برطانیہ نے حماس کو دھشتگرد تنظیم گردان کر اس پر پابندی لگا دی/ برطانیہ کو فلسطینیوں سے اپنے تاریخی گناہ کی معافی مانگنا چاہیے: حماس

فلسطینی علاقے غزہ پر کنٹرول رکھنے والی عسکری و سیاسی تنظیم حماس کی مختلف عسکری سرگرمیوں کے تناظر میں برطانیہ نے اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔ جبکہ حماس نے برطانیہ کے اس اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔

فاران: فلسطین میں اسرائیلی تسلط کے خلاف سرگرم تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کو برطانیہ نے دہشت گرد تنظیم خیال کرتے ہوئے اس کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کا اعلان برطانوی وزیر داخلہ نے کیا۔ امریکا اور یورپی یونین پہلے ہی اس تنظیم پر پابندی عائد کیے ہوئے ہیں۔

فلسطینی علاقے غزہ پر کنٹرول رکھنے والی عسکری و سیاسی تنظیم حماس کی مختلف عسکری سرگرمیوں کے تناظر میں برطانیہ نے اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس تنظیم کو برطانوی دہشت گردانہ قانون کے تحت ممنوعہ تنظیم قرار دے دیا گیا ہے اور جلد ہی اس پر پابندی کے فیصلے کو حتمی اور قانونی شکل دینے کے لیے حکومت ملکی پارلیمنٹ سے رجوع کرنے والی ہے۔

خاتون وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’حماس واضح انداز میں دہشت گردانہ صلاحیتوں کی حامل ہے اور اس کی حساس ہتھیاروں کے وسیع ذخیرے تک رسائی بھی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا ’’کہ حماس کے پاس جدید ہتھیار رکھنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی تربیت دینے کی سہولیات بھی موجود ہیں۔‘‘

پٹیل کا مزید کہنا تھا کہ ان حقائق کی روشنی میں حماس پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس کا امکان ہے کہ وہ پابندی کو قانونی شکل دینے کا مسودہ اگلے ہفتے کے دوران ملکی پارلیمنٹ کے دارالعوام میں پیش کریں گی۔

یہ امر اہم ہے کہ اس مکمل پابندی سے قبل برطانیہ نے حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ پر کچھ سال قبل پابندی عائد کی تھی۔

یہ پابندی برطانوی دہشت گردی کے قانون کے تحت لگائی گئی ہے اور اب کوئی بھی شخص اس تنظیم کی کھلے عام یا ڈھکے چھپے انداز میں حمایت نہیں کر سکے گا۔ اس کے علاوہ حماس کا جھنڈا لہرانے کی بھی ممانعت ہو گی۔

اس پابندی کے تحت کوئی بھی فرد حماس کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی میٹنگ طلب یا اس کا انعقاد نہیں کر سکے گا۔ ایسے تمام عوامل کو ریاستی اعتماد شکنی کے زمرے میں لایا جائے گا۔ برطانوی وزارتِ داخلہ نے اس پابندی کی تصدیق کی ہے۔

دوسری جانب جمعہ کی شام اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے جماعت کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے برطانیہ کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔ حماس اس فیصلے کی مذمت کرنے اور اسے فلسطینی قوم اور ان کے ناقابل تنسیخ حقوق کے خلاف جارحیت کا تسلسل قرار دیا ہے۔

حماس نے ایک بیان میں کہا کہ بدقسمتی سے برطانیہ اپنے پرانے جرم پر قائم ہے۔ فلسطینی عوام کے خلاف اپنے تاریخی گناہ پر معافی مانگنے اور درست کرنے کے بجائے خواہ وہ منحوس بالفور اعلامیہ ہو، یا برطانوی مینڈیٹ (قبضہ) جس نے فلسطینی سرزمین کو اسرائیل کے حوالے کیا تھا۔ صیہونی تحریک مظلوموں کی قیمت پر جارحین کی حمایت کرتی ہے۔

حماس نے مزید کہا کہ مسلح مزاحمت سمیت تمام دستیاب ذرائع سے قابض دشمن کے خلاف مزاحمت کرنا بین الاقوامی قانون میں مظلوم لوگوں کا ایک حق ہے۔ مقامی آبادی کو قتل کرنا، انہیں زبردستی بے گھر کرنا، ان کے گھروں کو مسمار کرنا اور انہیں قید کرنا دہشت گردی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ  غزہ کی پٹی میں 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کا، جن میں زیادہ تر بچے ہیں کا 15 سال سے زائد عرصے سے محاصرہ دہشت گردی بلکہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا حصہ ہے۔