امام حسن (ع) کی ولادت رسول اکرم (ص) کے گھر میں اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی

امام بخاری اورامام مسلم لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت رسول خدا امام حسن کو کندھے پربٹھائے ہوئے فرما رہے تھے خدایا میں اسے دوست رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر ۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے مذہبی و بین الاقوامی امور کے ماہر اور مہر نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید ذاکر حسین جعفری نے امام حسن مجتبیٰ(ع) کے یوم ولادت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: حضرت امام حسن مجتبی (ع)15/ رمضان 3 ہجری کی شب مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، حضرت امام حسن (ع) کی ولادت رسول اکرم (ص) کے گھر میں اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی۔
آپ کی ولادت نے رسول اکرم (ص)کے دامن سے مقطوع النسل ہونے کا دھبہ صاف کر دیا اور دنیا کے سامنے سورہ کوثر کی ایک عملی اور بنیادی تفسیر پیش کردی۔
حضرت امام حسن (ع) کی ولادت کے بعد آپ کا اسم گرامی حمزہ تجویز کیا جا رہا تھا لیکن سرورکائنات نے خدا کے حکم سے، حضرت موسی (ع) کے وزیر حضرت ہارون کے فرزندوں کے شبر و شبیر نام پر آپ کا نام حسن اور بعد میں آپ کے بھائی کا نام حسین رکھا۔
علل الشرائع میں ہے کہ جب امام حسن(ع) کی ولادت ہوئی اورآپ سرورکائنات کی خدمت میں لائے گئے تو رسول کریم (ص) بہت ہی خوش ہوئے اور ان کے دہن مبارک میں اپنی زبان اقدس دیدی ۔ آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کرپیار کیا اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسن (ع) زبان رسالتمآب کو چوسنے لگے اس کے بعد آپ نے دعا کی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا ۔
ابو محمد، اور سبط اکبر، زکی، مجبتی آپ کے مشہور القاب تھے، پیغمبر اسلام کو حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کے ساتھ خاص محبت اور الفت تھی۔ جب تک پیغمبر اسلام زندہ تھے امام حسن و امام حسین علیہما السلام ان کے ہمراہ تھے۔
امام بخاری اورامام مسلم لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت رسول خدا امام حسن کو کندھے پربٹھائے ہوئے فرما رہے تھے خدایا میں اسے دوست رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر ۔
امام حسن مجتبيٰ علیہ السلام باوقار اور متین شخصیت کے حامل تھے۔ آپ غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ راتوں کو ان کے درمیان کھانا تقسیم کیا کرتے تھے۔ ان کی ہر طرح سے مدد کیا کرتے تھے۔ اسی لئے سارے لوگ بھی آپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں دو بار اپنی ساری دولت و ثروت غریبوں اور فقیروں میں تقسیم کردی تھی۔ تین بار اپنی جائد اد کو وقف کیا تھا جس میں سے آدھی اپنے لئے اور آدھی راہ خدا میں بخش دی تھی۔
حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں : “مجھے تعجب ہے اس شخص پر کہ جو جسمانی غذا کے متعلق توغور و فکر کرتا ہے لیکن روحانی غذا کے لئے نہیں ۔ نقصان دہ غذاؤں کو اپنے شکم سے دور رکھتا ہے لیکن ہلاک کرنے والے مطالب کو اپنے قلب میں جگہ دیتا ہے ” ۔
حضرت امام حسن مجتبی (ع) نے معاویہ کے سیاسی و نفسیاتی دباؤ اور صلح قبول کرنے کے بعد عوام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: معاویہ یہ تصور کرتا ہے کہ شاید میں اسے خلافت کے لئے سزاوار سمجھتا ہوں اور میں خود اس کا اہل نہیں ہوں معاویہ جھوٹ بولتا ہے ہم کتاب خدا اور پیغمبر اسلام کے حکم کے مطابق خلافت اور حکومت کے سب سے زيادہ حقدار اور سزاوار ہیں اور پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد سے ہی ہم پر ظلم و ستم کا آغاز ہوگیا۔ حضرت امام حسن علیہ السلام نے صلح کرکے معاویہ کا مکروہ چہرہ دنیائے اسلام کے سامنے پیش کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔