تل ابیب میں کثیر النوع کاروائیاں اور اسرائیل کی ان دنوں کی کیفیت (1)

یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ آج سے چند ہی مہینے قبل صہیونی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ایران کے خلاف شیخی بگھارتے ہوئے ایران کو "ہزاروں خنجروں کے ذریعے موت" کا وعدہ دیا تھا لیکن اب معلوم ہو رہا ہے کہ صہیونی ریاست کو فلسطین کی گہرائیوں میں ایک ترکیبی جنگ (Hybrid Warfare) کا سامنا ہے

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مقبوضہ فلسطین میں حالیہ دنوں مختلف اور کثیر النوع شہادت پسندانہ کاروائیاں ہوئی ہیں جس سے صہیونی حکومت پر کافی خوف و ہراس طاری ہے؛ اس حوالے سے درج نکات قابل غور ہیں:
1۔ 29 سالہ کمپیوٹر انجنیئر رعد فتحی حازم نے گذشتہ جمعرات کو رات گئے تل ابیب میں شہادت پسندانہ کاروائی کرکے – ریڈیو اسرائیل کے مطابق – تین غاصب صہیونیوں کو ہلاک اور 15 کو زخمی کردیا۔ دیگر ذرائع نے ہلاک شدگان اور زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ اور زخمیوں کی حالت نازک بتائی ہے۔ نوجوان فلسطینی انجنیئر جنین کیمپ کے رہائشی تھے اور ان کے والد فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی افسر رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی مقاومت فلسطینی اتھارٹی کے اندر تک نفوذ کر گئی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے بہائی صدر محمود عباس نے اس کاروائی کی مذمت کی! گوکہ یہ اتھارٹی اس سے پہلے بھی تسلسل کے ساتھ فلسطین سے غداری برتتی رہی ہے اور یہ اتھارٹی فلسطینی مجاہدین کی سراغرسانی کے سلسلے میں غاصب صہیونی دشمن کے ساتھ تعاون کرتی ہے۔
2۔ مذکورہ کاروائی تل ابیب کے مرکزی شاہراہ دیزنگوف اسٹریٹ (Dizengoff Street) پر انجام پائی جس کے بعد غاصب یہودی فوج کی اسپیشل یونٹوں کو طلب کیا گیا۔ صہیونی وزیر اعظم کی ہدایت پر چوراہوں میں 100 مزید پولیس ناکے لگائے گئے ہیں۔ صہیونی ذرائع کے مطابق رعد فتحی حازم کاروائی کے مقام اور وقت کے ساتھ پوری طرح آشنا اور اسلحے کے استعمال کے ماہر تھے۔ صہیونی اخبارنویس لیلاخ شووال (Lilach Shoval) کہتا ہے: ہم کہاں پہنچے ہیں، [کیا حالت ہوئی ہے ہماری] کہ اب “سائیریت متکال” (Sayeret Matkal) کو تل ابیب کے مرکز میں طلب کیا گیا ہے؟! “سائیریت متکال” (Sayeret Matkal) [اسرائیلی] فوجی انٹیلی جنس کا اسپیشل سراغرساں [کمانڈوز] یونٹ ہے جسے عام طور پر سرحدی علاقوں میں تعینات کیا جاتا ہے اور اسے سرحد پار کاروائیوں کے لئے بھیجا جاتا ہے؛ اور اس یونٹ کو کمانڈوز کو تل ابیب میں کھینچ لانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی ریاست کا سیکورٹی ڈھانچہ گہرے بحران اور بے بسی کا شکار ہوچکا ہے۔ سائیریت متکال یونٹ وہی خصوصی یونٹ ہے جس نے 11 نومبر 2018ع‍ کو حماس کے اراکین کی اغوا کاری اور اس مقاومتی تنظم پر ضرب لگانے کے لئے غزہ کے علاقے خان یونس کے مشرق میں “تلوار کی دھار” نامی کاروائی کے عنوان سے دراندازی کی تھی، لیکن چونکہ اس کاروائی کا راز فاش ہوچکا تھا، چنانچہ فلسطینی مجاہدین اور اس یونٹ کے افراد کے درمیان شدید لڑائی چھڑ گئی، اور صہیونی کمانڈر سمیت کئی صہیونی کمانڈوز ہلاک ہوئے۔ اس واقعے کے بعد سائیریت متکال کے کمانڈر کو مستعفی ہونا پڑا اور اس وقت کے صہیونی وزیر جنگ اویگڈور لیبرمان (Avigdor Lieberman) نے اس ناکام کاروائی میں نمایاں صہیونی کمانڈر کی ہلاکت کو اپنے “دل میں تیر” سے تشبیہ دی تھی؛ اب یہ خصوصی یونٹ غزہ کی پٹی یا کسی پڑوسی ملک میں کاروائی کے بجائے تل ابیب کے قلب میں مقاومت اسلامی کے مجاہدین کی طوفانی کاروائیوں سے نمٹنے کے لئے طلب کی گئی ہے۔
3۔ دو ہفتوں کے کم عرصے میں تقریبا ایک جیسی چار کاروائیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چند لوگوں تک محدود جذباتی واقعہ نہیں بلکہ ایک منظم تحریک ہے جس کی بنیاد عوامی مزاحمت اور قابضین کے خلاف گوریلا کاروائی ہے۔ اسرائیل کو نہایت پیچیدہ نیٹ ورک نے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے جو اعلیٰ منصوبہ بندی اور عملدرآمد کی مہارت رکھتا ہے، پراعتماد اور پرعزم ہے، اور اس نے 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں آتشیں اسلحے تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ صہیونی تجزیہ نگار بن کاسپت (Ben Caspit) کا کہنا ہے کہ “حالیہ کاروائیوں نے ثابت کیا کہ حفاظتی دیوار (Retaining Wall) – جس سے ہماری نجات کی توقع کی جاتی تھی – بالکل بے فائدہ ہے”۔ بلا شبہہ فرسودہ کر دینے والی کاروائیاں صہیونی ریاست کے اندر “جعلی قوم” بنانے کے لئے جعل شدہ “افرادی گہرائی” کو پارہ پارہ کرتی ہے اور یہ صورت حال جعلی ریاست کو اب وسیع پیمانے پر صہیونیوں کے مقبوضہ فلسطین سے بھاگ کر اپنے آبائی ممالک واپسی جیسے خطرناک مسئلے سے دوچار کرے گی؛ جو خوشحال زندگی کے جھانسے میں آکر فلسطین کے غاصبین و قابضین کی صفوں میں شامل ہوئے تھے۔
4۔ فلسطینی مقاومت کی سلسلہ وار کاروائیاں، آتشین اسلحے کے استعمال میں اضافہ اور صہیونیوں کو جانی نقصان پہنچانے میں زبردست مہارت، سلامتی اور سیاسی لحاظ سے صہیونی ریاست کی شکست و ریخت کو نمایاں کرتی ہے۔ “مرکب سیکورٹی ضربیں” ایسے حال میں صہیونی ریاست کے فرسودہ جسم پر لگائی جا رہی ہیں کہ صہیونی ریاست کے سیاسی سرغنوں نے حالیہ دو برسوں کے دوران مختلف قسم کے سیاسی میلے منعقد کرکے یہ جتانے کی کوشش کی ہے کہ حالات بالکل معمول پر ہیں جیسے: “ابراہیم سمجھوتہ”، “نقب کا اجلاس” (جس میں بعض بِکے ہوئے عرب حکام بھی شریک ہوئے) و۔۔۔
صہیونی ریاست اپنے عدم جواز (Illegitimacy) کو نظرانداز کرتے ہوئے، ایسی حکومت سمجھی جاتی ہے جو اپنی بقاء کے لئے پولیس، فوج اور سیکورٹی اداروں سے وسیع پیمانے پر فائدہ اٹھاتی ہے، [کیونکہ بصورت دیگر، نیست و نابود ہو جائے گی]۔ غاصب اسرائیلی ریاست نے غصب اور قبضے کے 74 سالوں میں، [آخرکار فلسطینیوں سے بچنے اور انہیں محدود کرنے کی غرض سے] اپنے گرد ایک مکمل حفاظتی دیوار بھی تعمیر کر دی تھی جس کی وجہ سے مقبوضہ علاقے ایک بڑی “چھاؤنی-جیل” میں تبدیل ہو چکے تھے جس کی حدود میں بظاہر ہر نقل و حرکت پر کڑی نگرانی ہوتی ہے۔ اس بنیاد پر اسرائیلی ریاست کو ایک پینوپٹیکان (Panopticon) (یا دائرہ نما اور کھلا جیلخانہ) کہا جا سکتا ہے جس کا ابتدائی نمونہ اٹھارہویں صدی کے آخر میں برطانیہ میں تعمیر ہؤا تھا اور داروغہ اس جیلخانے میں تمام قیدیوں پر براہ راست نظر رکھ سکتا تھا۔
5۔ پچھلے چند ہفتوں کے دوران – صہیونیوں کی خصوصی حفاظتی تدابیر کے نفاذ باوجود، مختصر وقفوں سے اور ایک محدود جغرافیائی علاقے میں، کی سلسلہ وار کاروائیوں کی درستگی اور ہلاکت خیزی ماہر آپریشنل تنظیم کی تعینات اور سرگرم ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔ فوج اور پولیس پر منحصر سلامتی اور خوف و ہراس پر مبنی حکمرانی، ہمیشہ سے اسرائیلی ریاست کو برقرار رکھنے کا بنیادی سرمایہ تھی؛ لیکن آج صہیونیوں کی حکمرانی کے تحفظ کے لئے بُنے ہوئے مکڑی کے اس جالے کی تار ٹوٹ چکی ہے۔ تل ابیب، بیت المقدس، بئرالسبع، الخضیرہ وغیرہ میں غاصب صہیونیوں پر فلسطینی مقاومت کی کاری ضربیں ان میزائلوں سے ایک ہزار بار زیادہ تکلیف دہ ہیں جنہوں نے غزہ کی آخری جنگ میں آئرن ڈوم (آہنی گنبد) نامی صہیونی فضائی دفاعی نظام کو ناکارہ بنایا اور صہیونیوں کی آبادیوں کی گہرائیوں تک پہنچ گئی۔ اور ہاں! حالیہ ایک سال کے دوران چند تہوں پر مشتمل کاروائیوں کو بھی ان کاروائیوں کے زمرے میں شمار کریں تو معلوم ہوگا کہ صہیونیوں کے سیکورٹی اور سلامتی کی مشینری کا کوئی پرزہ صحیح و سالم نہیں رہا ہے اور غاصب صہیونی ریاست میں بھی کوئی ایسی جگہ نہیں بچی ہے جہاں فلسطینی مقاومت کے قدم نہ پہنچے ہوں۔
یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ آج سے چند ہی مہینے قبل صہیونی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ایران کے خلاف شیخی بگھارتے ہوئے ایران کو “ہزاروں خنجروں کے ذریعے موت” کا وعدہ دیا تھا لیکن اب معلوم ہو رہا ہے کہ صہیونی ریاست کو فلسطین کی گہرائیوں میں ایک ترکیبی جنگ (Hybrid Warfare) کا سامنا ہے اور یہ جو فلسطین میں چھوٹا یا بڑا تھپڑ وصول کرنے کے بعد ایران پر الزام تراشی کرتی نظری آتی ہے تو اس کا مقصد اپنی کمزوریاں چھپانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

 

۔۔۔جاری۔۔۔