ایران میں حالیہ بلؤوں کے اسباب؛

امریکیوں اور صہیونیوں کے غیظ و غضب کا سبب کیا ہے؟/ زوال مغرب کے دروازے پر

کوئی بھی یک طرفہ موقف اپنائے بغیر، کہا جا سکتا ہے کہ ایران، چالیس سالہ دور میں، طاقتورترین پوزیشن حاصل کر چکا ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادی حالیہ چند سالوں کی نسبت کمزورترین پوزیشن میں ہیں۔ ایک عامیانہ سی کہاوت ہے کہ اگر بلی کو بھاگنے کا راستہ نہ ملے تو پنجہ مارتی ہے۔ ایران میں حالیہ بلوے بھی ان دشمنوں کا پنجہ مارنے کا مصداق ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ایران میں امریکہ، یورپ، اسرائیل اور سعودی عرب کی حمایت میں ہونے والے مختصر سے بلؤوں کو مختلف جہتوں سے دیکھا جا سکتا ہے، لیکن جو نقطہ نظر اس کے حل کا سبب ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ان بلؤوں کی جڑوں کو دیکھا جائے۔ یہ رپورٹ ایک ایسی ہی کوشش ہے۔
ایران میں حالیہ بلؤوں کا ایک جائزہ
رہبر انقلاب امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے تین اکتوبر 2022ع‍ کو امام حسن مجتبیٰ (ع) یونیورسٹی میں فرمایا:
“یہ ایک معمولی مسئلہ نہیں تھا، فطری نہیں تھا۔ یہ بلوے منصوبہ بند تھے ۔۔۔ کس نے ان کی منصوبہ بندی کی ہے؟ میں علی الاعلان کہتا ہوں یہ منصوبہ بندی امریکہ، صہیونی ریاست اور ان کے پیچھے بھاگنے والوں کا کام ہے۔۔۔ اب سوال یہ ہے کہ بیرونی حکومت کا محرک کیا تھا؟ میرا احساس یہ ہے کہ ان کا محرک یہ ہے کہ وہ محسوس کر رہے ہیں کہ ایران تمام جہتوں میں ترقی کی چوٹیوں کی طرف بڑھ رہا ہے، اور وہ اس کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔ وہ اس ترقی کو سمجھتے ہیں، دیکھتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ بحمد اللہ کچھ (باقیماندہ) پرانی گرہیں کھل رہی ہیں”۔
چنانچہ، رہبر انقلاب نے غیر ملکی عناصر کو ان بلؤوں کا سرچشمہ قرار دیا اور اس کا سبب یہ بتایا کہ ایرانی قوم تمام شعبوں میں ترقی کر رہی ہے۔ تو وہ ترقی اور پیشرفت کیا ہے جس کی طرف رہبر انقلاب اشارہ کر رہے ہیں؟ ایرانی قوم کی کونسی پیشرفت سبب بنی ہے کہ دشمن اس طرح میدان میں آیا ہے اور دنیا کے تمام شر پسندوں، – بشمول شاہ پرستوں، منافقین اور علیحدگی پسندوں وغیرہ – کو اکٹھا کر لیا ہے تاکہ وہ اس قوم کے خلاف بلؤوں کا سہارا لے لیں؟
موجودہ حالات کو دو سطحوں میں دیکھنا چاہئے: اول: بین الاقوامی سطح، دوئم اندرونی سطح
اول: دنیا کا سیاسی نظام بدل رہا ہے
رہبر انقلاب نے تین اکتوبر کی تقریر میں فرمایا:
“روز بروز واضح تر ہو رہا ہے کہ دنیا کا سیاسی نقشہ بدل رہا ہے۔ وہ ایک طاقت یا دو طاقتوں کی یک قطبیت اور ممالک اور اقوام وغیرہ پر ان کا جبر، اپنا جواز کھو چکا ہے، یعنی اقوام جاگ چکی ہیں۔ یک قطبی نظام کو مسترد کیا جا چکا ہے اور رفتہ رفتہ پہلے سے زیادہ ردّ ہو رہا ہے”۔
آج سے چند سال قبل روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نیٹو کی رکنیت حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن وہی روس اور اس کے صدر نے نیٹو کا سایہ اپنے ملک سے دور کرنے کے لئے ایک بڑی جنگ کا آغاز کر دیا ہے، اور اس جنگ کے اخراجات برداشت کرنے کے لئے تیار ہے، تاکہ نیٹو کو – جو کہ روس کے لئے بے شمار خطروں کا سبب بن سکتی ہے – روک لے۔ اس جنگ کی وجہ سے روس کو شدید ترین تجارتی اور اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور اب اس کی ایک ہی امید “پابندیوں کو بائي پاس کرنے کے حوالے سے ایران کا طویل تجربہ بھی ہے اور وہ اقتصادی اور تجارتی مواقع اور سہولیات بھی، جو ایران اس ملک کے لئے فراہم کر سکتا ہے”۔
چین نے بھی نیا راستہ طے کیا ہے، اور اب کہا جا سکتا ہے کہ چین – جو کسی وقت دنیا کی دوسری معیشت کہلاتا تھا، – امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر رفتہ رفتہ دنیا کی غالب اقتصادی طاقت بن رہا ہے۔ بھارت کی طرح کے ممالک بھی جو بڑی اور طاقتور معیشتوں کے مالک ہیں، مشرقی دنیا میں تجارتی تبادلوں کے سلسلے میں مناسب پوزیشن کے حامل ہیں۔
واضح طور پر دیکھا سمجھا جا سکتا ہے کہ مشرقی دنیا دوسری عالمی جنگ کے بعد کی حیرت سے باہر آئے ہیں۔ مشرق طاقتور ہو رہا ہے اور ایران اس میدان کا فعال اور سنجیدہ کھلاڑی ہے۔ اس مدعا کا سبب بھی آشکار ہے، اور وہ یہ ہے کہ:
1۔ برتر تزویراتی پوزیشن، توانائی کے وسائل کے لحاظ سے بھی اور جغرافیائی محل وقوع نیز موصلاتی ڈھانچے وغیرہ کے لحاظ سے بھی؛
2۔ استقلال و خودمختاری اور ترقی کے لئے طاقتور نظریہ، اور نظریہ سازی نیز فکری بنیادوں کی تخلیق کی صلاحیت۔
اول الذکر امتیازی خصوصیت کی وضاحت یہ ہے کہ ایران ایک وسیع رقبے پر واقع ہؤا ہے اور اس کی سرزمین نے انتہائی ممالک کو اس ملک سے جوڑ دیا ہے، ایران کے پاس قابل قدر وسائل اور ذرائع ہیں جو ترقی کے لئے توانائی کی ضروریات کو پورا کر دیتے ہیں اور یہ دونوں ایک بین الاقوامی تزویراتی کھلاڑی کے لئے ضروری ہیں۔ مشرقی دنیا کے کسی ملک کا کوئی مستقبل بیانیہ (discourse) نہیں ہے بلکہ ان کی حکمرانی کا اصول مغربی ہے، وہی افکار جو مغرب میں پیدا کئے گئے ہیں ان ملکوں میں اصولوں کے طور پر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک جدید فکری اور ثقافتی دھارا تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھنے کی صلاحیت صرف اور صرف اسلامی کی سیاسی فکر سے ابھر سکتی ہے؛ چنانچہ واحد ملک جو جدید فکری اور ثقافتی کی فکری مہارت اور تجربہ رکھتا ہے، ایران ہے۔
دوئم: ایران بند گلی سے نکل چکا ہے
بڑی طاقتوں اور ان کے حواریوں نے ابتدائے انقلاب سے ہی ایران کو بند گلی میں قید کرنے کی کوشش کی ہے؛ مگر بطور خاص اسلامی انقلاب کے بعد بننے والی تیرہویں حکومت کا ایران، اس حکومت سے پہلے کے ایران کے ساتھ قابل قیاس نہیں ہے؛ اور اس سے قبل کی بارہویں حکومت انقلاب اسلامی کے بعد کی سب سے کمزور حکومت تھی؛ جو کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دینے سے عاجز ہو چکی تھی اور ہر لحاظ سے کورونا اور پابندیوں کے درمیان الجھ گئی تھی لیکن تیرہویں حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی، اس نے مختلف النوع ویکسین تیار کرکے کورونا کو ملک سے حذف کر دیا۔
اور یوں ملک پیداوار اور ترقی کے لحاظ سے معمول پر آیا؛ وزیر اقتصاد کے بقول سید ابراہیم رئیسی نے سابقہ حکومت کے فروخت کردہ بانڈز کا 16 ارب ڈالر کا قرضہ ادا کیا اور علاوہ ازیں اس سال بہار میں ملکی جی ڈی پی کی شرح 8/3 فیصد تک پہنچی جس میں البتہ تیل کی آمدنی شامل نہیں ہے اور اگر تیل کی آمدنی بھی شامل کی جائے تو ترقی کی شرح 4/3 فیصد تک پہنچتی ہے، بہار میں ہی افراط زر کی شرح 70٪ فیصد سے 49٪ تک گر گئی۔
تیرہویں حکومت میں مغرب کے جھوٹے وعدوں اور دعؤوں کا مؤثر جواب دیا گیا اور ملک نے اپنا رخ مغرب سے مشرق کی طرف موڑ لیا اور چین اور روس جیسی عالمی طاقتوں کے ساتھ عظیم تجارتی اور ساختیاتی معاہدوں پر دستخط ہوئے، ایران شنگھائی تعاون تنظیم کا باضابطہ رکن بنا اور مزید عظیم معاہدوں کے لئے راستہ کھل گیا۔
ملک کے اندر اور باہر، ایران کی ثقافتی طاقت کی تقویت
اربعین
کورونا کے دوران اربعین ریلی کے غیر عراقی شرکاء کی تعداد میں کمی آئی تھی اور کورونا کے بعد کے ایک سال بعد اربعین ریلی کے ایرانی شرکاء نے نیا ریکارڈ قائم کیا۔ اس سال صفر المظفر میں 50 لاکھ ایرانی شہریوں نے اربعین ریلی میں شرکت کے لئے رجسٹریشن کروائی تھی لیکن 35 لاکھ افراد کو اجازت دی گئی، نیز ایرانی زائرین سمیت دوسرے ممالک سے بھی آنے والے اور عراق زائرین کی مجموعی تعداد دو کروڑ تک پہنچی، جن میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کے علاوہ دنیا بھر کے غیر مسلم زائرین بھی شامل تھے، اور امام حسین (علیہ السلام) کے شیعہ اور سنی زائرین کے ساتھ غیر مسلموں – بالخصوص مختلف عیسائی فرقوں کے پیروکاروں – کی موجودگی بہت سی شیطانی طاقتوں کے لئے لرزہ خیز تھی۔
سلام فرماندہ
حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے حضور “سلام فرماندہ” نامی ترانہ – جو نہ صرف ایرانی بچوں اور نوجوانوں کے دل و جان میں نقش ہو گیا تھا – دنیا بھر کے ممالک میں بچوں اور نوجوانوں کی زبانوں پر بھی جاری ہؤا اور ایک بین الاقوامی مہدوی ترانہ بن گیا جو آج بہت سے ممالک کے درمیان مشترکہ ترانہ کہلایا جا سکتا ہے۔ یہ ترانہ عالم تشیّع کی اہم ترین ثقافتی اور تعلیماتی علامت کی حیثیت اختیار کر گیا؛ جس نے بچوں اور نوعمر لڑکوں کو انتظار ظہور کے عملی میدان میں قدم رکھنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ ترانہ فارسی، عربی، انگریزی، اردو، پشتو سمیت مختلف زبانوں میں بھی پیش گیا اور یہ اسلامی انقلاب کی ثقافتی تخلیقات کا تازہ ترین مؤثر نمونہ ہے۔ اس ترانے نے گویا اگلی کئی نسلوں کے بچوں کو زبردست ثقافتی ایندھن فراہم کیا اور اس نے صہیونیت اور مسلمانوں کے درمیان صہیونیوں سے وابستہ فرقوں کو شدید تشویش میں مبتلا کیا ہے۔
حالیہ برسوں میں کچھ دیگر بڑے ثقافتی پروگراموں نے بھی اسلام کے دشمنوں کو فکرمند کر دیا ہے۔ عید غدیر کے دن لوگوں کو کھانا کھلانا مستحب تو ہے ہی لیکن گذشتہ قمری سال کی عید غدیر کے دن تہران کی ولی عصر(عج) شاہراہ پر 10 کیلومیٹر طویل دسترخوان بچھایا گیا اور محتاجوں کو اشیائے خورد و نوش پہنچانے کی غرض سے “مؤمنانہ امداد” کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔
مؤمنانہ امداد
کورونا کے ابتدائی ایام سے آخر تک عوامی روزگار کو دھچکا لگا تو بھوک و افلاس کا راستہ روکنے کے لئے لوگوں کو وسیع پیمانے پر کھانے پینے کی اشیاء کی رسد کا عمومی انتظام کیا گیا اور یہ سلسلہ رفتہ رفتہ ایک عمومی فرہنگ میں بدل گیا اور اس خداپسندانہ عوامی اقدام کو رہبر انقلاب نے “کمکِ مؤمنانہ” (مؤمنانہ امداد) کا نام دیا جو پورے ملک میں آج بھی مسلسل جاری ہے؛ جس نے ان شیطانی قوتوں کو شدت سے تشویش میں مبتلا کیا ہؤا ہے جو کورونا کے ایام میں ایران سمیت اسلامی ممالک میں عوامی بغاوت کی امید لئے بیٹھی تھیں۔
اطعام غدیر:
تہران میں 10 کلومیٹر طویل دسترخوان
احادیث صحیحہ کے مطابق، یوم غدیر یومِ اطعام [کھانا کھلانا کا دن] ہے۔ مہمانوں، مساکین، محتاجوں اور بھوکے انسانوں کو کھانا کھلانا ہمیشہ اور ہر دن، حسنات میں شمار ہوتا ہے لیکن سب سے برتر و افضل اطعام یوم غدیر کا ہے؛ چنانچہ مؤمنین ہر سال اس دن احادیث کے مطابق عمل کرتے ہوئے ایمانی بھائیوں بہنوں کو کھانے پر بلاتے ہیں، لیکن گذشتہ سال عید غدیر کو تہران میں ایک نیا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے ولی عصر (عج) شاہراہ پر 10 کلومیٹر طویل دسترخوان بچھایا گیا اور ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلایا گیا اور پورے ملک میں وسیع پیمانے پر مؤمنانہ امداد کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ سب ان طاقتوں اور ان کے ضعیف النفس علاقائی حواریوں کے لئے ناقابل برداشت ہے۔
ایران کی ترقی دشمنوں کے رد عمل کا سبب کیوں؟
شاید اس سوال کا جواب بھی بجائے خود اہم ہے، کہ دشمن ایران کی ترقی اور نمو سے فکرمند اور خفا کیوں ہوتے ہیں اتنے؟ ایسا کیوں ہے کہ جب عالمی سطح پر ایران کے ترقی کے مظاہر دکھائی دینے لگتے ہیں تو اسے دشمنوں کے شدید معاندانہ رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر انچیف جنرل حسین سلامی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:
“ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہؤا تو دشمن اپنے سیاسی شطرنج کے مہرے ہاتھ سے دے بیٹھا، جس کا سب سے پہلا پیغام یہ تھا کہ امریکہ اپنے متحد سیاسی نظاموں کی حمایت نہیں کر سکتا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سہارے قائم سیاسی نظامات بہت جلد زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ امریکیوں کے لئے بہت سخت اور ناقابل برداشت تھا۔
دشمن کا سب سے پہلا منظم رد عمل جنگی توازن میں تبدیلی کی صورت میں نمودار ہؤا ۔۔۔ لیکن جنگ نے ایک بار پھر دنیا میں امریکی ساکھ کو کمزور تر کر دیا؛ سیاسی طاقت کے لحاظ سے بھی اور عسکری طاقت کے لحاظ سے بھی۔ جب یہ غیر مساوی اور غیر منصفانہ جنگ اختتام پذیر ہوئی تو پھر بھی امریکی اثر و رسوخ کی شدید تنزلی میں مزید شدت اور وسعت آئی۔ آگے بڑھ کر کلنٹن کے زمانے میں امریکیوں نے “دوہری روک تھام کی حکمت عملی” (Dual Containment Strategy) کے نفاذ کا اعلان کیا اور کلنٹن کے دور میں ہی یہ حکمت عملی بھی شکست کھا گئی۔ کہنا یہ چاہئے کہ ہم جتنا آگے بڑھتے ہیں امریکیوں کو اسلامی انقلاب کے مقابلے میں یکے بعد دیگرے، مسلسل، ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ ناکامیاں نہ صرف امریکہ کے ساتھ ہماری نسبت کو بدل دیتی ہیں بلکہ اس ملک کے ساتھ پوری دنیا کی نسبت کو بھی بدل ڈالتی ہیں”۔
ایک ملک ایسے ملک کو برداشت کرنا، جو امریکی پابندیوں کے سائے میں، ایک اہم عالمی طاقت میں بدل رہا ہے، بہت دشوار ہے؛ جبکہ امریکہ خود زوال پذیر ہے۔ افغانستان، عراق، شام، یمن میں امریکی منصوبہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ اور امریکہ کو آخرکار کم از کم افغانستان اور عراق سے اب تک، نکلنا پڑا ہے، اور اس علاقے کی کاروائیوں کو دوسرے ممالک کے سپرد کیا۔
کوئی بھی یک طرفہ موقف اپنائے بغیر، کہا جا سکتا ہے کہ ایران، چالیس سالہ دور میں، طاقتورترین پوزیشن حاصل کر چکا ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادی حالیہ چند سالوں کی نسبت کمزورترین پوزیشن میں ہیں۔ ایک عامیانہ سی کہاوت ہے کہ اگر بلی کو بھاگنے کا راستہ نہ ملے تو پنجہ مارتی ہے۔ ایران میں حالیہ بلوے بھی ان دشمنوں کا پنجہ مارنے کا مصداق ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
لطائف و ظرائف:
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے کارگزار جوزپ بوریل نے کچھ دن پہلے یورپی سامراجیت کی یاد زندہ کرکے انتہائی نسل پرستانہ موقف اپناتے ہوئے کہا تھا کہ “یورپ ایک خوبصورت باغ اور باقی دنیا جنگل ہے” جس پر ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا:
یورپ کے لئے باغ اور باقی دنیا کے لئے جنگل کا استعارہ استعماری ذہنیت سے جنم لیتا ہے، جو مغرب کو دنیا پر جارحیت اور ممالک پر قبضے کا حق عطا کرتا ہے!
بوریل کو جاننا چاہئے کہ یورپ اور امریکہ کی بالادستی اور سامراجیت کا دور گذر چکا ہے اور کثیر قطبی عالمی نظام دروازے پر دستک دے رہا ہے!
یورپی اتحاد حقائق کو تسلیم کرے، ورنہ زوال و انحطاط اور مٹ جانے کی طرف بڑھتا جائے گا۔
زوال نے بہر حال مغرب کا راستہ دیکھ لیا ہے اور پسی ہوئی قوموں کا ہاتھ یورپ اور امریکہ کے گریبان تک پہنچ چکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حامد موفق بہروزی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔