ایک بدکردار یہودی فلسفی، ژاں پال سارتر

ژاں پال سارتر (1) تقریبا تین عشروں تک پیرس کی فلسفی حیات پر مسلط رہا۔ وہ سنہ 1905ع‍ میں پیدا ہؤا، سنہ 1974ع‍ میں بیمار پڑ گیا اور اپنی بصارت کھو گیا؛ لیکن بڑھاپا ہی اس کے جسم کی تحلیل اور شدید بیماری اور سنہ 1980ع‍ میں اس کی موت کا سبب نہ تھا!!

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ژاں پال سارتر (1) تقریبا تین عشروں تک پیرس کی فلسفی حیات پر مسلط رہا۔ وہ سنہ 1905ع‍ میں پیدا ہؤا، سنہ 1974ع‍ میں بیمار پڑ گیا اور اپنی بصارت کھو گیا؛ لیکن بڑھاپا ہی اس کے جسم کی تحلیل اور شدید بیماری اور سنہ 1980ع‍ میں اس کی موت کا سبب نہ تھا!!
سارتر نے “وجودیت” (Existentialism) کی خاتون فلسفی اور اور سارتر کی غیر شادی شدہ معشوقہ سیمون دی بوار (2) اور اپنے پرسنل سیکریٹری بینی لیوی (Benny Levy) کے ساتھ سلسلہ وار مکالموں کا اہتمام کیا۔ اس کا پہلا انٹرویو دوبوار کی کتاب “الوداعی تقریب: سارتر کے ساتھ انٹرویو” (3) کے نام سے سنہ 1981ع‍ میں شائع ہؤا؛ جس سے ظاہر ہؤا کہ سارتر کتنی شدید نفسیاتی اور دماغی خلل (Psychoneurosis) میں مبتلا تھا، اور وہ اس مسئلے سے مسلسل خوف میں مبتلا رہتا تھا کہ “عورتوں کے سامنے نہيں ٹھک سکتا تھا”؛ عورتیں اس کی کمزوری سمجھی جاتی تھیں! اور اخلاقی بے راہ روی کا شکار تھا۔
مذکورہ کتاب سے یہ بھی معلوم ہؤا ہے کہ ماں سے اس کی تضادات بھری محبت اس کی جنسیت اور افکار پر چھائی ہوئی تھی۔ اسے خوف رہتا تھا کہ کہیں اسے ماں کے سپرد نہ کیا جائے، اور بہت زیادہ خائف رہتے تھے اس سے کہ ماں کہیں اسے تنہا چھوڑ کر چلی نہ جائے! اور یہ اندرونی تضاد ہی سبب ہؤا کہ وہ کبھی بھی اپنے آپ کو کسی عورت سے مختص نہیں کر سکے؛ اور عجیب یہ کہ اس نے خود کہا ہے کہ خوف کی یہ متضآد قسمیں اس کے فلسفۂ “وجودیت” کے بڑے حصے کے لئے بنیاد بنی ہوئی تھیں!
ژان پال سارتر 21 جون 1905ع‍ کو پیدا ہؤا۔ ایک سال کا تھا کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا، اور اس کی بیوہ ماں این میری شویٹزر (4) اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کے لئے آبائی گھر میں واپس چلی گئی۔ ژان پال سارتر پانچ سال تک اپنے سختگیر، تسلط پسند مگر مہربان نانا (شارلز شویٹزر [Charles Schweitzer]) اور کم خوش خُلق نانی (کارل شویٹزر [Carl Schweitzer]) کی سرپرستی میں رہا؛ سارتر کے والدین اس کی ماں کے ساتھ بچوں کا سا برتاؤ روا رکھتے تھے۔
ژان پال سارتراور اس کی ماں این میری شویٹزر
سارتر کی زندگی کی ایک اہم خصوصیت اس کا ماں کے ساتھ غیر فطری تعلق سے عبارت تھی۔ نانا اور نانی سارتر اور این میری کے ساتھ دو بچوں کا سا رویہ روا رکھتے تھے، اور لگتا تھا کہ وہ ماں بیٹا نہیں بلکہ بھائی بہن ہیں۔ یہ دونوں 10 سال کے عرصے تک ایک کمرے میں دو چارپائیوں پر سوتے تھے۔ سارتر کی ماں ایک کم عمر لڑکی کی طرح سارتر کی منتظر رہتی تھی اور سارتر جو اس کے منظرنامے کا ہیرو تھا، کو گویا اس کی دیکھ بھال کرنا تھی۔
عجیب یہ ہے کہ سارتر اپنی ماں سے پیار کرنے لگا تھا، “مَحرَم سے [غیر فطری] پیار!” اور یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ ماں کی دوسری شادی نے سارتر کو کس مصیبت میں مبتلا کیا ہوگا! اسے ماں کے ساتھ پیرس سے باہر مغربی ساحلی شہر لا روشیل (5) جانا پڑا۔ سارتر کا سوتیلا باپ جوزف منسی (Joseph Mancy) انجنیئر تھا اور بحری جہازوں کی مرمت کے ایک ورکشاپ کا انچارج۔
اپنے سوتیلے یا منہ بولے باپ کو جارح اور متجاوز سمجھتا تھا اوراس کا خیال تھا کہ منسی نے ماں کے دل میں اس کی جگہ پر قبضہ کر لیا ہے چنانچہ وہ اس سے سخت نفرت کرتا تھا۔ سارتر جذباتی طور پر یہ بات قبول نہیں کر سکتا تھا کہ اس کی ماں منسی سے محبت کرتی تھی اور اسی بنا پر اس کی بیوی بنی ہے! کیونکہ وہ خود اس سے پیار کرتا تھا!! یہ تصور اس کے بعد کے نظریات میں بہت حد تک مؤثر تھا۔ اور منہ بولے باپ سے نفرت بورژوا طبقے (Bourgeois class) کی طرز زندگی سے نفرت میں بدل گئی اور وہ ہر اس چیز سے نفرت کرتا تھا جس کی مانسی ترجمانی کرتا تھا۔
عجب یہ ہے کہ سارتر اس بات سے بہت خوفزدہ تھا کہ اپنے آپ کو ماں کے سپرد کرے! اور اس نے ڈی بوار کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا کہ “میں 13 سال کی عمر میں تین ہفتوں تک اسپتالی میں داخل رہا تو میری ماں ساتھ لگی چارپائی پر سوتی تھی”؛ وہ اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے: “میں سونے کی اداکاری کرتا تھا، اور چھپ کر ماں [کے بدن] کو لباس بدلتے وقت دیکھا کرتا تھا!!
وہ اپنے منہ بولے باپ اور لا روشیل [شہر] دونوں سے نفرت کرتا تھا چنانچہ اس نے گھر میں لڑنا جھگڑنا شروع کیا اور ماں سے چوری کردی چنانچہ اسے پیرس میں نانا کے پاس بھجوایا گیا۔
ژان پال سارتر گمراہ فلسفی
وہ عام طور پر بیمار رہتا تھا اور ٹوٹے پھوٹے جسم کا مالک تھا۔ بچپن میں بیماری اور عدم معالجے کی وجہ سے اس کو آنکھ کا عارضہ لاحق ہؤا تھا جس کی وجہ سے اس کی بصارت میں خلل پڑ گیا تھا، چنانچہ بڑی عمر میں بھینگے پن سے دوچار ہؤا اور اس کا قد ڈیڑھ میٹر رہا۔ وہ جو انتہائی بدصورت تھا، فکری لحاظ سے جاذب نظر، نظر آنے کے لئے کوشاں رہتا تھا اور یوں عورتوں کو اپنی جانب راغب کرا دیتا تھا: [اس حوالے سے چکنی چپٹی زبان اور موٹی موٹی اصطلاحات اس کا خاصہ تھیں]۔
*****
ژان پال سارتر طالب علم کی حیثیت سے معتبر جامعہ ” اکولے نورمالے سپیریئر” (6) میں داخل ہؤا۔ اس نے اپنا وقت “مطالعہ کرنے، شراب نوشی اور ضیافتوں میں شرکت” میں تقسیم کیا [یہ اس کا ٹائم ٹیبل یا نظام الاوقات تھا]۔ اخری امتحان میں ناکام ہؤا تو بہت زیادہ اداس اور مردہ دل ہو گیا۔ حیرت کی بات نہ تھی کیونکہ وہ معمول کے تفکرات کو حقیر سمجھتا تھا اور جو سوالات امتحان میں طلباء سے پوچھے گئے تھے، اس کے لئے بہت زیادہ معمولی سے تھے۔ چنانچہ اگلے سال کے امتحان میں اول آیا۔
یہ امتحانات سنہ 1929ع‍ میں منعقد ہوئے۔ ایک 21 سالہ لڑکی بھی ـ جو لیپ ریڈنگ کے ذریعے اس کی جماعت میں پہنچی تھی ـ تھوڑے سے نمبروں کے اختلاف سے دوسرے نمبر پر آئی۔ یہ لڑکی سیمون ڈی بوار ہی تھی جو بہت چست و چالاک اور محنتی تھی چنانچہ ایک ہم جماعت نے اس کو ببہارا (یا بیور) (7) کا عنوان دیا تھا۔ سارتر کو گویا “اپنی جوڑی” مل گئی تھی۔ ڈی بوار نے سارتر کو معقول شکل و صورت اور مناسب وضع قطع اختیار کرنے میں مدد دی؛ گوکہ وہ سارتر کے افکار کے بارے میں اس کے ساتھ بحث و جدل بھی کرتی تھی۔
ژان پال سارتر اور سیمون ڈی بوار
ان دو نے [روایتی شادی کے بغیر ہی] تا زیست باہم رہنے کی بنیاد رکھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ “شادی بورژوا طبقے کے لئے مخصوص ہے، چنانچہ انہوں نے شادی نہیں کی لیکن دونوں نے اتفاق کیا کہ وہ باہمی تعلق کو دوسروں سے تعلق پر مقدم رکھیں؛ اور کبھی کبھی ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنی زندگی کے ایام [نجی ماحول! میں] گذار دیں!۔
وہ جنسی رابطوں کے حوالے سے ایک دوسرے سے وفادار نہیں تھے، بس کہتے تھے کہ “ہمارا باہمی جنسی تعلق دوسروں کے ساتھ جنسی تعلق سے بہت زیادہ اہم ہے”، ان کا باہمی تعلق ضروری تھا اور دوسروں کے ساتھ ان دونوں کا ایسا ہی تعلق عارضی ہوتا تھا! ان دونوں کو معشوق اور معشوقہ منتخب کرنے کی پوری آزادی تھی، اور انہیں اس حوالے سے ایک دوسرے سے بازخواست کرنے کا حق حاصل نہیں تھا!
ڈی بوار نے اپنی خودنوشت داستان زندگی “عمر [زمانے] کی طاقت” (8) میں واضح طور پر لکھا ہے کہ “میں نے اتفاق کر لیا تھا کہ سارتر سے “عورتوں کی دلفریب رنگارنگی” کے کو نظر انداز کرنے کی توقع نہ رکھوں!
اولگا کوساکیوِچ کے ساتھ سہ فریقی ناجائز تعلق
البتہ ایک مسئلہ بھی تھا، کیونکہ ڈی بوار دو جنسیہ (Hermaphrodite) تھی، اور مختلف انواع کے عشق بازوں سے لطف اندوز ہؤا کرتی تھی [مردوں سے بھی اور عورتوں سے بھی]، اس کے لئے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں تھی کہ اس کی بعض معشوقائیں سارتر کی معشوقائیں ہی ہوں، اور اس قسم کے [ناجائز] تعلقات میں سے نمایاں تعلق وہ تھا جو دونوں نے یوکرینی نژاد فرانسیسی تھیئٹر اداکارہ اولگا کوساکیوِچ (یا کوساکیویچز) (9) سے بنایا ہؤا تھا۔
اولگا ڈی بوار کی 18 سالہ طالبہ (شاگرد) تھی۔ ڈی بوار نے اسے سارتر سے ملوایا۔ ڈی بوار اور سارتر نے باہمی بات چیت کے بعد فیصلہ کیا کہ “ایک سہ فریقی پیار! کا آغاز کر دیں! لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا اور سارتر اس طرح سے اولگا سے تعلق میں الجھا رہا کہ ڈی بوار کے ساتھ ترجیحی رابطے کا تحقظ بھی نہیں کر سکا! اور عہد شکنی ہو گئی!
ڈی بوار نے بعد میں اپنے ناول “مہمان” (10) میں اس تعلق کو اپنی کہانی کی اساس کے طور پر دوبارہ نمایاں کیا۔ حتی کہ جب ان کا سہ فریقی تعلق اختتام پذیر ہؤا، اولگا پھر بھی ان کے دوستوں کے حلقے میں رہی، کیونکہ اس نے فرانسیسی صحافی جیکس لارنٹ بوسٹ (Jacques-Laurent Bost) سے شادی کی تھی، اور جیکس فرانسیسی کمیون “لو آور” (11) میں سارتر کا شاگرد رہا تھا۔ البتہ اس دوران سارتر نے اپنی رنگین مزاجی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اولگا کی چھوٹی بہن وانڈا کوساکیوچز (12) کو اپنے حلقۂ غلاظت میں شامل کر لیا!
(واضح رہے کہ وانڈا ابتداء میں اپنی بہن اولگا کی طرح سارتر اور ڈی بوار کے ساتھ سہ فریقی تعلق کا حصہ بنی لیکن وہ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد فرانسیسی صحافی، فلسفی اور ڈرامہ نگار البرٹ کامو یا (البیغ کامو = Albert Camus) کی معشوقہ بن گئی؛ اور سارتر – جو البرٹ کامو سے نفرت کرتا تھا ـ نے بعد میں لکھا کہ یہی مسئلہ اس نفرت کا سبب تھا)۔
چنانچہ سارتر دوسری عالمی جنگ کے آغاز سے ایک سال قبل تک کئی معشوقاؤں کے ساتھ رنگ رلیوں میں مصروف تھا۔ فرانسیسی مؤرخہ اینی کوہن-سولال (13) نے اپنی کتاب “سارتر، ایک زندگی” (Sartre: A Life) میں، شوق بھرے انداز سے لکھا ہے: پیرس کے علاقے مونٹپرناسی (Montparnasse) میں وانڈا، لوسیلے (Lucille)، مارٹینے (Martine)، اور لوئس ووڈرین (بیانکا لیمبلن کا فرضی نام = Louis Woodrin) ہر شب سارتر کے ساتھ رنگ رلیاں منانے میں مصروف رہتی تھیں!
ژان پال سارتر، سیمون ڈی بوار اور بیانکا لیمبلن
بیانکا لیمبلن (14) ـ جو اپنے تعلق کے اختتام کے وقت سمجھ رہی تھی کہ سارتر اور ڈی بوار نے اسے اپنے اوپر قربان کر دیا ہے اور دونوں نے اسے دھوکہ دیا ہے ـ سہ فریقی تعلقات کی دوسری مثال تھی۔ بیانکا بھی ڈی بوار کی نوجوان شاگرد تھی، جسے سارتر نے “مسحور!” کر دیا تھا۔
بیانکا لیمبلن کی کتاب “شرمناک تعلق”
لیمبلن نے اپنی کتاب “شرمناک تعلق” (15) میں لکھا ہے: بہار سنہ 1939ع‍ میں، جب سارتر مجھے بدکاری کے لئے ایک ہوٹل لے کر جا رہا تھا تو انتہائی وقاحت اور بے شرمی سے مجھ سے کہنے لگا: “ہوٹل کی ملازمہ ہمیں دیکھ کر بہت حیران رہ جائے گی کیونکہ میں نے کل ہی اس ہوٹل میں ایک لڑکی کی بکارت زائل کر دی ہے!”۔
لیمبلن کہتی ہے: “میرے خیال میں جنسی رابطے کے سلسلے میں سارتر کی رائے نامناسب اور وحشیانہ تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کا دماغی خلل باعث ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر عورتوں کے سپرد نہ کرے۔ یہ کیفیت ان خطوط کے برعکس ہے جو جذباتی لحاظ سے بہت پیار بھرے اور گرم جوش ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عشق بازی کے لئے اس کے پاس واحد ذریعہ اس کا قلم تھا”۔ لیمبلن کے ساتھ سارتر کا تعلق ناگہانی طور پر، سارتر کے ایک خط پر، اختتام پذیر ہؤا جس میں اس نے لکھا تھا: “تمہاری نسبت میرا احساس سوکھ گیا ہے!”۔
معمول یہ تھا کہ جب سارتر پیرس میں، یا چھٹیوں کے دوران، کسی عورت کو چھوڑ دیتا تھا یا دوسری عورت کی طرف چلا جاتا تھا، تو وہ اپنے جنسی واقعات، من و عن ڈی بوار کو کہہ سناتا تھا۔ ڈی بوار نے بعد میں اس کے ان خطوط کو شائع کیا؛ ان خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ سارتر ڈی بوار کو اپنے جنسی رابطوں کا ماجرا سنا کر بہت زیادہ لطف اندوز ہوتا تھا۔ وہ تفصیلات کو اس انداز سے بیان کرتا تھا کہ ڈی بوار کو جتا سکے کہ “اس کے ساتھ اس کا تعلق دوسری عورتوں کے ساتھ وقتی رابطوں سے بالاتر ہے، اور دوسری عورتوں سے تعلق محض انہیں فریب دینے تک محدود ہے!”۔
ژان پال سارتر
ژان پال سارتر اَلْکُحَل، سیگریٹ اور لال رنگ کی شراب کی مدد سے برسوں تک لکھتا رہا اور جب کافی اور ویسکی جیسی چیزیں اس کا دن طویل تر کرنے میں ناکام رہتی تھیں تو خواب آور گولیوں کی باری آتی تھی! الکحل اور تمباکو اس کے “محبوب تفریحی مسکرات” میں شامل تھے۔ اس نے سنہ 1930ع‍ کے عشرے میں اس ایک بار میسکیلین (Mescaline) نامی وہم زا (Psychedelic) دوا استعمال کی تو اس پر ایسی مصیبت آئی کہ اس کے دوبارہ استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نشہ آور مواد کی وجہ سے اس کے جسم پر ناخوشایند اثرات مرتب ہوئے؛ یہاں تک کہ قوت ادراک میں گہری تبدیلی کی وجہ سے اس کی نظروں میں عام اشیاء اپنی شکل بدل دیتی تھیں!
اب تک ہم نے بدکردار یورپی فلسفی ژان پال سارتر کی زندگی میں ڈی بوار، اولگا، وانڈا اور بیانکا کی طرف مختصر اشارہ کیا، جبکہ فرانیسی گلوکارہ ـ اداکارہ جولیٹ گریکو (16)، بھی تھی جس کے لئے سنہ 1946ع‍ میں 4 سالہ سارتر نے ایک گانا لکھا تاکہ وہ اسے گا لے۔ نیز اس کا امریکی آتشی پیار ڈولورس وینیٹی (Dolores Vanetti) جسے سارتر نے کچھ عرصہ بعد ترک کردیا، فرانسیسی شاعرہ اور مترجمہ مشیل ویان (17) بھی سارتر کی عورتوں میں شامل تھی جس کے ساتھ سارتر کا تعلق آخر تک برقرار رہا؛ اور ان کے علاوہ دوسری بھی تھیں، اور وہ بے شمار عورتیں بھی جن سے وہ اپنے بقول صرف دھوکہ دہی تک کا جنسی رابطہ بنایا کرتا تھا۔ اور یہ واقعات سارتر کی نوجوانی کے دور کے ماجراؤں کے علاوہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
منبع: کتاب «فیلسوفان بدکردار»؛ نوشته: نایجل راجرز و مل تامپسون، ترجمه: احسان شاه‌قاسمی، چاپ سوم 1396، تهران: انتشارات امیرکبیر، صص255-281، به انتخاب و تلخیص: اندیشکده مطالعات یهود.

پی‌نوشت‌ها:
1. Jean-Paul Sartre (21 June 1905 – 15 April 1980)
2. Simone de Beauvoir (9 January 1908 – 14 April 1986) سیمون ڈی بوار کے ساتھ سارتر کا کھلا جنسی رابطہ شاید فرانس میں اپنی نوعیت کا پہلا رابطہ تھا!!! ۔=

3. Ceremonie des adieux: Entretiens avec Sartre
4. Anne-Marie Schweitzer (1883-1969)
5. La Rochelle
6. École normale supérieure
7۔ فارسی میں “سگ آبی” انگریزی میں Beaver اور سائنسی نام: Castor برصغیر کی زبانوں میں اسے ببہار اور بیور کہا باتا ہے۔ پہلوی یا ساسانی فارسی میں اسے “بیدَستَر” کہا گیا ہے۔

8. La Force de l’âge (The Force of Age)
9. Olga Kosakiewicz (6 November 1915 – 1983)
10. L’invitée (The guest)
11. Le Havre
12. Wanda Kosakiewicz (1917–1989)
13. Annie Cohen-Solal (born 1948)
14. Bianca Lamblin (April 1921 – 5 November 2011)
15۔ ایک پریشان لڑکی کی یادداشتیں (Mémoires d’une Jeune Fille Dérangée)۔۔۔ یہ کتاب انگریزی میں “A Disgraceful Affair” (ایک شرمناک تعلق) کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔
16. Juliette Gréco (7 February 1927 – 23 September 2020)
17. Michelle Marie Léglise (June 12, 1920 – December 13, 2017), also known as Michelle Vian
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔