جعلی صہیونی ریاست کی آخری سانسیں

اگر کسی وقت جعلی ریاست کو مقاومت کے خلاف ہر اقدام کا ایک جواب ملتا رہتا تھا، آج کی صورت حال یہ ہے کہ یہ ریاست زیادہ شدید حملوں کا نشانہ بنتی ہے اور صہیونیوں کی کمزوری کا سبب اس حکمت عملی کا نفاذ ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: شام پر عارضی صہیونی ریاست کے حالیہ حملے – پہلے سے زیادہ تواتر کے ساتھ انجام پائے ہیں – کئی اہداف و مقاصد کے حصول کے لئے انجام ہوئے ہیں۔ بنیادی طور پر صہیونی ریاست کافی عرصے سے شام پر غیرقانونی حملے کر رہی ہے، کیونکہ بین الاقوامی طور پر اس کی جارحیتوں پر کوئی ممانعت نہیں ہے اور نام نہاد بین الاقوامی تنظیم بنا “اقوام متحدہ” بھی ان حملوں پر خاموش ہے! چنانچہ صہیونیوں کی گستاخی میں اضافہ ہؤا ہے۔
لیکن اس جعلی ریاست کا مقصد یہ ہے کہ وہ طاقت کا موازنہ قائم نہ ہونے پائے۔ شامی بھی عرصے سے سوچ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے طیارہ شکن اور میزائل شکن نظامات سے استفادہ کرکے اپنے فضائی دفاعی نظام کو تقویت پہنچائے؛ اور ظاہر ہے کہ اگر شام میں “تین خُرداد” اور “باور 373” سمیت جدیدترین ایرانی فضائی دفاعی نظامات کی مدد سے ایک مربوظ فضائی دفاعی نظام قائم ہو جائے، تو صہیونی ریاست شام پر حملے کی جرئت نہیں کر سکے گی اور اس کی طرف سے اس طرح کے حملوں کی صلاحیت بھی ختم ہو کر رہ جائے گی؛ اور یوں صہیونیوں کی فضائی قوت نیز فضائی بالادستی ختم ہو کر رہ جائے گی اور وہ مزید اس طرح کے جارحانہ اقدامات نہیں کر سکے گی۔ چنانچہ طاقت کے توازن کے قائم ہونے اور اسرائیل کی فضائی قوت کے کمزور پڑ جانے کا سد باب کرنے کی خاطر، یہ زوال پذیر ریاست شام کے بعض علاقوں پر حملوں کی کوشش کرتی ہے، اور صہیونیوں کے موجودہ حملوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
البتہ صہیونی ریاست اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ شام میں تعینات ایرانی فوجی مشیروں کی شہادت اس کے لئے بہت زیادہ مہنگی پڑ سکتی ہے، چنانچہ وہ ان مراکز پر براہ راست حملوں سے اجتناب کرتی ہے جہاں ایرانی فوجی مشیر تعینات ہوتے ہیں؛ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے فوجیوں اور اس کے اتحادیوں کا کوئی بھی جانی نقصان جوابی اقدام کے بغیر نہیں رہتا؛ جیسا کہ ایران کے ایٹمی سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر محسن فخری زادہ کی شہادت کے چند ہی ماہ بعد ان ہی کے پائے کا صہیونی ایٹمی سائنسدان ایوی ہار ایوان (Aby Har Even) مقبوضہ سرزمین کے قلب میں، مارا گیا اور دو سال قبل نطنز میں واقع افزودگی مرکز میں تخریب کاری کے فورا بعد صہیونیوں کے میزائل بنانے کا سب سے بڑا مرکز – جو ایٹمی وار ہیڈ کی تنصیب کی صلاحیت رکھنے والے بیلیسٹک میزائل، وسیع پیمانے پر قتل عام کرنے والے ہتھیار اور سیٹلائٹ خلا میں لے جانے والے راکٹ بھی تیار کرتا تھا – عظیم دھماکے سے دوچار ہؤا؛ اور صہیونی ذرائع کی رپورٹ کے مطابق دور دراز کے علاقوں سے مذکورہ مرکز کے اوپر مشروم قسم کا دھؤاں نظر آیا۔
اس کے آٹھ گھنٹے بعد صہیونی ریاست کے میزائلوں کے لئے ٹھوس ایندھن تیار کرنے والا مرکز آتشزدگی اور دھماکے کا شکار ہؤا۔ ایران کے بحری جہازوں کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کی کاروائیوں کے نتیجے میں بھی ان کے جہآز بھی مختلف حادثات کا شکار ہوئے؛ گوکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ان میں سے کسی بھی کاروائی کی براہ راست ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، لیکن یہ اسرائیلیوں کا اعتراف ہے کہ جب بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے مفادات پر وار کیا گیا ہے ان کے مفادات پر اس سے کہیں بڑا وار کیا گیا ہے؛ یوں کہ معلوم نہیں ہے کہ شروع کرنے والا کون ہے، اور جوابی کاروائی کی نوعیت کیا ہے؟ کیونکہ اس وقت ہم اس قسم کے اقدامات کے دور سے گذر رہے ہیں، جن کی قیمت کا صہیونیوں کو بخوبی اندازہ ہے؛ جیسا کہ حالیہ چند دنوں میں مقبوضہ فلسطین کی حدود میں غاصب صہیونیوں کے خلاف متعدد کاروائیاں ہوئی ہیں اور یہ کاروائیاں جاری بھی رہیں گی۔
حقیقت مسلمہ یہ ہے کہ غاصب اسرائیلی ریاست اندرون خانہ بھی اور بیرونی تقابل کے حوالے سے بھی، بدترین اور کمزور ترین پوزیشن میں ہے؛ چنانچہ اسے محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کے مجاہدین کی طرف سے مسلسل کاروائیوں کا سامنا ہے؛ جیسا کہ سپاہ قدس محترم کمانڈر الحاج جنرل اسماعیل قاآنی کے قول کے مطابق، صہیونی غاصبوں کے خلاف، صرف مغربی کنارے میں، ہر ہفتے 50 کاروائیاں عمل میں لائی جا رہی ہیں اور یہ سلسلہ کئی مہینوں سے جاری ہے اور اگر غزہ اور مقبوضہ علاقوں میں ہونے والی کاروائیوں کو بھی ان کاروائیوں میں اضافہ کریں، تو بعض دنوں صہیونیوں کے خلاف ہر روز 10 سے زیادہ حملے ہو رہے ہیں۔
ادھر بنیامین نیتن یاہو کو اندرونی سطح پر بھی روزافزوں کمزوری، مختلف قسم کی کشیدگیوں اور وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہروں اور مخالفتوں کا سامنا ہے اور پھر صہیونی ریاست کی معاشی صورت حال بھی ماضی کے برعکس، ناگفتہ بہ اور اندرونی اور بیرونی سطوح پر ہمیشہ کی نسبت کہیں زیادہ کمزور اور زد پذیر ہے؛ اور پھر اس وقت صہیونی ریاست کا وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو ہے، جس کی عادت ہے کہ بیرونی دشمن کو بھوت بنا دے اور ایران کے ساتھ کشیدگی میں شدت لائے، اور یوں وہ اندرونی مخالفتوں، تنازعات اور ناکامیوں پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔
پورے دو عشروں سے، نیتن یاہو کو جب بھی انتخابی مسائل، سیاسی ناکامی یا اقتدار کھو جانے کے خطرے کا سامنا کرنا پڑا ہے اس نے ابتداء میں کلامی لحاظ سے اور پھر جزوی کاروائیوں کی شکل میں، زیادہ روی کا راستہ چنا ہے، تاکہ بیرونی دشمن کے خطر سے حد سے بڑا بنا کر پیش کر دے اور اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے اپنے اقتدار کو تحفظ دے۔ اور اب جبکہ وہ کمزور ترین پوزیشن میں ہے، ایک بار پھر اسی چال کو بروئے کار لانے کے لئے کوشاں ہے۔ تاہم نیتن یاہو بھی اور صہیونی ریاست کا صدر اسحاق ہرزوگ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اس طرح کی کاروائیاں ایک خاص موقع پر اور ایک محدود سطح پر، انجام پا سکتی ہیں، [جس کا جواب بھی اسی سطح کا ہوتا ہے] اور اگر ایک خاص سطح سے بڑھ جائیں تو اس کا انجام غیر متوقعہ اور یہودی ریاست کے لئے تباہ کن اور ہلاکت خیز ہوگا۔
یہودی ریاست جانتی ہے کہ ایران کسی بھی جنگ کا شروع کرنے والا ملک نہیں ہے، اور یہ ریاست اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف غیر محدود تو کیا، محدود جنگ لڑنے کی صلاحیت سے محروم ہے، وہ ایران کے ساتھ کسی بھی سطح کے تقابل سے شدیدا خوفزدہ ہے۔
چنانچہ یہودی ریاست – اور خاص کر نیتن یاہو – کی تمام تر بیان بازیوں، فضول گوئیوں، زبانی گستاخیوں اور مغالطہ کاریوں کا اصل مقصد ایک کلامی اور سطحی فوجی کشیدگی اور محدود ٹکراؤ تک پہنچ کر، اندرونی کمزوریوں اور کشیدگیوں پر پردہ ڈالنا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی زبردست سفارتی کامیابیوں، – بطور خاص سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی کم کرنے میں کامیابی – سعودی – صہیونی قربتیں بڑھنے کی رفتار کم ہونے پر منتج ہوئی ہے، چنانچہ صہیونیوں کی شر انگیزیوں کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ کشیدگیوں میں اضافہ کرکے، حالات کو بحران سے دوچار کر دے، تا کہ علاقائی سیاسی اور سفارتی ماحول، اسلامی جمہوریہ ایران، کے لئے تناؤ زدہ اور تنگ ہو جائے۔ ان دنوں ہم آذربائی جان کے حکمرانوں اور غاصب یہودی ریاست کے درمیان تعلقات کے حوالے سے بھی عجیب و غریب قسم کے اقدامات ہو رہے ہیں، جنہیں اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔
چنانچہ صہیونی ریاست متعدد وجوہات کی بنا پر اس قسم کے اقدامات کا سہارا لئے ہوئے ہے۔ البتہ، چونکہ شام تقریبا ایک عشرے سے 84 ممالک سے آئے ہوئے دہشت گردوں کے ساتھ جنگ میں الجھا ہؤا ہے، اور اس وقت بھی ہزاروں دہشت گرد اس ملک کے شمالی شہر “ادلب” میں اجتماع کئے ہوئے ہیں، اور اس ملک کو اس جنگ کے انتہائی ہولناک اقتصادی نتائج و اثرات کا سامنا ہے، چنانچہ ظاہر ہے کہ دمشق ایک نئی جنگ اور تنازعے کا خواہاں نہیں ہے، اور اسی بنا پر صہیونی ریاست شام کی فضاؤں میں دشمنی پر مبنی اقدامات کی ہمت کر رہی ہے، جبکہ لبنان اور حزب اللہ کے یہاں، وہ اس قسم کی ہمت نہیں رکھتی، اور یہ ریاست حزب اللہ کے ساتھ براہ راست تنازعے سے خوفزدہ ہے۔
بہرحال اسلامی جمہوریہ ایران کی مشاورتی امداد نیز ہارڈویئر اور سافٹ ویئر کے شعبوں میں ایرانی امداد، قطعی طور پر شام کے لئے ایک پرامن فضائی ڈھال فراہم کر سکتی ہے، اور اس امداد کی فراہمی جب بھی فراہم ہو جائے، شام اور مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں میں ایک فوجی توازن قائم ہو جائے گا لیکن اُس وقت تک، امر مسلّم ہے کہ اگر صہیونی ریاست کسی بھی سطح پر محور مقاومت – بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کے مفادات – کو نقصان پہنچائے تو اس کو اس سے کہیں بڑا جواب ملے گا۔ یہ ایک تزویراتی حکمت عملی ہے جو حال ہی میں نافذ العمل ہوئی ہے۔
اگر ماضی میں جعلی ریاست محور مقاومت کے خلاف جیسی بھی کاروائی کرتی تھی، اس کو اسی سطح پر جواب ملتا تھا، لیکن اب اس کو کہیں زیادہ بڑی اور شدید تر جوابی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور صہیونیوں کی روزافزوں کمزوری کا سبب بھی اس حکمت عملی کا نفاذ ہے، اور قطعی طور پر وقت گذرنے اور غاصب صہیونی ریاست کے کمزورتر ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران اور محور مقاومت کے حملوں کی شدت اور تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔ جس کا ایک مطلب یہ بنتا ہے کہ “جعلی صہیونی ریاست آخری سانسیں لے رہی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم ڈاکٹر سید مصطفیٰ خوش چشم، اسٹریٹجک اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار