بھارت: ہندو مذہبی اجتماع میں مسلم نسل کشی کی کالوں سے بھارت میں غم و غصے کی لہر

ہندو مہاسبھا کی جنرل سکریٹری سادھوی اناپورنا عرف پوجا شکون پانڈے نے مسلمانوں کے اجتماعی قتل کی کال دی اور کہا: "ہتھیاروں کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے؛ اگر تم ان کی آبادی کو ختم کرنا چاہتے ہو تو انہیں قتل کر ڈالو؛ مارنے کے لئے تیار ہو جاؤ اور جیل جانے کے لئے تیار رہو۔ یہاں تک کہ اگر ہم میں سے 100 (ہندو) بھی ان (مسلمانوں) میں سے 20 لاکھ افراد کو مارنے کی تیاری کریں تو یہ بھی ہماری بڑی فتح ہوگی"۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: شمالی ہندوستان میں منعقدہ ایک ہندو مذہبی اجتماع میں مسلم نسل کشی کی کالوں نے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ آئی ہے اور ایک سابق فوجی سربراہ، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاستدانوں نے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
دائیں بازو کی ہندو تنظیمیں ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہریدوار میں ‘دھرم سنسد’ یا ‘مذہبی پارلیمنٹ’ کے نام سے ایک تقریب کے لیے اکٹھی ہوئیں، جہاں ہندو مہاسبھا کی جنرل سکریٹری سادھوی اناپورنا عرف پوجا شکون پانڈے نے عوام کو ایک کال دی: “مسلمانوں کا قتل عام”۔ اس پروگرام میں بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے بھی موجود تھے۔
پوجا شکون پانڈے نے کہا: “ہتھیاروں کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔ اگر تم ان کی آبادی کو ختم کرنا چاہتے ہو تو انہیں مار دو۔ مارنے کے لیے تیار ہو جاؤ اور جیل جانے کے لیے تیار رہو۔ یہاں تک کہ اگر ہم میں سے 100 لوگ (ہندو) بھی ان (مسلمانوں) میں سے 20 لاکھ (20 لاکھ) کو مارنے کے لیے تیار ہو جائیں، تب بھی ہماری فتح ہوگی”۔
ہندوستان کی سب سے بڑی سماجی مذہبی مسلم تنظیم جمعیت علمائے ہند کے سربراہ نے بی جی پی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ مسلم آبادی کے خلاف کھلے عام کال پر آنکھیں بند کر رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ فرقہ پرست عناصر منظم انداز میں منظم انداز سے نفرت انگیز تقاریر کرتے ہیں۔
دریں اثناء مولانا محمود مدنی نے ملک کے وزیر داخلہ، قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی)، اقلیتوں کی قومی کمیٹی، اور اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ کو خط لکھا، جہاں کے شہر “ہریدوار” میں اجتماع کا انعقاد کیا گیا تھا۔ انھوں نے مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
مولانا مدنی نے کہا: “انھوں نے ملک کے امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے؛ چنانچہ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ مذکورہ اجتماع کے منتظمین اور مقررین کے خلاف سخت کارروائی کی جائے”۔
سول سوسائٹی کو دھچکا
سماجی رابطوں کی ویب گاہوں پر مذہبی تقریب کے منظر عام پر آنے کے بعد، سرکردہ وکیل پرشانت بھوشن نے منتظمین اور شرکاء کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
“یہ دہشت انگیز واقعہ ہے! ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کنونشن میں اس قسم کی تقریریں کرنے والے سارے افراد کو سنگین جرائم کے الزام میں، تعزیرات ہند (Indian Penal Code) اور (Unlawful Activities Prevention Act [UAPA]) کے تحت، گرفتار کیا جائے۔ بھوشن نے ٹویٹر پر اپنے پیغام کے ضمن میں لکھا کہ اس معاملے سے نمٹنے کے لئے سپریم کورٹ کو واقعے کا ازخود نوٹس لینا چاہئے”۔
سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل وید ملک نے بھی اس مطالبے سے اتفاق کیا کہ مذکورہ اجتماع کے شرکاء اور منتظمین کے خلاف کاروائی ضروری ہے۔
جنرل ملک نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں لکھا: “ہم اس مطالبے سے اتفاق کرتے ہیں، کیونکہ اس طرح کی تقاریر عوامی ہم آہنگی کو متاثر کرتی ہیں اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچاتی ہیں”۔
حزب اختلاف کی جماعت “کانگریس” نے بھی اس تقریب اور اس میں ہونے والی اشتعال انگیزیوں پر رد عمل ظاہر کیا۔ جماعت کی ترجمان ڈاکٹر شمع محمد نے ٹویٹر پر لکھا: “منور فاروقی کو “مبینہ لطیفوں” پر سخت سزا دی گئی ہے جو انھوں نے سرے سے نہیں کہے تھے، ہریدوار میں مسلمانوں کے خلاف کھلے عام نسل کشی کا مطالبہ کرنے والے ’دھرم سنسد‘ کے ارکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے! تو کیا ہندوستان اب بھی ایک جمہوریت ہے؟
منور فاروقی ایک مسلمان اسٹیج کامیڈین ہیں جنہوں نے حال ہی میں کہہ دیا ہے کہ وہ ہندو دائیں بازو کی تنظیموں کے احتجاجات سے پیدا ہونے والے موجودہ حالات میں مزید کوئی پروگرام نہیں کرنا چاہیں گے۔ دو مہینوں کے عرصے میں فاروقی کے 12 پروگراموں کے اس بہانے منسوخ کردیا گیا ہے کہ ان پروگراموں کے دوران “تخریب کاری کی کاروائیوں کا خطرہ ہے”؛ کیونکہ ہندو انتہاپسندوں نے ان پر اپنے دیوتاؤں کا مذاق اڑانے کا الزام لگایا تھا۔
ادھر، ترنمول کانگریس پارٹی کے لیڈر ساکیت گوکھلے نے 17 سے 20 دسمبر تک منعقد ہونے والے مذہبی اجتماع کے منتظمین اور مقررین کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ اس تقریب کا اہتمام متنازعہ پيش گو یاتی نرسنگھنند گری نے کیا تھا۔ تین روزہ تقریب کی فوٹیج وائرل ہو گئی ہے، جس میں شرکاء مسلمانوں کے خلاف تشدد کا مطالبہ کر رہے تھے۔ کانفرنس کا ایک حصہ براہ راست نشر ہؤا تھا۔
ہندو مہاسبھا کی جنرل سکریٹری سادھوی اناپورنا عرف پوجا شکون پانڈے نے مسلمانوں کے اجتماعی قتل کی کال دی اور کہا: “ہتھیاروں کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے؛ اگر تم ان کی آبادی کو ختم کرنا چاہتے ہو تو انہیں قتل کر ڈالو؛ مارنے کے لئے تیار ہو جاؤ اور جیل جانے کے لئے تیار رہو۔ یہاں تک کہ اگر ہم میں سے 100 (ہندو) بھی ان (مسلمانوں) میں سے 20 لاکھ افراد کو مارنے کی تیاری کریں تو یہ بھی ہماری بڑی فتح ہوگی”۔
اتراکھنڈ پولیس سربراہ اشوک کمار نے کہا کہ وہ معاملے کی تحقیقات کریں گے اور قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔
پولیس نے مجرموں کے خلاف، معاشرے کے مختلف گروہوں کے درمیان بدامنی، دشمنی، یا نفرت کے جذبات کو فروغ دینے کے الزام میں، مقدمہ درج کرلیا ہے۔
………
بقلم: شوریہ نیازی