بھکاری داتا کی یمن پر مسلسل یلغار اور مذموم مثلث کی فتنہ انگیزی (۱)

یہی وہ مرحلہ تھا کہ عالمی سامراج نے ان بھکاریوں پر نظر ڈالی جنکا داتا و آقا وہ خود تھا جب اس نے یہ محسوس کیا کہ اسلامی بیداری کی لہروں کو پسپا کرنا اس کے بس میں نہیں ہے تو فکری اور مالی تعاون کے ذریعہ سعودی عرب اور ترکی کواسلامی دنیا کا داتا بنانے کے درپے ہوا۔

فاران؛ کچھ ہی سال قبل جب اسلامی ممالک میں بیدای کی لہر اٹھی تھی تو عالمی سیاسی منظر نامے سے باخبرہر فہیم انسان یہ سوچ رہا تھا کہ اس بیداری سے پیدا ہونے والی صورت حال ضرور ایک دن مسلمانوں کے درخشاں مستقبل کا مقدمہ بنے گی چونکہ بظاہراس وقت مسلم ممالک میں موجودہ بیداری کی لہر نے جہاں عالمی استکبار کی راتوں کی نیند یں حرام کر دی تھیں وہیں اس بات کے کھلے اشارے دے دئے تھے کہ اپنے تابناک ماضی کو تاریخ کے اہم موڑ پر مسلمانوں نے ایک درخشان مستقبل کی طرف موڑنے کا عزم پیہم کر لیا ہے اور اب مسلمان اقوام کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ قرآن کے آفاقی تعلیمات کی روشنی میں اپنی تقدیر خود اپنے ہاتھوں لکھ کر وہ ایک بار پھر تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن سکتے ہیں۔
اپنے بل پر کچھ کر گزرنے کا احساس ہی عالمی سامراج کے منھ پر زور دار طمانچہ سے کم نہیں تھا ہے لہذا سامراج اس بیداری کی لہر کو پوری طاقت کے ساتھ دبانے کی کوشش کر رہا تھا یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے سیاسی تجزیوں میں ساری توجہ اس بات پر مرکوز کر رکھی تھی کہ اس بیداری کے اصلی و واقعی محرک کو نظر انداز کرتے ہوئے اقتصای اسباب کی طرف موڑا جا سکے تاکہ یہ باور کرایا جائے کہ محض معیشت ہی وہ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ہا ہاکار مچی ہوئی ہے اس کا تعلق اسلام، دین، شریعت اور قرآن سے کچھ نہیں ہے۔
اسی لئے پیسوں اور اقتصادی اسکیموں کے بل پر انقلاب کے اٹھتے ہوئے شعلوں کو بجھانے کی ناکام کوشش میں اس قدر مصروف ہوا کہ اسے یہ بھی خبرنہ ہو سکی کہ جن آگ کے شعلوں سے وہ بچنا چاہتے ہیں وہ آگ اب خود اس کے گھر تک جا پہنچی چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے وال اسٹریٹ سے شروع ہو کر یورپین ممالک تک وہ سب کچھ جلنے کے دہانے پر پہنچ گیا جسے اس نے دوسری قوموں کے استحصال سے اکھٹا کیا تھا، اپنے مفادات پر اپنے ہی عوام کے ذریعہ کاری ضرب پڑتے دیکھ کر سامراجی ممالک کے ہوش اڑنے لگے ،اب یہ بات ایک الگ تجزیہ کا مطالبہ کرتی ہے کہ آخر وال اسٹریٹ سے اٹھنے والی تحریک کیوں کر خاموش ہو گئی اور یورپین مماملک کے احتجاجی مظاہروں کےاٹھتے شعلے کیوں کر خاکستر میں تبدیل ہو گئے؟ لیکن اتنا طے ہے کہ اسلامی بیداری کے راست اثرات اقوام و ملل کی بیداری پر پڑنے لگے تھے اوربعض یورپین ممالک میں ہمیں یہ نظر آیا کہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے اپنے اجتماع کے میدانوں کو بھی تحریر اسکوائر کا نام دے دیا اور کروڑوں ناظرین نے بارہا مختلف ذرائع ابلاغ سے یہ منظر دیکھا کہ آسٹریلیا میں لوگوں نے اپنے اجتماع کے مقام پر باقاعدہ تحریر اسکوائر لکھا ہوا ہے۔
امریکہ سے لیکر برطانیہ یونان و اسپین تک لوگوں کا ظلم کے خلاف احتجاج آواز دے رہا تھا:
” گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھر تھراتا ہے زمین آرزو و رنگ و بو
یہی وہ مرحلہ تھا کہ عالمی سامراج نے ان بھکاریوں پر نظر ڈالی جنکا داتا و آقا وہ خود تھا جب اس نے یہ محسوس کیا کہ اسلامی بیداری کی لہروں کو پسپا کرنا اس کے بس میں نہیں ہے تو فکری اور مالی تعاون کے ذریعہ سعودی عرب اور ترکی کواسلامی دنیا کا داتا بنانے کے درپے ہوا جس کے نتیجہ میں اسے اپنے بل پر تو نہیں لیکن مسلمانوں کی فکری بنیادوں کے ارتعاش اور ان کی بے بصیرتی سے ضرور اسے وقتی کامیابی ملی ترکی کے راستہ شام میں دہشت گردانہ کاروائیاں کر کے اسے اسلامی تحریک کا دوسرا نام دیا تاکہ اسلامی بیداری کو داغدار کیا جا سکے اور سعودی عرب کی جھولی میں اسلحوں کی بھیک ڈال کر اسے بزعم خویش داتا بنا دیا کہ وہ القاعدہ و داعش کو جس طرح چاہے تعاون دے، مصر اور لیبیا اور تیونس میں تو از قبل ہی اس نے اپنے گماشتوں کے ذریعہ اپنے اہداف پہلے ہی حاصل کر لئے تھے اگرچہ یہاں بھی اسے خاطر خواہ کامیابی اپنے بل پر نہ مل کر مسلمانوں کی نا عاقبت اندیشی سے ہی ملی تھی رہبر انقلاب اسلامی نے اخوان المسلمین کے قائدین و عمائدین اور مصر کے اس وقت کے قانونی و رسمی منتخب صدر کو بار بار ہدایات دیں کہ امریکہ اور اس کے حلیفوں کی لچھے دار باتوں میں نہ آکر قرآنی تعلمیات کی روشنی میں دشمن کو پہچانتے ہوئے آگے بڑھیں اور ہرگز ان کی باتوں پر کان نہ دھریں کہ یہ ان کے خیر خواہ نہیں یہ پشت سے خنجر گھونپنے کے پرانے عادی ہیں لیکن اقتدار کی چکاچوند نے ان کے ہوش و ہواس چھین لئیے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ آج اخوان المسلین کے زیادہ تر عمائدین جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور مرسی کو ٢٠ سال کی قید با مشقت کی سزا سنا کر استکبار نے واضح کر دیا ہے کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ….