او آئی سی کا سربراہی اجلاس

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج حق و باطل کی جنگ ہے، آج تاریخی دن ہے، آح مسجد الاقصی کے دفاع کا دن ہے۔

فاران: اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج حق و باطل کی جنگ ہے، آج تاریخی دن ہے، آح مسجد الاقصی کے دفاع کا دن ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں کروڑوں لوگ مظلوم فلسطینیوں کے لئے سڑکوں پر نکلے ہیں۔ ایران کے صدر مملکت نے کہا کہ مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے حلقوم سے بلند ہونے والی آواز کا جواب دینا چاہیئے۔ ایرانی صدر نے کہا کہ غزہ ایک جیل میں تبدیل ہوچکا ہے، امریکہ اسرائیل کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے، اسرائیل مہلک ہتھیاروں سے حملے کر رہا ہے اور آدھے سے زیادہ غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایران کے صدر نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع ہونے چاہئیں۔ ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ فلسطین ضرور آزاد ہوگا۔

اس خطاب میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے مسئلہ فلسطین کے دس فوری حل پیش کیے، جن میں1۔ “غزہ کے لوگوں کا قتل عام روکنا”، 2۔ “مکمل طور پر ناکہ بندی کا خاتمہ، 3۔ تمام کراسنگ (گزرگاہوں) کو دوبارہ کھولنا”، 4۔ “غزہ سے صیہونی فوجیوں کا فوری انخلا”، 5۔ “صیہونی حکومت کے ساتھ ہر طرح کے سیاسی اور تجارتی تعلقات کو منقطع کرنا”، 6۔ “اسلامی حکومتوں کی طرف سے صہیونی فوج کو دہشت گرد قرار دینا”، 7۔ “صیہونی حکومت کے جرائم کی تحقیقات کے لیے ایک عدالت کا قیام اور اس حکومت اور امریکہ کے اہلکاروں کے خلاف ان جرائم میں حصہ لینے پر مقدمہ چلانا”، 8۔ “غزہ کی تعمیر نو کے لیے فنڈ قائم کرنا”، “فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد کے قافلے بھیجنا”، 9۔ غزہ کے اسپتالوں پر بمباری کے دن کو یوم نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرم کا نام دینا اور 10۔ فلسطینی عوام کو قابضین کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلح کرنا شامل ہے۔

قابل ذکر ہے کہ عرب لیگ اور اسلامی ممالک کے سربراہان کا ہنگامی اجلاس ریاض میں منعقد ہوا، جس میں فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم کی شدت اور عالمی رائے عامہ بالخصوص اسلامی اقوام کی بڑھتی ہوئی حساسیت اور تازہ ترین صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔ یہ اجلاس ایسے حالات میں ہو رہا ہے کہ مقبوضہ علاقے بالخصوص غزہ پٹی صیہونی جارحیت کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس اجلاس کے نتائج سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔ اس وقت مسئلہ فلسطین عالم اسلام کے اہم ترین مسئلے کے طور پر اسلامی ممالک کے لیے امتحان بن گیا ہے۔ غزہ میں جارح اسرائیل کے ہاتھوں جو کچھ ہو رہا ہے، اگر یہ انسانیت کے خلاف جرم نہیں ہے تو پھر انسانیت کے خلاف جرم کا مصداق کیا ہے۔؟

غاصب صیہونی حکومت نے طوفان الاقصیٰ کے منفرد آپریشن میں فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے کے بعد امریکہ کی ہمہ جہت فوجی اور سیاسی حمایت سے غزہ کی پٹی پر بڑے پیمانے پر حملے شروع کر دیئے ہیں، جن میں رہائشی اور طبی سمیت ہر طرح کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ غزہ کی پٹی میں اس وقت تک 11 ہزار سے زائد افراد شہید اور 27 ہزار زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ غزہ پٹی میں کل ہاؤسنگ یونٹس میں سے 45 فیصد کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے، ہاؤسنگ کے امور سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے بالا کرشنن راجا گوپال نے کہا ہے کہ غزہ میں مکانات اور بنیادی ڈھانچے کی منظم تباہی نہ صرف انسانیت کے خلاف جرم بلکہ ایک جنگی جرم ہے۔

واضح رہے کہ اگر سعودی عرب میں ہونے والا عرب اور اسلامی ممالک کا ہنگامی اجلاس مظلوم فلسطینی قوم کی مدد اور غزہ کی پٹی میں صیہونیوں کے جرائم کو روکنے میں ناکام رہا تو اس بات کا امکان ہے کہ تنازعات کا دائرہ مزید بڑھ جائے گا۔ بہرحال اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے آج اپنے خطاب میں اسلامی ممالک کے رہنماؤں پر واضح کیا کہ اب امت اسلامیہ کا خون جوش مار رہا ہے۔ سب کو معلوم ہونا چاہیئے کہ آج وہ ایک خدائی امتحان سے دوچار ہوئے ہیں اور اگر اسلامی ممالک کے سربراہان کا آج کا اجلاس فلسطینی عوام کو بچانے کے لیے کوئی فیصلہ کن اقدام کرنے میں ناکام رہا تو اس سے اقوام کی حکومتوں سے مایوسی اور فلسطین کے دفاع میں ان کی بے صبری میں اضافہ ہوگا اور وہ خود کارروائی کرسکتے ہیں۔