ایرانی میزائل اسرائیل اور امریکہ لئے تہہ در تہہ خطرہ بن چکے ہیں ۔۔۔ یروشلم پوسٹ

صہیونی اخبار "یروشلم پوسٹ" نے اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی حصولیابیوں اور میزائل صلاحیتوں کے سلسلے میں اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایرانی میزائل تل ابیب اور واشنگٹن کی سلامتی کے لئے کئی تہہوں پر مشتمل خطرہ بن چکے ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: صہیونی اخبار نے ایران کے جدید ترین “خیبر بیلسٹک میزآئل” کے تجربے کے دو روز بعد، اتوار 27 مئی (2023ع‍) کو، ـ بہت سے دوسرے صہیونی ذرائع کی طرح ـ اس مسئلے پر رد عمل ظاہر کیا اور اپنی رپورٹ میں “ایران کی فوجی حصول یابیوں (Achievements) میزائل صلاحیتوں کو جعلی صہیونی ریاست اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے لئے خطرہ” قرار دیا ہے۔
یروشلم پوسٹ (Jerusalem Post) نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے: “ایران سنہ 1980ع‍ کی دہائی سے اپنے میزائل پروگرام پرکام کرتا رہا ہے، اور آج اس نے اپنے میزائلوں کی رینج اور درستگی (ٹھیک نشانے پر لگنے کی صلاحیت) میں اضآفہ کرنے کی کوششوں میں مصررف ہے؛ یہاں تک کہ آج ایران کے پاس رینج، درستگی، ایندھن کی نوعیت اور کارکردگی کے لحاظ سے میزائلوں کی مختلف قسمیں موجود ہیں؛ اور حتیٰ کہ اس لحاظ سے بھی ـ کہ کون سے دفاعی صنعت یا ایرواسپیس کے کون سے شعبے ان میزائل نظامات تیار کرتے ہیں ـ تنوّع اور وسعت پائی جاتی ہے اور یہ میزائل مختلف اداروں میں تیار ہوتے ہیں۔
مذکورہ صہیونی اخبار نے مزید لکھا ہے کہ ایران ایران اپنا کام ٹھوس اور مائع ایندھن سے کام کرنے والے میزائلوں نیز سیارچے [سیٹلائٹ] خلا میں پہنچانے والے میزائلوں پر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنی زیادہ تر توجہ کروز میزائلوں اور درست نشانے پر لگنے والے گائیڈڈ ہتھیاروں پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔ اور اخبار کے دعوے کے مطابق، ایران کے پاس ہتھیاروں کے حوالے سے اسرائیل، امریکہ، یورپ اور ایشیا کو خطرے میں ڈآلنے کے لئے متعدد آپشن موجود ہیں۔
یروشلم پوسٹ نے ایرانی میزائلوں کی کی صلاحیت کے بارے میں لکھا ہے کہ ایرانی میزائل عمومی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں بہت ساری معلومات دستیبا ہیں۔ واشنگٹن میں تعینات اسٹراٹیجک اور بین الاقوامی تعلقات مرکز کے پاس اس سلسلے میں رپورٹ موجود ہے جس کا تعلق ایران کے اصل میزائلوں سے ہے۔ نگرانی اور تجزیئے کی اس فہرست میں عماد، قدر-1، خرم شہر، سجیل، شہاب-3 جیسے درمیانے فاصلے پر مارنے کرنے والے میزائل، اور ذالفقار، تندر-69، شہاب-1 و 2، قائم-1، فاتح-110 اور فاتح-113 جیسے کم فاصلے پر مار کر نے والے میزائل شامل ہیں؛ اس لسٹ میں سفیر اور سیمرغ نامی سیٹلائٹ داغنے والے راکٹ بھی شامل ہیں۔
اخبار نے مزید لکھا ہے کہ ایرانی میزائلوں کی رینج کے سمجھنے کے لئے ہمیں خرمشہر سیریز کے میزائلوں کا جائزہ لینا پڑے گا جس کا حال میں تجربہ کیا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میزائل کی رینج 2000 کلومیٹر سے زیادہ ہو، حالانکہ عماد اور قدر میزائلوں کی رینج 1700 سے 1950 کلومیٹر تک اور شہاب-3 میزائل کی رینج تقریبا 1300 کلومیٹر ہے؛ جبکہ سجیل میزائل کی رینج بھی خرمشہر [خیبر] میزائل کی طرح، 2000 کلومیٹر تک پہنچتی ہے۔ ایران سومار نامی کروز میزائل بھی تیار کرتا ہے جس کی رینچ 3000 کلومیٹر تک پہنچ سکتی ہے۔ نیز میزائلوں کی بلندی ـ جہاں سیٹلائٹ پہنچایا جا سکتا ہے ـ کے لحاظ سے، اکثر ایرانی راکٹوں کی رینج 500 کلومیٹر تک ہے۔
ایرانی میزائل دشمنوں کے لئے تہہ در تہہ خطرہ
مذکورہ صہیونی اخبار نے لکھا ہے کہ ایرانی میزائل کئی تہہوں پر مشتمل خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں، کیونکہ اول یہ کہ ایران اپنے میزائلون کو ترقی دینے کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہے: سپاہ پاسدران کے ذریعے بھی اور ملکی خلائی پروگرام کے ذریعے بھی۔ دوسرئم یہ کہ ایران خطے میں اپنے اتحادی ملکوں کو میزائل برآمد کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
مذکورہ عبرانی اخبار نے لکھا ہے کہ ایران مختلف قسم کے ایندھنوں سے فائدہ اٹھا کر، کروز میزآئل پروگرام میں سرمایہ کاری کرکے، زیادہ پیچیدہ اور جدید میزائلوں، مشقوں میں استعمال ہونے والے گولہ بارود اور درست نشانے پر لگنے والی جدید فوجی مصنوعات کی تیاری کی کوشش کر رہا ہے۔ نیز یہ ملک اپنے حملوں میں میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے مربوط اور ہم آہنگ استفادہ کرنے کے لئے بھی کوشاں ہے، واضح ہے کہ اگر ایران طویل فاصلے پر مار کرنے والے ایسے میزائل کی تیاری پر اپنی توجہ مرکوز کرے جو جوہری وار ہیڈ بھی نشانے تک لے جا سکتا ہے، تو یہ میزائل خطرے کا عروج ہوگا۔
یروشلم پوسٹ نے اپنی رپورٹ کے آخر میں لکھا ہے کہ ایران نے حال ہی میں اپنے میزائلوں کی تیز رفتاری، راڈاروں کی زد سے بھاگنے کی صلاحیت، اور الیکٹرانک جنگی صلاحیت میں اپنی مہارتوں کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، وہ یقینا بہت اہم ہے اور اسے سنجیدہ لینا چاہئے۔ اگرچہ ان باتوں کی درستگی کی تشخیص ممکن نہیں ہے۔ جس وقت ایران نے “خیبر میزائل” کی رونمائی کا اعلان کیا، اسرائیلی ذرائع نے تصدیق کی کہ نئے میزائلوں کی رونمائی اور نظام الاوقات، ایران کے تسدیدی نظریئے (Deterrence Theory) کا حصہ ہے، جس کا مقصد اسرائیل کے آگے بند باندھنا اور اس کی دھمکیوں کو بے اثر کرنا ہے۔
ادھر صہیونیوں کے ٹیلی وژن چینل آئی-12 نے بھی اسی سلسلے میں رپورٹ دی کہ ایران نے نئے بیلیسٹک میزائل کی رونمائی کی ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ میزائل پورے اسرائیل تک مار کر سکتا ہے؛ سوال یہ ہے کہ اکران نے اس خاص موقع پر یہ خبر کیوں نشر کی ہے اور نئے میزائل (خیبر) کے تجربے اور رونمائی کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟ مذکورہ چینل میں عرب مسائل کے تجزیہ کار صہیونی صحافی اوہاد حمو (Ohad Hamo) نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: ایران اور اسرائیل کے درمیان عرصے سے جاری دھمکیوں اور ان کے جوابات کا سلسلہ اس وقت جاری ہے اور ایرانی میزائل کی رونمائی در حقیقت ایک دو ٹوک اور اعلانیہ بیانیہ ہے۔۔۔ اہم مسئلہ کسی تجربے اور کسی ہتھیار کی رونمائی میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ مسئلہ ایک دفاعی اسباب سے تعلق رکھتا ہے اور جارحانہ نہیں ہو سکتا۔ یہ اسرائیل کے مقابلے میں ایران کی تسدیدی پوزيشن کے تحفظ پر مبنی اقدام تھا؛ ایرانی اسرائیل سے آنے والی آوازوں کو سنتتے ہیں، اور اس انداز سے جواب دیتے ہیں۔
خیبر (خرمشہر-4) میزائل کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس میزائل کی رینج 2000 کلومیٹر ہے، اس کے وار ہیڈ کا وزن ڈیڑھ ٹن دھماکہ خیز مواد پر مشتمل ہے، اور یہ پہلا ایرانی میزائل نہیں ہے جو اسرائیل کے پورے رقبے کو ڈھانپ لیتا ہے۔
ادھر فارس خبر ایجنسی نے مکور ریشون نامی صہیونی اخبار کے حوالے سے رپورٹ دیتے ہوئے ایران کی اور حزب اللہ کی فوجی قوت اور تل ابیب کی تسدیدی صلاحیت کی شکست و ریخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “اسرائیل جنگ کے لئے تیار نہیں ہے”۔
مکور ریشون نے مزید لکھا: “ایک عشرہ قبل ایران کو زیادہ تر تنہائی اور جنگوں کا سامنا تھا، لیکن اب یہ ملک ایک علاقائی سوپر پاور اور جانی پہچانی طاقت بن گیا ہے۔ چین اور روس کے ساتھ اس کا اتحاد باعث تشویش ہے، اور بعض عرب ممالک کے ساتھ اس کے نئے دوستانہ تعلقات اس تشویش میں اضافے کا سبب ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔