ایران کے خلاف اقدام، اسرائیل کی تباہی کی سند کی توثیق ہے ۔۔۔ صہیونی ماہرین (۲)

سابق امریکی صدر اوباما نے اسرائیل کو دھمکی دی تھی کہ اگر اسرائیل یکطرفہ طور پر ایران کے خلاف فوجی اقدام کرنا چاہے تو امریکی فوج خود ہی ایسا حملہ روکنے کے لئے اقدام کرے گا!!!؟"

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

سابق اسرائیلی میجرجنرل، وزیر اقتصاد اور کنیسٹ کا رکن یائیر گولان کہتا ہے:
“ایران کے جوہری پروگرام کا مسئلہ 1981ع‍ میں عراقی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی طرح نہیں ہے؛ یہ 1978ع‍ میں شام کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی طرح بھی نہیں ہے۔ میں تمام تفصیلات نہیں بتانا چاہتا لیکن ایران کے ساتھ جنگ ایک مزاحیہ ٹیلی وژن شو نہیں ہے۔ چنانچہ اسرائیل کو بڑی طاقتوں کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے، کیونکہ تن تنہا ایران کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں کرسکتا”۔
یہ صرف معدودے چند صہیونی ماہرین کے اعترافات تھے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملہ احمقوں کی جنت میں رہنے والے کچھ نادانوں کے وہم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
حالیہ چند برسوں کے دوران پرانے اور چھوٹے ہتھیاروں اور کم از کم فوجی وسائل سے لیس اور زمینی اور فصائی جنگ کے ضروری وسائل سے محروم چھوٹی سی فوج نما فلسطینی مقاومتی تحریکوں کے مقابلے میں صہیونی افواج کی شرمناک کارکردگی، اسرائیلی فوج کی حقیقت کو اچھی طرح عیاں کرتی ہے۔ ان جنگوں میں اسرائیل جدید ترین جنگی طیاروں، ہیلی کاپٹروں، ڈرون طیاروں، ٹینکوں، جنگی بحری جہازوں، مختلف النوع جنگی اور مواصلاتی وسائل اور ہتھیاروں کے باوجود ایک فلسطینی تنظیم کے سامنے چند دنوں سے زیادہ نہ ڈٹ سکا، اور دوسرے ممالک کا دامن پکڑ کے جنگی بندی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہؤا۔ ان جنگوں کے آخر میں ہی گویا اسرائیلی سمجھ جاتے تھے کہ انہیں جنگ نہیں جنگ بندی چاہئے!!
صہیونی اہلکار اور تجزیہ کار اس حقیقت کی طرف ضرور توجہ دلاتے ہیں کہ جب ایک چھوٹی مقاومتی تنظیم اس ریاست کو اتنے گہرے مسائل سے دوچار کرتی ہے، تو اگر حزب اللہ لبنان کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو اسرائیل پر کیا غضب اترے گا! کیونکہ حزب اللہ 2006ع‍ میں اسرائیل کو شکست دینے کے 18 سال بعد ایک زبردست عسکری-سیاسی قوت میں بدل گئی ہے جو جدیدترین ہتھیاروں، فوجی وسائل اور ممتاز فوجی افسروں کی خدمات سے فائدہ اٹھاتی ہے اور لبنان تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے مغربی ایشیا میں اپنا کردار ادا کرتی ہے جس کا مقابلہ اب اسرائیل کے بس کی بات نہیں ہے، تو ایسے میں ایران کو دھمکیاں دینے کا مطلب ڈرے سہمی صہیونیوں کو خوف کے بھوت سے چھڑانے کے لئے منعقدہ ایک ٹی وی شو کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟
مطلب یہ ہے کہ صہیونی ماہرین کے موقف اور عینی حقائق کی روشنی میں، جعلی صہیونی ریاست کسی صورت میں بھی مغرب کی حمایت کے بغیر ایران پر حملہ نہیں کرے گی اور ہم جانتے ہیں کہ مغرب کو درپیش مسائل میں بھی اسرائیل پہلی ترجیح نہیں ہے بلکہ اسے تو اپنے مسائل کا سامنا ہے جن میں یوکرین پیش پیش ہے!
اور ہاں! کیا امریکہ اور یورپ اسرائیل کی خاطر ایران کے ساتھ جنگ پر آمادہ ہونگے؟
صہیونی ریاست کو یقین ہے کہ مغرب کی حمایت کے بغیر ایران کے خلاف کوئی بھی اقدام اس ریاست کی مکمل نابودی اور دنیا کے نقشے سے مٹ جانے کی دستاویز پر دستخط کرنے کے مترادف ہے۔ چنانچہ ایران کے خلاف کاروائی کے لئے اسرائیلیوں کی بنیادی شرط اس جنگ میں امریکہ سمیت مغربی دنیا کی موجودگی اور کردار ہے۔ مقبوضہ فلسطینی سرزمین کا محدود رقبہ، تزویراتی گہرائی کا فقدان، آبادی کی قلت، گولہ بارود ذخیرہ کرنے کے محدود امکانات وغیرہ ایسے عوامل ہیں جن کی رو سے اس کو ایک وسیع البنیاد جنگ میں ایک بڑی طاقت کی حمایت کی ضرورت ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا اسرائیل کی مجوزہ جنگ مغربی طاقتوں کے مفاد میں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک ایران کی فوجی طاقت اور علاقے میں اس کے اثر و رسوخ سے کافی حد تک واقف ہیں، چنانچہ ان کے ہاں ایران کے خلاف کسی قسم کی جنگ شروع کرنے کا کوئی بھی منصوبہ زیر غور نہیں ہے، اور وہ اسرائیل کو بھی – جو حتیٰ خود بھی منافع پرست مغربی دنیا کے کندھے پر بوجھ بنا ہؤا ہے، جسے انھوں نے منافع بٹورنے کے لئے بنایا تھا اور اب اس پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے اور منافع بھی حاصل نہیں ہو رہا ہے – ایران کے خلاف جنگ شروع کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
صہیونی ریاست کے سلامتی اور سیاسی امور کا ماہر یونی بن میناحیم (Yoni Ben-Menachem) کہتا ہے:
“اسرائیل امریکہ پر دباؤ بڑھا کر اسے ایران کے خلاف فوجی اقدام پر آمادہ کرنے کے اپنے مشن میں ناکام ہو چکا ہے۔ [سابق] وزير اعظم نفتالی بینیٹ، [موجودہ] وزير اعظم یائیر لاپید، اور متعدد دوسرے اہلکار واشنگٹن میں امریکی حکام سے مذاکرات میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ ادھر اگر ایران اور 4 وٹو طاقتوں کے باہمی ایٹمی مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو متبادل کے طور پر ایران کے خلاف امریکی-اسرائیلی مشترکہ فوجی حملہ ایجنڈے پر موجود نہیں ہے۔ لاپید نے حال ہی واشنگٹن میں کہا کہ وہ ایران کے خلاف فوجی اقدام کا حق اپنے لئے محفوظ رکھتا ہے لیکن بالکل واضح ہے کہ تل ابیب کو اس طرح کے اقدام کے لئے واشنگٹن کی عملی حمایت چاہئے؛ اور رابرٹ مالی پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ “مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں امریکہ ایران پرمزید پابندیاں لگا سکتا ہے۔ ایران کے خلاف ملٹری آپشن بائڈن کی میز پر نہیں ہے اور بائڈن اس طرح کے کسی اقدام پر یقین نہیں رکھتے”۔
ویب سائٹ: nziv نے لکھا ہے:
“سابق امریکی صدر اوباما نے اسرائیل کو دھمکی دی تھی کہ اگر اسرائیل یکطرفہ طور پر ایران کے خلاف فوجی اقدام کرنا چاہے تو امریکی فوج خود ہی ایسا حملہ روکنے کے لئے اقدام کرے گا!!!؟”
ویب گاہ “اسرائیل ٹائمز” نے لکھا ہے:
“اسرائیل امریکی انتظآمیہ کو ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے کیونکہ یہ ایٹمی تنصیبات پوری دنیا کی سلامتی کے لئے خطرناک ہیں لیکن جو بائڈن اس کے شدید خلاف ہیں، وہ سفارتکاری کو صحیح راستہ سمجھتے ہیں اور ایران کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کو صحیح نہیں سمجھتے”۔
اسرائیل ڈیفنس ویب گاہ کا چیف ایڈیٹر ایمی روہیکس ڈومبا (Ami Rohex Dumba) نے لکھا:
“وزیر جنگ بینی گانٹس کی دھمکیاں اور ایران کے خلاف اسرائیلی حملے سے متعلق اخباری سرخیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی سیاسی نظام کے اندر ایران کے مسئلے کے سلسلے میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ امریکہ ایٹمی معاہدے میں واپسی کا مشتاق ہے اور کسی کو بھی یقین نہیں ہے کہ بائڈن مشرق وسطی میں کسی نئی جنگ کے آغاز کے روادار ہونگے!؟”
سابق صہیونی وزیر اعظم، ایہود اولمرٹ:
سنہ 2008ع‍ کے آغاز پر جارج ڈبلیو بش نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کرکے اس وقت کے وزیر دفاع ایہود بارک کی موجودگی میں کہا: “میں کسی صورت میں بھی اسرائیل کو ایران کے خلاف کاروائی کی اجازت نہیں دوں گا اور ریاستہائے متحدہ امریکہ اسرائیلی طیاروں کو عراق کی فضاؤں سے نہیں گذرنے دے گا۔ بش کو یقین تھا کہ اسرائیل کی یہ آرزومندانہ خواہش اور اس کے نتیجے میں اسی راہ پر بین الاقوامی برادری کی غلط راہنمائی، ایک انتہائی خطرناک، غلط اور ممکنہ طور پر تباہ کن اقدام ہے”۔
صہیونی ذرائع ابلاغ اور ماہرین کے بیانات اور تجزیوں پر ایک نظر ڈالنے سے، – جن میں سے بعض کو اوپر نقل کیا گیا – ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے صہیونی ریاست پر واضح کر دیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف جنگ شروع کرنے کا کوئی بھی منصوبہ نہیں رکھتے اور نہ ہی ایسے کسی منصوبے میں دلچسپی رکھتے ہیں، کیونکہ امریکہ اور مغربی ممالک اور ان کے مفادات کے لئے اس جنگ کے وسیع اور ہولناک نتائج کا اندازہ لگانا ممکن نہ ہوگا۔
زمینی حقائق سے البتہ یہ اندازہ لگانا بھی کچھ زیادہ دشوار نہیں ہے کہ حتی امریکہ سمیت مغربی دنیا کی حمایت کے باوجود بھی صہیونی ریاست کے لئے ایران کے خلاف جنگ لڑنا ممکن نہیں ہے، تاہم اگر فرض کریں کہ مغرب کی حمایت سے ان کے لئے ایسا کرنا ممکن ہے، تو فی الحال عرض یہی ہے کہ مغرب جعلی اسرائیل کی طرف سے ایران کے خلاف کسی جنگ کی فوجی حمایت نہیں کرے گا چنانچہ جعلی اسرائیل ایران کے خلاف کسی بھی براہ راست فوجی کاروائی انجام دینے سے عاجز ہے۔ چنانچہ اسے نمائشی اقدامات – بشمول حملوں کی سیمولیشن، فوجی مشقوں، لفاظیوں، کھوکھلی شیخیوں اور لاف زنیوں پر سرمایہ کاری کرنا پڑ رہی ہے اور یہ جتانے کی کوشش کررہی ہے کہ: خبردار ہم خطرناک ہیں!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری