افغانستان سے پسپائی کا عمل ناگزیر تھا/ امریکہ کی ساکھ مجروح

حقیقت یہ ہے کہ صدر بائیڈن نے انخلاء کے عمل کی تشریح کے ضمن میں زور دے کر کہا کہ چین اور روس کی خواہش ہے کہ امریکہ افغانستان میں تعینات رہیں تاکہ وہ اس کو کمزور کرسکیں۔

فاران؛ بہرصورت،  حتی افغانستان سے ملنے والی تصویریں امریکی حکومت کے لئے خوشایند نہیں ہیں اور افغانستان کے واقعات امریکی خارجہ پالیسی کے زعماء کے لئے حیرت انگیز اور غیر متوقعہ ہونے کی صورت میں بھی – افغانستان سے انخلاء کے سلسلے میں جو بائیڈن کا فیصلہ ناگزیر تھا، کیونکہ نہ صرف ان کا یہ فیصلہ امریکی طاقت کے محدود ہونے کے بارے میں ان کے ادراک کی عکاسی کرتا تھا بلکہ ان کے اسلاف – بارک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ – کے ارادوں کو عملی جامہ پہنا رہا تھا۔
علاوہ ازیں ٹرمپ نے جو معاہدہ طالبان کے ساتھ منعقد کیا (اور طالبان نے اسی پر عملدرآمد کیا) بتا رہا تھا طالبان امریکہ کے جائز شراکت دار ہیں۔ بائیڈن کی حکومت، اور چین، روس اور ایران جیسے ممالک طالبان کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں اور وہ افغانستان کے اندر بھی اور باہر بھی، طالبان کے رویوں کی کیفیات پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں۔ حتی اگر سب صدر بائیڈن کو ایسے شخص کے طور یا کریں – جس نے طالبان کے بارے میں غلط اندازہ لگایا تھا اور انہیں کمزور سمجھا تھا، افغان فوج کی طاقت کے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہوئے تھے – پھر بھی بین الاقوامی تنازعات میں – بالعموم امریکی مداخلت اور بالخصوص فوجی – مداخلتوں کی وجہ سے امریکی عوام کی تھکاوٹ اور اکتاہٹ، نکتہ چینیوں کی قوت کو توڑ دیتی ہے؛ یا حتی شاید ان نکتہ چینیوں کو بےاثر کردے؛ اور بالکل معلوم ہی نہیں ہے کہ لمبی مدت میں صدر بائیڈن کو سیاسی حوالے سے کسی قسم کا نقصان اٹھانا پڑے۔
امریکہ کی ساکھ بحیثیت سوپرپاور، مجروح ہوچکی ہے
علاوہ ازیں افغانستان میں امریکہ کے وجود کا خاتمہ، باعث ہوگا کہ یہ ملک اپنی توجہات اور وسائل کو آسانی کے ساتھ اس چیز پر مرکوز کردے جس کو بائیڈن نے ملک کا بنیادی چیلنج قرار دیا ہے؛ اس چیلنج کا نام “چین” ہے۔ جولائی 2021ء میں – جبکہ افغانستان سے امریکی پسپائی کا عمل جاری تھا – صدر بائیڈن نے عراق کے ساتھ تزویراتی بات چیت کے ضمن میں اعلان کیا کہ امریکہ اس سال کے آخر تک عراق میں اپنی فوجی کاروائیوں کا خاتمہ کرے گا اور اس ملک میں باقیماندہ امریکی فوجیوں کی سرگرمیوں کو عسکری مشاورت اور مقامی افواج کی تربیت پر مرکوز کرے گا۔ امریکہ کے اس فیصلے کو شاید، حتی افغانستان سے ملنے والی تصاویر کو دیکھ کر بھی نہ بدلا جاسکے؛ اگرچہ یہ تصاویر شاید عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کی ماحول سازی کو متاثر کرے۔ علاوہ ازیں، افغانستان کے برعکس، عراق سے امریکی افواج کی پسپائی کا عمل عراق کے ساتھ ایک مفاہمت کے تحت اور عراقی راہنماؤں کے تعاون سے انجام پا رہا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہونے والی بین الاقوامی کوششوں کے تناظر میں – اور اس سے زیادہ اہم مسئلے، یعنی امریکہ کی اعلیٰ پوزیشن کی بحالی کے سلسلے میں اس کے عزائم کو دیکھتے ہوئے – افغانستان میں تازہ ترین پیش رفت کے تمام نتائج کا جائزہ لینا ہنوز قبل از وقت ہے۔ مختصر مدت میں، افغانستان کی صورت حال یقینی طور پر ایک بڑی طاقت کے طور پر امریکہ کی ساکھ مجروح ہوگی اور ضرورت کے وقت مدد کے لئے واشنگٹن کی تیاری کے حوالے سے، اس کے حلیفوں کے اعتماد امریکہ کے حلیفوں کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچے گی- حتی کہ اب جبکہ طالبان پورے ملک پر اپنی عملداری قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں، طالبان اور القاعدہ ایک بڑی طاقت پر فتح کا جشن بھی منائیں گے۔ وہ اس کامیابی کو ایک اسلامی اور مذہبی حصول یابی کے طور پیش کریں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بین الاقوامی کھلاڑی امریکی کی قوت اور عزم کو بھی آزمانا چاہیں؛ اور امریکی ساکھ پر کو پہنچنے والے نقصان کا فائدہ اٹھاکر اپنے مفادات کے حصول کی کوشش کریں، اس کے باوجود ہنوز واضح نہیں ہے کہ امریکہ کی موجودہ شکست کس حد تک ایک طویل المدت چیلنج میں تبدیل ہوسکتی ہے؛ جو امریکہ کی موجودہ پوزیشن کو سنجیدگی سے خطرے میں ڈال سکے۔
سقوطِ کابل کے نتائج سے افغانستان کے پڑوسیوں کو تشویش
یہ بھی قوی امکان ہے کہ چین، بھارت، ایران، اور حتی روس – جو تاجکستان کو اپنے پچھواڑے کا ایک حصہ سمجھتا ہے – جیسے پڑوسی ممالک افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ یہ خطرہ – کہ طالبان اپنا رخ ان کی طرف موڑ دیں – انہیں مجبور کرتا ہے کہ ان خطرات سے نمٹنے کے لئے پہلے سے زیادہ وسائل اور بجٹ مختص کریں۔ دوسری طرف سے [افغانستان میں عدم استحکام اور پڑوسی ممالک کو لاحق خطرات کے سائے میں] رونما ہونے والے تمام واقعات مغرب اور بطور خاص امریکہ کے مفادات کی تکمیل کا باعث ہونگے۔
حقیقت یہ ہے کہ صدر بائیڈن نے انخلاء کے عمل کی تشریح کے ضمن میں زور دے کر کہا کہ چین اور روس کی خواہش ہے کہ امریکہ افغانستان میں تعینات رہیں تاکہ وہ اس کو کمزور کرسکیں۔ اسی بنا پر اقوام متحدہ کی سربراہی میں ایک علاقائی کانفرنس امریکہ سمیت اس مسئلے کے تمام فرقیوں کی مدد کرے گی کہ وہ باہمی ہم آہنگیوں کو مضبوط کریں اور اطمینان حاصل کریں کہ افغانستان سے امریکی افواج کی پسپائی اطراف کے ممالک میں عدم استحکام کا سبب نہیں بنے گی۔ اس حوالے سے، ایسے اقدام سے جنم والے انسانی مسائل، سلامتی، سیاست اور معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات پر خاص طور پر زور دیا جا سکتا ہے۔ امید ہے کہ افغانستان کے لیے تمام امداد ان شرائط سے مشروط ہوگی جو افغانستان میں مقیم کسی بھی حکومت کو، اس ملک کو ایک بار پھر دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہ میں تبدیل نہیں ہونے دیں گی۔

جاری