمتی جیسے واقعات مسلمانوں پر گہرے منفی اثرات ڈالتے ہیں جو اتنی جلدی ختم ہونے والی نہیں ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گذشتہ چند دنوں میں دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی نظر میں مقدس اور الہی کتاب قرآن کریم کی بے حرمتی کا دوسرا واقعہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پہلا واقعہ سویڈن جبکہ دوسرا واقعہ ڈنمارک میں رونما ہوا۔ یہ افسوسناک واقعات یورپی ممالک کی حکومت اور پولیس کی باقاعدہ اجازت سے آزادی اظہار کے نام پر انجام پائے ہیں۔ تقریباً تمام اسلامی ممالک نے اس غیر انسانی حرکت کی شدید مذمت کی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپ میں اسلاموفوبیا اور اسلام دشمنی پر مبنی اقدامات کا آغاز کب سے ہوا؟ جب ہم تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یورپی ممالک میں اسلاموفوبیا کی ابتدا صلیبی جنگوں کے دوران ہوئی تھی جو آج تک مختلف پہلووں اور صورتوں میں جاری ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب اسلامی دنیا سے بڑی تعداد میں مسلمان مہاجرین یورپ پہنچے تو ایک بار پھر اسلاموفوبیا کی لہر میں شدت آ گئی۔

بعض عناصر ہمیشہ سے یورپ میں اسلاموفوبیا اور اسلام دشمنی پر مبنی اقدامات کا باعث بنتے آئے ہیں۔ ان میں سے ایک یورپی ممالک کے مقابلے میں اسلامی دنیا میں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے۔ تہذیبوں کے درمیان ٹکراو نامی نظریے کا بانی ہنٹنگٹن، مغربی تہذیب کے زوال کی بنیادی ترین وجہ اسلامی معاشروں کی ترقی گردانتا ہے۔ یورپ میں اسلاموفوبیا کا سبب بننے والا دوسرا عنصر صیہونی لابی کی جانب سے مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں کے ساتھ خفیہ اور کھلم کھلا دشمنی ہے۔ اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد نے مغربی دنیا میں اسلاموفوبیا پھیلانے پر خاص توجہ دے رکھی ہے اور اس بارے میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے عمل پیرا ہے۔ بعض مغربی ممالک کے سکیورٹی اور حکومتی ادارے باقاعدہ طور پر اس منصوبے میں موساد کا ساتھ دینے میں مصروف ہیں۔

قرآن کریم اور اسلامی مقدسات کی توہین کا عمل سب سے پہلے امریکہ، اس کے بعد فرانس (چارلی ایبڈو میگزین)، پھر ڈنمارک اور اس کے بعد سویڈن میں انجام پایا ہے۔ ان واقعات میں بھی صیہونی انٹیلی جنس ایجنسیاں ملوث دکھائی دیتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم کی بے حرمتی درحقیقت تمام ابراہیمی مذاہب کی توہین ہے جن میں عیسائیت اور یہودیت بھی شامل ہیں۔ لہذا اس کا آزادی اظہار اور انسانی حقوق سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انسانی حقوق اور ڈیموکریسی کے دعویدار یورپی حکمران ہمیشہ کتاب کو ایک ثقافتی علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور کتاب کی بے حرمتی کو عقیدہ اور سوچ کی توہین قرار دیتے ہیں۔ مغربی حکمرانوں کی جانب سے ثقافتی، سیاسی اور اعتقادی ایشوز کے بارے میں دوغلے رویے ہی درحقیقت آزادی اظہار کے غلط استعمال اور اس کی آڑ میں اسلامی مقدسات کی بے حرمتی کی اصل وجہ ہیں۔

اسلامی مقدسات کی توہین میں صیہونی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے واضح کردار کے علاوہ ایک اور سبب بھی کارفرما ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران یورپی حکمرانوں میں ایک انتہائی خطرناک سوچ پیدا ہو گئی ہے جو اس بات پر مشتمل ہے کہ ہماری تشخیص ہمیشہ درست ہوتی ہے اور باقی سب پر اسے ماننا ضروری ہے۔ اس کی واضح ترین مثال یہی قرآن کریم کی بے حرمتی پر مبنی واقعات ہیں جنہیں یورپی حکمران آزادی اظہار کا نام دے کر آسانی سے نظرانداز کر دیتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مذموم اور غیر انسانی اقدام حتی اس بین الاقوامی انسانی حقوق کے منشور سے بھی تضاد رکھتا ہے جسے خود یورپی رہنماوں نے 1966ء میں تشکیل دیا تھا۔ دراصل ان کا مقصد اسلام کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس وقت مغربی تھنک ٹینکس اور تحقیقاتی ادارے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ عنقریب ظاہر ہونے والے ملٹی پولر عالمی نظام میں اسلامی دنیا ایک اہم طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آنے والی ہے۔

سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کی بے حرمتی کے اس منحوس سلسلے کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ اس کا واحد راہ حل تمام اسلامی ممالک کی جانب سے متحد اور یک زبان ہو کر پوری طاقت سے اسلامی مقدسات خاص طور پر قرآن کریم کا دفاع کرنا ہے۔ اسلامی ممالک اپنی بڑی تعداد، وسیع آبادی، تیل اور گیس کے عظیم ذخائر، بہترین جیوپولیٹیکل پوزیشن اور وسیع اسلامی مراکز کا حامل ہونے کے ناطے باہمی تعاون اور ہم آہنگ انداز میں ضروری اقدامات انجام دے کر اسلاموفوبیا اور اسلام دشمنی پر مبنی اقدامات کا موثر انداز میں مقابلہ کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مدمقابل یورپی ملک سے سیاسی تعلقات کی سطح کم کرنا، اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا، نرم جنگ کے میدان میں ثقافتی اور میڈیا طاقت بڑھانا، بین الاقوامی اداروں اور عدالتوں جیسے ہیگ عالمی عدالت میں اسلامی مقدسات کی توہین کے خلاف کاروائی کرنا وغیرہ جیسے اقدامات شامل ہیں۔

ڈیموکریسی کے دعویدار دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے بعد محض معذرت خواہی کر کے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے کیونکہ اسلامی مقدسات کی بے حرمتی جیسے واقعات مسلمانوں پر گہرے منفی اثرات ڈالتے ہیں جو اتنی جلدی ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ مغربی طاقتوں کی جانب سے تکفیری دہشت گردی کے ذریعے اسلامی دنیا کو کمزور کرنے کی منحوس سازش ناکام ہو جانے کے بعد اب وہ اسلام کا چہرہ خراب کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ آج کوئی ایسا دن نہیں جب مغربی میڈیا دین مبین اسلام کے بارے میں کوئی منفی خبر نہ دیتا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کی بے حرمتی ان کا آخری ہتھکنڈہ نہیں ہے لہذا تمام اسلامی ممالک اور اسلامی دنیا کی تمام مذہبی شخصیات کو متحد ہو کر اس کے خلاف موثر اقدام انجام دینے کی ضرورت ہے۔