افغانستان سے انخلاء بڑے شیطان کی شکست کی انتہا نہیں اس کے زوال کا آغاز ہے

امر مسلم یہ ہے کہ بڑا شیطان ہار گیا جبکہ افغانستان سے ذلت آمیز انخلاء ایک بڑے شیطان کی شکست اور پسپائی کی انتہا نہیں، بلکہ دنیا کے مختلف ممالک سے ان کے بتدریج انخلاء کا آغاز ہے۔

فاران؛ طالبان مورخہ 15 اگست 2021ء کو – سابق صدر اشرف غنی احمد زئی کے فرار کے بعد – کابل میں داخل ہوئے۔ مغربی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ “کابل میں طالبان کا داخلہ، افغانستان کی مطلوبہ تعمیر نو!!! میں امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کی ناکامی ہے”۔
چین نے واضح طور افغانستان میں امریکی شکست کو مغربی طرز زندگی اور مغربی اقدار دوسرے ممالک پر ٹھونسٹے میں امریکہ کی مکمل ناکامی قرار دیا اور امریکی پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کی۔
اقوام متحدہ میں چینی مندوب نے چند روز پہلے افغانستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: ریاست ہائے متحدہ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور بعض دوسرے ممالک – اپنی افواج کے ہاتھوں افغانستان میں انسانی حقوق کی شدید پامالی کے حوالے سے “جوابدہ” ہونا چاہئے اور اس اجلاس کا رخ اسی جانب موڑ لینا چاہئے۔
ژانگ جن (Jhang Jun) کا کہنا تھا ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور دوسرے ممالک جمہوریت اور انسانی حقوق کے بہانے مختلف ممالک میں فوجی مداخلت کرتے ہیں اور اپنے پسندیدہ طرز کو تاریخ و تہذیب کے حامل ممالک پر ٹھونس دیتے ہیں۔

امریکہ پر طویل المدت منفی اثرات / حالات کی تبدیلی ایران، چین اور روس کے حق میں
ادھر کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی پسپائی کا انداز واشنگٹن کی عالمی حیثیت پر طویل المدت اثرات مرتب کرے گا۔ امریکی کانگریس میں خارجہ کمیٹی کے ریپلکن رکن مائکل میک کال (Michael McCaul) نے حال ہی میں اسی مسئلے کی طرف اشارہ کیا اور افغانستان سے پسپائی کی وجہ سے دنیا میں امریکی حیثیت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: “یہ واقعات ایران، روس اور چین کے مفاد میں ہونگے”۔
میک کال نے کہا: ہمارے پاس میدانی صورت حال کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ مکمل طور پر بےخبر ہوں۔ اگر کابل ائیرپورٹ کو ایک طرف رکھ لیں تو ہم مکمل طور پر بےخبر ہیں۔ یہ نہ صرف طالبان کی فتح ہے بلکہ ایران، چین اور روس کے لئے بھی بہت بڑی کامیابی ہے۔ ہم اس کے بعد علاقے میں ان ممالک کی سرگرمیوں کی نگرانی نہیں کرسکیں گے۔

بائیڈن پر نکتہ چینیوں کی بوچھاڑ
ابھی کابل کے ہوائی اڈے پر بم دھماکہ نہیں ہؤا تھا اور امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوئے تھے کہ جو بائیڈن پر نکتہ چینیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ ذرائع ابلاغ نے دو ہفتے قبل رپورٹ دی تھی کہ افغانستان کے سلسلے میں بائیڈن کے فیصلے اور امریکی فوجیوں کے عجلت زدہ فرار – جس کی وجہ سے کابل پر طالبان کا قبضہ ہؤا – کو مد نظر رکھ کر، امریکی قانون ساز ان کے بارے میں تحقیقات شروع کرنے کے درپے ہیں۔
بائیڈن کے حلیف ڈیموکریٹ اراکین سمیت، امریکی کانگریس کے اراکین نے افغانستان کی صورت حال پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے، کہا ہے کہ “اس بحران کے اسباب و دلائل کے بارے میں تحقیق کریں گے”۔
تصمیم نے اپنے فیصلے کا دفاع کیا
اس کے باوجود، جو بائیڈن نے افغانستان کے سلسلے میں اپنے فیصلوں کو درست قرار دیا گوکہ بعض مراحل میں انھوں نے بعض واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے سے پہلو تہی کی ہے اور ان واقعات کی ذمہ داری دوسروں پر تھونپی ہے۔
بطور مثال، بائیڈن نے دو ہفتے قبل منگل کے روز ایک خطاب کے دوران افغانستان پر طالبان کے تیز رفتار قبضے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ سابق صدر ٹرمپ کی مفاہمتی دستاویز کی طرف اشارہ کیا اور اور ٹرمپ ہی کو افغانستان طالبان کے قبضے کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور افغانستان سے فرار ہونے والے سابق افغان صدر اشرف غنی سے ناامیدی ظاہر کی تھی۔ جبکہ بائیڈن نے اس سے چند ہفتے قبل افغانستان پر طالبان کے قبضے کے امکان کو سرے سے مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ اگر طالبان نے حملہ کیا تو افغانستان کا سیکورٹی ڈھانچہ اس ملک کے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ اکتوبر 2001ء میں مشن بعنوان “افغانستان میں پائیدار آزآدی” کے بہانے اس ملک پر چڑھ دوڑا تھا۔ اور بائیڈن نے حالیہ شدید رسوائی اور تاریخی شکست کھانے کے بعد، بھی دنیا والوں کی آنکھوں ميں دھول ڈالنے کی (اس بار البتہ ناکام) کوشش کرتے ہوئے دعوی کیا کہ “افغانسان میں جمہوریت کا قیام اور آزادی کی بحالی کبھی بھی امریکی مشن [یعنی پائیدار آزادی یا Lasting Freedom] میں شامل نہیں تھی”۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر کے – افغانستان سے امریکی افواج کے بغیر پروگرام اور عجلت زدہ انخلاء پر مبنی – فیصلے، جو کابل میں برسر اقتدار امریکہ نواز حکومت کے زوال اور طالبان کے اقتدار پر مننتج ہوئے ہیں، امریکی عوام کے درمیان بھی کچھ بہتر رد عمل کا سبب نہیں بن سکے ہیں۔ آج سے چند ہی روز قبل ہونے والی ٹرافالگار (Trafalgar) نامی گروپ کی سروے رپورٹ کے مطابق، 69٪ امریکی عوام افغانستان سے انخلاء اور اس سلسلے میں بائیڈن کے فیصلے سے ناراض ہیں اور صرف 23٪ لوگ ان کی کارکردگی کو سراہتے ہیں۔
بائیڈن نے ایک ہی مہینہ قبل – امریکی انٹیلجنس کمیونٹی کے اندازوں کے برخلاف، جو امریکی فوجیوں کے انخلاء کے فورا بعد کابل پر طالبان کے قبضے کے بارے میں خبردار کررہی تھی – دعوی کیا تھا کہ طالبان کے جنگجؤوں کی تعداد 75000 تک پہنچتی ہے، جبکہ افغانستان کی باقاعدہ فوج کی تعداد 3 لاکھ ہے اور پھر ان فوجیوں کو امریکہ نے دنیا کی کسی بھی بڑی اور طاقتور فوج کے برابر کی تربیت دی ہے اور اس کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا ہے، چنانچہ اس فوج کے بدلے میں طالبان کو ناکامی کے سوا کچھ بھی نہیں ملے گا!
امریکہ نے ابھی تک طالبان کو افغانستان کی جائز حکمران جماعت کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، لیکن امریکی وزارت دفاع نے زور دے کر کہا ہے کہ اس کے اہلکاروں نے امریکی افواج کے انخلاء کے سلسلے میں کئی مرتبہ طالبان حکام سے رابطہ کیا ہے اور وہ امریکہ کے اعلی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔
بائیڈن نے امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد گذشتہ جمعرات کے بم دھماکے میں متعدد امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد، طالبان کے ساتھ اپنے رابطے کو بھی درست قرار دیا اور ایک نامہ نگار کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: “ميں اپنے فیصلے سے نادم نہيں ہوں”۔
بےشک افغانستان پر طالبان کے قبضے کے کئی پہلو ہیں: جیسے انتہاپسندی فرقہ واریت، تنگ نظری وغیرہ کے پلٹ آنے کا امکان، پڑوسیوں کے ساتھ ممکنہ اختلافات، مذہبی انتہاپسندی کے ممکنہ نئے سلسلے کا آغاز وغیرہ؛ لیکن طالبان کی موجودہ پالیسیوں کو بھی اور ان کے موجودہ رویوں کو بھی، مدنظر رکھا جائے، تو اس قسم کی پیشنگوئیوں کے غلط ثابت ہونے کا امکان بہر صورت، نظر آتا ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ طالبان 1990ء کے عشرے کے طالبان سے بالکل مختلف ہوں اور اندرون افغانستان بھی اور علاقائی سطح پر نئے طالبان کی کو پذیرائی ملے؛ یا یوں کہئے کہ طالبان کے مستقبل کے رویوں کے بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کیا جاسکتا لیکن اس پورے قصے میں ایک حقیقت بالکل مسلم اور ناقابل انکار ہے اور وہ یہ ہے کہ “امریکہ اور اس کے سیاسی مکتب یعنی لبرلزم کو ہمہ جہت شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انھوں نے کم از کم 50 برس کے عرصے کے لئے افغانستان پر قبضہ کیا تھا اور اس کے قبضے کے لئے 5 سال تک منصوبہ بندی کرتے رہے تھے، لیکن وہ اس ملک پر قبضہ جاری نہ رکھ سکے اور انہیں یہاں سے بھاگنا پڑا؛ چنانچہ امریکی پسپائی دنیا بھر کے امریکہ نواز حکمرانوں کے لئے درس عبرت ہے اور امریکیوں کے افغانی چیلوں کی خفت کو بھی مسلم ممالک میں امریکہ اور مغرب کے لئے کام کرنے والے مقامی لوگوں کے لئے، عبرت ہونا چاہئے۔
امر مسلم یہ ہے کہ بڑا شیطان ہار گیا جبکہ افغانستان سے ذلت آمیز انخلاء ایک بڑے شیطان کی شکست اور پسپائی کی انتہا نہیں، بلکہ دنیا کے مختلف ممالک سے ان کے بتدریج انخلاء کا آغاز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ اور تکمیل: فرحت حسین مہدوی