اسرائیل کا ڈوبتا ہؤا ستارہ؛ 5

بدامنی؛ یہودی ریاست کی خون سے بندھی تقدیر

مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی مقاومتی کاروائیوں نے غاصب صہیونیوں کو تل ابیب کو ایک سال تک مسلسل بدامنی سے دوچار کئے رکھا اور اس بدامنی نے 75 سالہ تنازعے کے قواعد بدل ہی ڈالے؛ اور دہشت کا توازن (Balance of Terror) قائم کر دیا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

تل ابیب کی جعلی ریاست کو گذشت ایک سال کے دوران شدید بدامنیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بدامنیاں مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں مقاومتی کاروائیوں کا نتیجہ ہیں۔ یہ کاروائیاں سابقہ تمام بدامنیوں سے صہیونیوں کے لئے زیادہ تلخ اور مؤثر تھیں۔ ان کاروائیوں نے نوآباد یہودی بستیوں کے رہائشیوں کو صہیونی ریاست کی اندرونی کمزوریوں اور صہیونی افواج کی گہری بے بسی سے آشنا کیا۔ فلسطینی مجاہدین نے استشہادی کاروائیاں (Martyrdom Operations) کچھ اس طرح سے مختلف مواقع اور مقامات پر ترتیب دیں کہ عملی طور پر تل ابیب سیکیورٹی فورسز کے پاس حساب کتاب اور پیشین گوئی کے لئے نہ وقت ہوتا تھا اور نہ ہی طاقت۔
مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں گہری اور وسیع پیمانے پر بدامنی پورے ایک سال کے دوران، سابقہ برسوں کی طرح، صہیونی حکام کے دل اور ذہن پر سوار رہی؛ لیکن حالیہ چند مہینوں میں مقاومت کی کاروائیوں میں صہیونیوں کا جانی نقصان اس قدر بھاری رہا کہ جن کی وجہ سے صہیونی بستی نشینوں کو عملی طور پر سہ ماہی جہنم میں گرفتار ہونا پڑا۔ صہیونیوں کی بحرانی کیفیت صرف فلسطینیوں اور مقاومت کے مجاہدین کے لئے ہی قابل توجہ نہ تھی بلکہ عبرانی ذرائع ابلاغ سے لے کر صہیونی فوجیوں اور سرکاری حکام تک اپنی نازک صورت حال سے واقف ہو کر تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔ صہیونی ذرائع ابلاغ نے حالیہ مہینوں میں پیش آمدہ بدامنی کی کیفیت کو فلسطین میں استشہادی کاروائیوں کا تاریخی ریکارڈ قرار دیا۔
صہیونی آخبار ہاآرتص نے مقاومت کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں اور تل ابیب کو فلسطین کی مقاومتی تحریکوں کے انتباہ – جنہوں نے غاصب ریاست کو تاریک مستقبل کی وعید دی ہے – پر تبصرہ کرتے ہوئے غاصب ریاست کو خبردار کیا۔ ہاآرتص نے لکھا: مارچ 2022ع‍ میں فلسطینیوں کی استشہادی کاروائیاں کی تعداد ایک ریکارڈ ہے۔ کیونکہ صرف ایک مہینے میں 11 مجاہدین نے 16 استشہادی کاروائیاں کیں جن کے نتیجے میں 11 یہودی آبادکار ہلاک اور 32 زخمی ہوئے؛ چنانچہ یہ سنہ 2015ع‍ کی “چھری انتفاضہ” تحریک کے بعد شدید ترین کاروائیاں تھیں۔ اور ان کاروائیوں نے ایک بارے پھر عارضی صہیونی ریاست اور اس کی سیکورٹی ایجنسیوں کی بےبسی اور کمزوری کو ثابت کرکے دکھایا جو ان کاروائیوں کا سدباب نہ کرسکیں۔
ماہ مارچ (2022ع‍) سے استشہادی کاروائیوں میں شدت آئی؛ اس مہینے میں مقبوضہ فلسطین کے جنوبی علاقے “بئر السبع” مجاہدین نے چھریوں کے وار کرکے چار صہیونیوں کو ہلاک اور دو کو زخمی کر دیا۔ حماس اور اسلامی جہاد سمیت مقاومتی تنظیموں نے زور دے کر کہا کہ “بئر السبع” کی کاروائی نے ثابت کیا کہ فلسطینی عوام مسلمانوں کے قبلۂ اول اور ارض فلسطین کی جنگ کو جاری رکھیں گے”۔ حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ (حماس) کے ترجمان “عبد اللطیف القانوع” نے اس کاروائی کو سراہا اور کہا: “اسلامی مقاومت کی موجودہ حالیت سے واضح ہوتا ہے کہ فلسطینی قوم غاصب یہودی ریاست کے جرائم کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے 100 فیصد متحرک اور فعال ہے۔

“بئر السبع” کی مجاہدانہ کاروائی کا خون صاف کرتے ہوئے

یہ فعالانہ کیفیت مقبوضہ فلسطینی شہر حیفا کے جنوب میں دو فلسطینی مجاہدین کی کاروائی کے ساتھ جاری رہی۔ ذرائع نے بتایا کہ جنوبی حیفا میں ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں کئی صہیونی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ الجزیرہ نیوز چینل نے کہا کہ دو فلسطینی نوجوانوں نے فائرنگ کی اور جنوبی حیفا کے علاقے “الخضیرہ” میں گاڑی سے صہیونی فوجیوں کو کچل ڈالا اور المیادین کے مطابق ان دو کاروائیوں کے نتیجے میں کم از چھ افراد گولیوں کا نشانہ بنے ہیں جن میں سے چار کی حالت نازک ہے۔

جنوبی حیفا کے علاقے “الخضیرہ” کی کاروائی

جنوبی حیفا میں مقاومت کی کاروائی کے تین دن بعد مقبوضہ فلسطین میں، مشرقی تل ابیب کے علاقے بنی براک میں مقاومت کے مجاہدوں نے فائرنگ کرکے پانچ صہیونی غاصبیوں کو ہلاک اور تین کو زخمی کیا۔ صہیونی ذرائع کے مطابق، موٹر سائیکل پر سوار ایک کالاشنیکوف سے لیس نوجوان نے صہیونی آبادکاروں پر گولی چلا دی اور 5 صہیونی موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔

مشرقی تل ابیب کے علاقے بنی براک کی کاروائی

مقاومت کی بڑھتی کاروائیوں کے پیش نظر صہیونی فوج نے مزید نفری اور اسلحے کا مطالبہ کیا جبکہ فلسطینی مجاہدین کے عزم و ارادے میں ہر روز اضافہ ہو رہا تھا۔ ذرائع کے مطابق، بنی براک کی کاروائی کی اگلی رات صہیونیوں نے مغربی کنارے میں اپنی نفری میں اضافہ کیا۔ نفری اور اسلحے کی ہدایت صہیونی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف کے سربراہ آویو کوخاوی [یا کوچاوی] (Aviv Kochavi) نے “خطُّ التّماس” (Contact Line) میں تعینات کرنے کے لئے دی تھی۔
“خطُّ التّماس” ایک سیکورٹی منصوبے کی علامت ہے جو جعلی ریاست کی طرف سے “گرین لائن”، بیت المقدس اور پڑوسی علاقوں میں اپنی فوجی موجودگی پر مبنی ہے۔ یہ علاقہ یہودی آبادکاروں کے لئے تعمیر شدہ غیر قانونی بستیوں کے بلاک اور فلسطینیوں کے رہائشی علاقوں کے درمیان واقع ہے اور اس کا مقصد مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو صہیونی بستیوں میں داخلے سے روکنا ہے۔
صہیونی فوجی ذرائع کے مطابق اس علاقے میں چار نئی یونٹیں تعینات کی گئیں تاکہ فلسطینی مقاومت کے ممکنہ حملہ کا سد باب کیا جا سکے۔
لیکن فلسطینی مقاومت نے اس بار تل ابیب کے مرکز کو اپنی استشہادی کاروائی کے لئے منتخب کیا۔ صہیونی ذرائع کے مطابق مقبوضہ تل ابیب میں فائرنگ کے نتیجے میں 9 صہیونی زخمی ہوئے ہیں جن میں سے دو زخموں کی تاب نہ لا کر ہلاک ہوگئے۔ دوسری طرف سے صہیونی چینل-7 نے اعلان کیا کہ تل ابیب کے کئی علاقوں میں فائرنگ ہوئی ہے۔ کچھ صہیونی ذرائع نے تفصیل بتاتے ہوئے بتایا کہ ایک فلسطینی نوجوان نے ایک ریستوران پر گولی چلائی اور سات صہیونیوں کو زخمی کیا۔

تل ابیب کے رسٹورینٹ میں مجاہدانہ کاروائی

مقاومت کی استشہادی کاروائیاں جاری رہیں اور صہیونی حکام نے سخت رد عمل دکھانے کی دھمکی دی۔ صہیونی وزیراعظم نفتالی بینیٹ کا دعویٰ تھا کہ وہ مکمل طور پر تیار ہے! حالانکہ صہیونی ذرائع ہی کے مطابق تل ابیب کے ریستوران پر فائرنگ کا واقعہ اس نوعیت کا چوتھا اقدام تھا؛ جو 20 دن سے بھی کم عرصے میں انجام کو پہنچا تھا۔ حیرت زدگی، پریشانی اور خوف و ہراس کی کیفیت مقبوضہ فلسطین میں آ بسنے والے غاصب صہیونیوں پر طاری رہی۔ بعدازاں بین الاقوامی ذرائع نے بھی اس حقیقت کی تصدیق کر دی کہ فلسطینیوں کی جدید نوعیت کی استشہادی کاروائیوں نے پورے مقبوضہ فلسطین میں صہیونی اداروں سے تسدید قوت مکمل طور پر چھین لی ہے اور پوری غاصب مشینری خوف و ہراس میں مبتلا ہے۔ چار استشہادی کاروائیوں نے ثابت کیا کہ نوآبادکار یہودیوں نے بدامنی کو ہڈی پسلی سے محسوس کیا ہے۔
لبنانی اخبار “الاخبار” نے لکھا: “تل ابیب کی کاروائی کے ایک دن بعد یہودی ریاست دہشت زدہ اور زخم خوردہ نظر آئی، گویا وہ مزید مقاومتی کاروائیوں کے منتظر ہیں۔ نوآبادکار رفتہ رفتہ اپنے امن و سکون کا احساس اور صہیونی حکام پر اپنا اعتماد کھو رہے ہیں۔ تل ابیب کے سیکورٹی ادارے جواب دینے سے عاجز ہیں؛ جبکہ ادھر فلسطینی بڑی آسانی سے یہودی آبادیوں تک رسائی رکھتے ہیں اور صہیونیوں کو اس کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ کاروائیاں کرنے والے مجاہدین خواہ چند ہی نوجوان ہوں خواہ کئی گروہ، کسی کمانڈر سے احکامات وصول نہیں کرتے اور آج تل ابیب کی توجہ اسی مسئلے پر مرکوز ہے؛ کیونکہ وہ تنبیہی اقدامات – جو جعلی ریاست ماضی میں فلسطینیوں کے خلاف عمل میں لاتی تھی – ان کاروائیوں کا راستہ روکنے میں مؤثر نہیں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسشہادی کاروائیاں کرنے والے مجاہدین کا کوئی کمانڈ سینٹر نہیں ہے جسے کسی کاروائی کی صورت میں جوابدہ بنایا جا سکے۔
اگلی استشہادی کاروائی چند روز بعد تل ابیب کے قریب “العاد” کے علاقے میں ہوئی۔ عبرانی ذرائع کے مطابق اس کاروائی میں ایک فلسطینی نوجوان نے چھری کے وار کرکے چھ صہیونیوں کو زخمی کیا جبکہ عارضي ریاست کی ریڈیو سروس نے تین صہیونیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا۔ بعض ذرائع کے مطابق یہ حملہ چاپڑ (ساطور cleaver) کے ساتھ اور بعض دوسروں کے مطابق کلہاڑے کے ساتھ نجام پایا ہے۔

تل ابیب کے علاقے علاقے العاد کی کاروائی

العاد آپریشن کے بعد صہیونی پارلیمان (کنیسٹ) کے رکن “ایتمار بن جبیر” (Itamar Ben-Gvir) نے غزہ میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ “یحییٰ السنوار” کو ان کاروائیوں کا اصل سبب قرار دیا اور ان کی رہائشگاہ کو بمباری کا نشانہ بنانے کا مطالبہ کیا۔ عارضی صہیونی ریاست کی طرف سے السنوار پر دہشت گردانہ حملے کی دھمکی کے بعد حماس نے “خان یونس” ان کی رہائش گاہ کی طرف ایک ریلی کا اہتمام کیا۔ ادھر نہ صرف السنوار تک صہیونیوں کی رسائی ممکن نہ ہوئی بلکہ فلسطینی مقاومت نے جعلی ریاست کو خبردار کیا کہ مقاومت کے راہنماؤں کے خلاف کوئی بھی صہیونی اقدام جہنم کے دروازے صہیونی غاصبوں پر کھول دینے کے مترادف ہوگا۔
صہیونیوں کی ایک ناکام حکمت عملی غزہ اور جنین پر حملے کی تجویز سے عبارت تھی۔ صہیونی سیکورٹی حکام نے ایک اجلاس میں مقاومتی کاروائیوں سے نمٹننے کے لئے تجاویز پر غور کیا۔ صہیونی ذرائع کے مطابق، یہ بات چیت مقاومتی کاروائیوں کے تناسب سے، واضح حکمت عملی تک پہنچنے تک جاری رہے گی۔ ادھر صہیونیوں کے درمیان جنین اور غزہ پر جارحانہ اقدامات کا مطالبہ پایا جاتا ہے۔ ان رپورٹوں کے مطابق صہیونی سیکورٹی حکام سمجھتے ہیں کہ زیادہ تر مقاومتی کاروائیاں جنین شہر سے شروع ہوئی ہیں؛ لیکن وہ جانتے تھے کہ جنین پر حملے کی صورت میں انہيں مزید مقاومتی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، صہیونی سیکورٹی اداروں کو دوسرے علاقوں پر بھی حملہ کرنا پڑ سکتا ہے اور بالنتیجہ انہیں مزید مقاومتی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ نفتالی بینیٹ کو کہنا پڑا کہ “ہم فلسطینیوں سے لڑنا نہیں چاہتے اور اپنی صلاحیت کے مطابق انہیں جواب دیں گے”۔
ایک ہفتہ بعد صہیونی ذرائع نے فلسطینی مقاومتی مجاہدین کے ساتھ ایک جھڑپ میں مرتکز خصوصی یونٹ “یمام” (Yeḥida Merkazit Meyuḥedet [Yamam] = Centralized Special Unit) کے 47 سالہ افسر “نوعم راز” (Noam Raz) کی ہلاکت کی خبر نشر کر دی۔ صہیونی چینل 11 کی رپورٹ مطابق مذکورہ صہیونی افسر جنین کیمپ میں فلسطینی مقاومت کے ساتھ جھڑپ میں زخمی ہؤا تھا۔ اس شخص کی ہلاکت کی خبر آنے سے پہلے صہیونی فوجی انسپیکش ادارے نے اس کے زخمی ہونے کی خبر کی شائع کرنے کی اجازت دی تھی۔

جنین میں سینئر صہیونی افیسر کی ہلاکت

بعدازاں اسلامی جہاد تحریک سے وابستہ سرايا القدس (Al-Quds Brigades) نے اپنے بیان میں صہیونی فوج پر گھات لگا کر کئے جانے والے حملے کی تفصیل بتاتے ہوئے اعلان کیا کہ اس کے مجاہدین نے ایک صہیونی افسر کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کیا ہے۔ سرایا القدس نے اپنے بیان میں کہا تھا: “دشمن کی اسپیشل فورس کے سینکڑوں افراد پر مشتمل نفری نے آج صبح درجنوں فوجی گاڑیوں کے ذریعے – سرایا القدس کے مجاہد “محمود البدیعی” کی گرفتاری کی غرض سے – فضائی پشت پناہی میں، مغربی کنارے کے میں واقع جنین کیمپ کے نواح پر یلغار کردی۔۔۔”۔
فلسطینی مجاہدین کی مزاحمتی کارروائیوں اور ان کی طرف سے مقبوضہ فلسطین کی گہرائیوں تک کاروائیاں کرنے کی غرض سے مغربی کنارے کی حدود کو پار کرنے کے بعد، صہیونی فوج نے ایک نئی بریگیڈ تشکیل دی۔ “عکا” نیوز ویب گاہ کے مطابق یہ بریگیڈ مغربی کنارے سے دوسرے فلسطینی علاقوں میں فلسطینیوں کے داخلے اور صہیونیوں کے خلاف ان کی کاروائیوں کا سد باب کرنے کی غرض سے تشکیل پائی ہے۔
غاصب یہودی اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے اور باضابطہ اعداد و شمارے کے مطابق، اگلے 48 گھنٹوں میں فلسطینی مقاومت نے قدس شریف، دریائے اردن کے مغربی کنارے میں صہیونیوں کے خلاف 235 کارائیاں کر ڈالیں۔ فلسطینی انفارمیشن مرکز (معطی) نے فلسطینی مقاومت کی سرگرمیوں کے سلسلے میں اپنی میقاتی (periodic) رپورٹ میں صہیونیوں کے خلاف دو دنوں کے دوران 235 کاروائیاں ریکارڈ کی ہیں جن میں 22 غاصب اسرائیلی زخمی ہوئے ہیں؛ 12 کاروائیاں صہیونی غاصبوں کے ساتھ جھڑپوں اور فائرنگ کے تبادلے سے تعلق رکھتی ہیں، جن میں سب سے اہم جھڑپیں “جنین”، “بیت لحم”، “الخلیل” اور “نابلس” میں ہوئیں۔ مغربی کنارے کے مختلف اضلاع میں 39 مقامات پر گرینیڈ پھینکے گئے، 24 مقامات پر پیٹرول بموں سے حملے کئے گئے اور ان میں سے کئی حملوں میں صہیونیوں کی کئی فوجی اور پولیس گاڑیاں جل کر تباہ ہوئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منبع: http://fna.ir/1pg5gh

 

جاری