امت مسلمہ کو درپیش حالات اور آپسی محبت و بھائی چارے کی ضرورت

انسان کی زندگی جب دشواریوں کے گرداب میں پھنس جاتی ہے روح فرسا مشکلات انسان کو توڑ کر رکھ دیتی ہیں ہجوم مصائب میں گھر کر جب اسے کوئی اپنا نظر نہیں آتا اس وقت محبت کے دو میٹھے بول انسان کے وجود کے اندر امید جگا دیتے ہی

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: یوں تو ہر سماج و معاشرہ میں محبت کا ایک کلیدی و محوری کردار ہے جس کے بغیر کوئی معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا ،حیات بشری کا چہرہ محبت ہی کے بل پر دمکتا نظر آتا ہے محبت کے نتائج انسان کی زندگی میں دیر پا اور بڑے دور رس ہوتے ہیں انسان کی مادی و معنوی زندگی میں محبت کے نقوش کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ہر معاشرے میں آپ محبت کے مثبت و تعمیری اثرات کو دیکھ سکتے ہیں لیکن موجودہ ملکی حالات میں ہم سب کے لئے لازم ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ میل محبت کو مزید بڑھاوا دیں اور جتنے بھائی چارے کے ساتھ جیتے آئے ہیں اس سے زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ الفت کو مضبوط کریں ۔
شک نہیں کہ محبت کی مٹھاس کو اگر نکال دیا جائے تو زندگی کا ہر رخ کڑوا نظر آتا ہے انسان کو وحشتیں دھر دبوچتی ہیں انسان کے سامنے زندگی ایک ایسا بھیانک روپ دھارن کر لیتی ہے جسے دیکھتے ہی انسان کانپ اٹھتا ہے ۔
چونکہ انسان فطری طور پر ایک اجتماعی مخلوق ہے اور دوسروں سے مل جل کر جینا چاہتا ہے ، انسان کبھی بھی اکیلا کمالات کو طے نہیں کر سکتا ہے اور نہ اسے تنہائی میں خوشبختی کا احساس ہو سکتا ہے ، جس طرح انسان کا بدن تھک جاتا ہے تو اسے پانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اسی طرح انسان کی روح محبت کو تلاش کرتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب سے انسان نے اس سرزمین پر قدم رکھا ہے تب سے آخر دم تک وہ محبت کی جستجو میں رہتا ہے ، انسان جب مشکلوں میں ہو پریشانیاں اسے ہر طرف سے گھیرلیں تو اور بھی اسے محبت کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے ۔
انسان کی زندگی جب دشواریوں کے گرداب میں پھنس جاتی ہے روح فرسا مشکلات انسان کو توڑ کر رکھ دیتی ہیں ہجوم مصائب میں گھر کر جب اسے کوئی اپنا نظر نہیں آتا اس وقت محبت کے دو میٹھے بول انسان کے وجود کے اندر امید جگا دیتے ہیں ، جب حالات اتنے ناسازگار ہوں کہ انسان رشتہ امید کو بکھرا پائے تو ایسے میں انسان کا وجود جس چیز کو تلاش کرتا ہے وہ یہی محبت ہے ،اگر اسے لگتا ہے کوئی ہے جو اسے چاہتا ہے اس سے محبت کرتا ہے تو اس ے دل میں امیدوں کے بجھتے چراغ پھر سے روشن ہو جاتے ہیں عصری جراحتوں کے زخم خود ہی مندمل ہونا شروع ہو جاتے ہیں غم روزگار کے ہرے زخم بھرنے لگتے ہیں اور کیوں نہ ہو محبت اکسیر حیات ہے ، انسانی فضائل کا سرچشمہ ہے دین کا پورا دارو مدار محبت کے اوپر ہے ۔
لیکن سچی محبت کے حصول کے ضروری ہے کہ انسان خود بھی دوسروں سے سچی محبت کرنے والا ہو اب اگر کسی سے سچی محبت ہے تو اس کے لئے اظہار ضروری ہے فلاسفہ بجا طور پر کہتے آئے ہیں کہ ہر چیز کا کمال اسکی خاصیت کے سامنے آنے میں ہے مثلا ایک بہت اچھا عام ہے تو اسکی خاصیت کیا ہوگی مٹھاس اور لذت اب بظاہر آم دیکھنے میں بہت اچھا ہے لیکن نہ مٹھاس ہے نہ لذت تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کوئی کمال نہیں ہے انسان کی زندگی میں محبت اگر ایک کمال ہے تو اس کمال کی خاصیت یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے کام آئے ایک دوسرے کے لئے تڑپ ہو ایک دوسرے کے لئے قربان ہونے کا جذبہ ہو یہی محبت کی مٹھاس ہے جس طرح بظاہر اچھے دکھنے والے آموں کا کوئی خریدار نہیں ہے اسی طرح بظاہر دکھاوے اور دعوے کی محبت کا بھی کوئی خریدار نہیں ہے ، محبت و ہمدردی کے جذبات ہی لوگوں کے دلوں کو جوڑنے کا سبب ہیں اسی کی بنیاد پر ایک مضبوط سماج سامنے آتا ہے ایک مغربی اسکالر ہیں ڈاکٹر کارل انہوں نے اپنی ایک کتاب “راہ و رسم زندگی” میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ معاشرے کو سعادت مند و خوش بخت بنانے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام افراد ایک مکان کی اینٹوں کی طرح اس باہم متصل و متحد ہوں کہ کسی کو دراڑ ڈالنے کا موقع نہ مل سکے آپس میں جتنی قربت زیادہ ہوگی اتنا ہی کوئی بیچ میں دراڑ نہیں ڈال سکے گا اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی مکان کو ہم دیکھیں کہ وہ بہترین انداز میں تعمیر کیا گیا ہے تو یوں ہی نہیں ہے اگر بہترین انداز میں اینٹوں کو چنا گیا ہے تو یقینا بہترین مصالحہ و سیمنٹ بھی استعمال کیا گیا ہے تو سوال یہ ہے کہ یہ بہترین مصالحہ کہاں سے آئے وہ بہترین سیمنٹ کہاں سے آئے تو ایک گھر کی اینٹوں کی طرح معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے سے جوڑ دے تو اسکا جواب ہے وہ سیمنٹ و مصالحہ محبت ہے جس کے ذریعہ معاشرے کی فرد فرد کو جوڑا جا سکتا ہے ۔
آپ نے دیکھا ہوگا جن گھروں کی تعمیر میں اگر مصالحہ و سیمنٹ صحیح استعمال نہ ہو وہ گر جاتے ہیں ہم نے بڑی بڑی عمارتوں کو گرتے دیکھا ہے بڑے بڑے پلوں کو ڈہتے اور لوگوں کومرتے دیکھا ہے ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ مصالحہ بے دم تھا یااس میں ملاوٹ تھی ،جس طرح ملاوٹ والے سیمنٹ یا مصالحے کے استعمال سے کوئی عمارت دیر پا نہیں رہتی اور حادثہ کا شکار ہو جاتی ہے اسی طرح معاشرے کی عمارت بھی ملاوٹ کے مصالحے پر تعمیر نہیں ہو سکتی اور ہو بھی گئی تو کسی ایک حادثے کے ساتھ دھم سے زمین بوس ہو جائے گی ، معاشرے کی تعمیر کا خالص مصالحہ اگر بے لوث محبت ہے تو یہ خود غرضی مفاد پرستی و دکھاوے کی ملاوٹ کے ساتھ کار آمد نہیں ہے لہذا ہم سب کو اس حقیقت کو سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا کہ آج ملک میں ہمارے خلاف ماحول بن رہا ہے اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جنکے امیدوں کےدئیے بجھتے دکھ رہے ہیں تو انہیں محبت و ہمدردی کے بل پر دوبارہ روشن کیا جا سکتا ہے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما جا سکتا ہے ایک دوسرے سے خلوص کے ساتھ محبت کے ساتھ پیش آ کر ہم اپنے بھائیوں کی زندگی کی دشواریوں میں مدد کر سکتے ہیں یہ وہ چیز ہے جس کی ہم سب کو ضرورت ہے تو آئیں اختلافات کو بھلا کر متحد ہوں ایک دوسرے کے لئے دل میں جگہ پیدا کریں اور دشمن کو موقع نہ دین کہ ہمارے درمیان دراڑوں کو اپنے لئے غنیمت سمجھتے ہوئے ہمیں ہی ایک دوسرے کے خلاف اکسا دے اور تماشہ دیکھے ۔