امریکہ کے کمانڈ روم میں کیا چل رہا ہے؟

اب، جبکہ اسد کے جانے کے بعد بعث پارٹی کا معاملہ ختم ہو گیا ہے، مزاحمت کا اصل مقصد باقی ہے، یعنی حرم کا دفاع اور صیہونی غاصبوں کے خلاف جنگ اور یہ جنگ جاری رہے گی

فاران: رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے خطے کی دھند آلود فضا کو واضح کرتے ہوئے فرمایا تھا:
“اس میں کوئی شک نہیں کہ شام میں جو کچھ ہوا، وہ امریکہ اور صیہونی حکومت کی مشترکہ سازش کا نتیجہ ہے۔ ایک ہمسایہ ملک (پڑھیں ترکی) نے بھی اس معاملے میں واضح کردار ادا کیا ہے… اور اس سازش کا مرکزی کمانڈ روم امریکہ اور صیہونی حکومت میں ہے۔”
اس حوالے سے تین بنیادی سوالات پیدا ہوتے ہیں:

الف) امریکہ کے کمانڈ روم میں کیا ہو رہا ہے؟

ب) امریکہ اور صیہونی حکومت کا مشترکہ منصوبہ کیا ہے؟

ج) شام کے ہمسایہ ملک (ترکی) کا واضح کردار کیا ہے؟

. امریکہ کے کمانڈ روم میں جو کچھ گزشتہ 14 ماہ سے ہو رہا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ:

صیہونی حکومت کو ایک ایسی جنگ سے نکالا جائے، جس کی شکست پہلے سے واضح ہے۔

نتنیاہو کو اس دلدل سے باہر نکالا جائے، جس میں وہ روز بروز دھنستا جا رہا ہے۔
امریکہ اور صیہونی حکومت کا مشترکہ منصوبہ ایک ایسے عسکری نظام کی تشکیل ہے، جو ان حکومتوں اور افراد پر مبنی ہو، جن کے عقائد معاویہ اور یزید کے نظریے سے جڑے ہوئے ہیں۔

امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے:
“ہم اور آلِ ابوسفیان دو خاندان ہیں، جو ہمیشہ خدا کے بارے میں ایک دوسرے سے جنگ میں رہے ہیں۔”
افغانستان میں طالبان کی تشکیل، عراق اور شام میں داعش کا ظہور، اور پھر ترکی میں فریز شدہ دہشت گرد گروہوں جیسے احرار الشام اور جبهة النصرة کو فعال کرنا، یہ سب سی آئی اے، پینٹاگون اور برطانیہ، جرمنی، اور فرانس جیسے تین یورپی شیطانی ممالک کی مالی و عسکری حمایت سے ہوا اور ہو رہا ہے۔
ان سب سازشوں کا مقصد امام خمینیؒ کے بقول، “اسلامِ ناب محمدیؐ” کا مقابلہ کرنا ہے، جس کا مقصد قدس کی آزادی اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت ہے۔

اسلامی انقلاب کے رہنماؤں نے استکباری طاقتوں کے خلاف ایک اسلامی مزاحمتی محاذ قائم کیا، جس میں اہلِ سنت، شیعہ، حتیٰ کہ غیر مسلم اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی شامل ہیں۔ استکباری طاقتوں کے انٹیلی جنس ادارے بار بار اسلامی دنیا اور بیدار مسلمانوں کی مزاحمت سے ٹکرا ٹکرا کر شکست سے دوچار ہوں
افغانستان میں، طالبان نے انہیں ذلت کے ساتھ ملک سے نکالا۔
عراق اور شام میں، داعش عوامی بیداری کے سامنے ناکام ہوئی۔
اب شام میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اسی پرانی فوجی سازش کا نیا ورژن ہے، جو پہلے بھی ناکام ہو چکی ہے۔

. صیہونی حکومت کی شکستیں:

لبنان پر حملے میں، “گولانی” بریگیڈ کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد انہوں نے جنگ بندی کی بھیک مانگی اور شکست کو قبول کیا۔

اب امریکیوں نے “جولانی” فوج کو شام میں بھیجا، تاکہ وہ دمشق میں معاویہ کے محل اور مسجد اموی سے امریکہ-صیہونی سازش کو نمایاں کرے۔
ترکی کے صدر اردوغان نے، روسی فلسفی الکساندر دوگین کے بقول، ایک خطرناک جال میں قدم رکھا۔ ان کی “نئے عثمانی” سوچ نے انہیں ٹرمپ-نتنیاہو کے پیادوں میں بدل دیا۔
لیکن یہ سازش بھی، علمائے کرام اور صاحبان ایمان کی بصیرت سے آخرکار ناکام ہو جائے گی۔ مسلمان اپنے حکمرانوں کی فلسطین میں مظالم پر خاموشی کو برداشت نہیں کر سکتے۔ مسلمانوں نے دیکھا کہ نہ صرف فلسطینی مظلوموں کی مدد نہیں کی جا رہی، بلکہ بعض ہمسایہ ممالک کی طرف سے مزاحمت کے پشت میں خنجر گھونپا جا رہا ہے۔

. مغربی ایشیا کی تیزی سے بدلتی صورتحال:

مغربی ایشیا میں ہونے والی تیز رفتار تبدیلیاں ایک واضح سمت میں جا رہی ہیں۔ یہ صورتحال ایک دوطرفہ مقابلے کی مانند ہے، جس میں جو پہلے وار کرے گا، وہ جیتے گا۔
ہمیں انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ شام میں ہونے والے دھماکوں کی آواز ہمارے قریب آ جائے۔ ہمارا اصلی دشمن امریکہ اور صیہونی حکومت ہے۔ ہمیں مغربی ایشیا میں استعماری سامراج کے سر کو کچلنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
دفاع مقدس کے تجربات ہمیں بتاتے ہیں کہ دشمن پر اس کی زمین پر حملہ کرنا بہتر ہے۔

. مزاحمتی قوتوں کا کردار:

ایرانی، عراقی، افغان، پاکستانی، اور لبنانی مجاہدین شام میں حرم کا دفاع کرنے گئے تھے۔ ان کی موجودگی شام کی قانونی حکومت (بشار الاسد) کی دعوت پر تھی۔ یہ لوگ حزبِ بعث کی حمایت کے لیے نہیں گئے تھے، بلکہ ان کا مقصد حرم کا دفاع اور صیہونی جارحین سے جنگ کرنا تھا۔
اب، جبکہ اسد کے جانے کے بعد بعث پارٹی کا معاملہ ختم ہو گیا ہے، مزاحمت کا اصل مقصد باقی ہے، یعنی حرم کا دفاع اور صیہونی غاصبوں کے خلاف جنگ اور یہ جنگ جاری رہے گی