ایک خط کی ابلاغیاتی عکاسی: غضبناکی سے بائیکاٹ تک

غزہ کے حامی امریکی طلبہ کے نام امام خامنہ ای کے خط کا ابلاغیاتی مقاطعہ خود بخود مغربی تہذیب کی ابلاغیاتی کمپنیوں ـ خاص طور پر امریکی ذرائع ابلاغ ـ کے بہت سارے حقائق کو عیاں کرتا ہے۔

فاران: غزہ کے حامی امریکی طلبہ کے نام امام خامنہ ای کے خط کا ابلاغیاتی مقاطعہ خود بخود مغربی تہذیب کی ابلاغیاتی کمپنیوں ـ خاص طور پر امریکی ذرائع ابلاغ ـ کے بہت سارے حقائق کو عیاں کرتا ہے۔
امیر حمزہ نژاد اپنی رپورٹ میں امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے حامی طلبہ کے نام انقلاب اسلامی کے رہبر معظم امام خامنہ ای (مُدَّ ظِلُّہُ العالی) کے خط کی ابلاغیاتی عکاسی کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
تشریح اور تنویر کا سلسلہ جاری ہے
فلسطین اور غزہ عالمی اتھل پتھل کا مرکز بن چکا ہے۔ اس صورت حال نے امریکہ اور مغرب سے مشرقی ایشیا تک کے ممالک کی پالیسیوں کو متاثر کر دیا ہے۔ مغرب میں طلبہ کی اٹھان ـ جسے امریکی “یہودیت دشمنی” کی لاٹھی استعمال کرکے کچلنا چاہتے ہیں ـ روزافزوں طور پر بھڑک رہی ہے۔ مغربی ممالک کے طلبہ ہوشیاری اور بیداری کی اس سطح پر پہنچے ہیں کہ وہ مزید اپنے ملکوں پر مسلط حکام کی غیر انسانی پالیسیوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور احتجاجی خیمے اور کیمپ لگا کر مغربی ممالک کے مراکز میں محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کا جزو بن چکے ہیں
امام خامنہ ای (مُدَّ ظِلُّہُ العالی) مورخہ 29 نومبر 2015ع‍‍ کو تمام مغربی نوجوانوں کے نام ایک خط لکھا اور امید ظاہر کی ‘کہ یہی نوجوان خود ہی مغربی فریب سے آلودہ افکار کو بدل دیں اور انسانی اور اخلاقی اقدار کو اپنے مفادات کے لئے قدموں تلے روندنے والی مغربی پالیسیوں کی بنیادوں میں اصلاح کریں’۔
آپ نے اس خط میں “اسرائیل” کی ریاست دہشت گردی میں لکھا تھا: “اس تضاد کا دوسرا چہرہ، اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی پشت پناہی کی صورت میں، نمایاں ہوجاتا ہے۔ فلسطین کے ستم زدہ عوام ساٹھ سال سے بھی زیادہ عرصے سے بدترین دہشت گردی کو برداشت کرتے آرہے ہیں۔ اگر یورپی عوام صرف چند دنوں سے اپنے گھروں میں پناہ لے کر بیٹھے ہیں اور ہرہجوم مقامات پر حاضری دینے سے پرہیز کرتے ہیں، تو ایک فلسطینی گھرانہ کئی عشروں سے اپنے گھر کے اندر بھی صہیونی ریاست کی کشت و خون اور انہدام و تخریب والی مشین سے محفوظ نہیں ہے۔ آج کس قسم کے تشدد کو قسی القلبی کے لحاظ سے صہیونی ریاست کی کالونیوں کی تعمیر جیسے واقعات سے قیاس کیا جاسکتا ہے؟
یہ ریاست ـ اپنے با اثر اتحادیوں یا کم از کم بظاہر خودمختار اور مستقل بین الاقوامی اداروں ـ کی جانب سے سنجیدگی سے سرزنش کا نشانہ بنے بغیر، ـ ہر روز فلسطینیوں کے گھر تباہ کرتی ہے اور ان کے باغات اور کھیتیوں کو اجاڑ دیتی ہے، یہاں تک کہ انہیں اپنے گھر کا سامان اٹھانے یا فصل کاٹنے [اور پھیل چننے] کا موقع بھی نہیں دیا جاتا؛ اور یہ سب عام طور پر ان عورتوں اور بچوں کی اشک بار آنکھوں کے سامنے انجام پاتا ہے جو اپنے کنبے کے افراد کے زد و کوب ہونے یا پھر خوفناک عقوبت خانوں میں منتقل ہونے کے عینی گواہ بھی ہیں۔ تو کیا آپ آج کی دنیا میں اس سطح پر اتنی عظیم اور حجیم اور اتنے طویل عرصے سے جاری قساوت قلبی کو [کہیں اور] دکھا سکتے ہیں؟”
شاید کم ہی کوئی سوچ سکتا تھا کہ اس خط کے تقریبا ایک عشرہ بعد، مغربی ممالک میں واقعات اس سمت کی طرف چلے جائیں کہ مغربی ممالک کے نوجوان ـ بالخصوص ان کے علمی اور تعلیمی مراکز کے دانشور طبقے کے افراد، ـ “مغربی دنیا میں مقاومتی مرکز” کی صورت اختیار کریں۔
چنانچہ رہبر انقلاب اسلامی، امام سید علی خامنہ (مُدَّ ظِلُّہُ العالی) نے مورخہ 30 مئی 2024ع‍ کو امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے حامی طلبہ کے نام اپنے خط میں، مغربی طلبہ کی اس عظیم تحریک کی تعریف و تحسین کرتے ہوئے فرمایا: “آپ نے اس وقت محور مقاومت [محاذ مزاحمت] کا ایک حصہ قائم کر رکھا ہے، اور [آپ] اپنی حکومت کے سَنگدِلانَہ دباؤ کے تحت ـ جو اعلانیہ طور پر غاصب اور بے رحم صہیونی ریاست کا دفاع کر رہی ہے ـ شریفانہ جدوجہد کا آغاز کر چکے ہیں۔
[گوکہ] مقاومت کے عظیم محاذ، آپ سے دور کے ایک علاقے میں، آپ کے آج کے فہم و ادراک اور جذبات کے ساتھ برسوں سے جدوجہد کر رہا ہے۔ اس جدوجہد کا مقصد اس کھلے اور واضح ظلم و ستم کا سد باب کرنا ہے جو “صہیونیوں” کے نام سے ایک دہشت گرد اور بے رحم نیٹ ورک نے، برسوں قبل فلسطینی قوم پر ڈھانا شروع کیا ہے اور ان کے ملک پر قابض ہونے کے بعد، انہیں شدید ترین دباؤ اور تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ صہیونی اپارتھائیڈ ریاست کی آج کی نسل کُشی، عشروں سے جاری بہت ظالمانہ برتاؤ کا تسلسل ہے”۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خط کی عالمی صدائے بازگشت
انقلاب اسلامی کے رہبر معظم کا خط امریکی سوشل میڈیا کارکنوں اور ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا۔ یہ خط حالیہ ایام میں مختلف مکالماتی پروگراموں اور ٹاک شوز کا موضوع بحث بن چکا ہے اور ان پروگراموں کے شرکاء (اپنے اپنے ابلاغیاتی نقطہ ہائے نظر کے مطابق) اس خط کے مضمون کی تائید یا مخالفت کرتے ہوئے اس کے کچھ حصوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
امریکی مجلے “نیوز ویک” نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکی طلبہ کے نام ایران کے سپریم لیڈر کا بلا واسطہ خط، امریکی حکام کے غیظ و غضب کا باعث ہؤا ہے۔
امریکی چینل اسکائی نیوز نے بھی انقلاب اسلامی کے رہبر معظم کا جائزہ لیا۔
ایک امریکی سینٹر ـ جو امریکی نوجوانوں کے نام رہبر انقلاب کے خط سے بہت غضبناک ہو چکا تھا ـ نے اعتراف کیا کہ “بہت سارے امریکی طلباء اس خط پر فخر کرتے ہیں”، اور کہا: “یونیورسٹیوں پر لازم ہے کہ اپنے طلباء کو تاریخ کی زیادہ تعلیم دیں”۔
سوشل میڈیا کے صارفین نے اس سینٹر کے جواب میں لکھا کہ وہ سنہ 1952ع‍ میں ایرانی وزیر اعظم محمد مصدق کے خلاف امریکی حمایت یافتہ بغاوت کا مطالعہ کریں اور ایک صارف نے سینٹر کو یاددہانی کرائی کہ احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف سرکاری اداروں کے تشدد آمیز اقدامات کو بھی دیکھ لیں!
امریکی جامعات کے طلبہ کے نام رہبر انقلاب اسلامی کے خط سے امریکی حکام کا غیظ و غضب اس قدر وسیع تھا کہ امریکی کانگریس کے سربراہ “مائیک جانسن” نے کہا: “آیت اللہ کی تائید و حمایت کا حصول امریکہ کے ہاتھ سے چلے جانے کے مترادف ہے”۔
انقلاب دشمن اداروں کا رد عمل
بی بی سی فارسی نے لکھا: آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خط میں، فلسطینیوں کے حامی امریکی طلبہ کو “تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہونے” پر، خراج تحسین پیش کیا، اور انہیں محاذ مزاحمت کا حصہ قرار دیا۔
بی بی سی فارسی نے مزید لکھا ہے: یہ پہلی بار نہیں ہے کہ آیت اللہ علی خامنہ ای مغربی نوجوانوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ انھوں نے 29 نومبر 2015ع‍‍ کو بھی عمومی طور پر مغربی نوجوانوں کے نام خط میں ان سے لکھا تھا: “چنانچہ میں آپ نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ صحیح شناخت و معرفت کی بنیاد پر، دوراندیشی اور گہری بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے، ناخوشگوار تجربات سے استفادہ کریں اور عالم اسلام کے ساتھ ایک صحیح اور شرافتمندانہ تعامل کی بنیاد رکھیں”۔ انھوں نے مورخہ 21 جنوری 2015ع‍ کو بھی مغربی نوجوانوں سے مخاطب ہوکر ان سے کہا تھا کہ فرانس میں تشدد کے واقعات پر اپنے رد عمل کے طور پر ایک خط جاری کیا تھا اور مغربی نوجوانوں سے کہا تھا کہ “اسلام کو براہ راستہ اور بلا واسطہ طور پر پہچان لیں اور اس دین کو اسلام کو بنیادی اور اصلی مآخذ اور درجۂ اول کے منابع کی روشنی میں پہچان لیں۔”۔
اس ابلاغیاتی رد عمل کے ساتھ ساتھ، مغربی – امریکی کی وسیع البنیاد ابلاغیاتی پالیسی رہبر انقلاب اسلامی کے خط کے بائیکاٹ پر مبنی ہے؛ جبکہ یہ خط خود بخود مغربی تہذیب ـ بالخصوصی امریکہ ـ کی اخباری کمپنیوں اور ابلاغیاتی چینلوں کے بہت سے حقائق کو عیاں کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نامه: از عصبانیت تا بایکوت!