حسین ع کے بچپن کا دوست حبیب ابن مظاہر اسدی

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: کہتے ہیں اللہ نے انسان کو رشتوں کے حصار میں اس لئے بھیجا ہے کہ دنیا میں پہنچ کر انسان خود کو اکیلا محسوس نہ کرے ہر رشتہ جس سے انسان منسلک ہے وہ خدا کا بنایا ہوا ہے ، انسان نہ اپنے بھائی کے انتخاب میں آزاد ہے نہ ماں […]

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: کہتے ہیں اللہ نے انسان کو رشتوں کے حصار میں اس لئے بھیجا ہے کہ دنیا میں پہنچ کر انسان خود کو اکیلا محسوس نہ کرے ہر رشتہ جس سے انسان منسلک ہے وہ خدا کا بنایا ہوا ہے ، انسان نہ اپنے بھائی کے انتخاب میں آزاد ہے نہ ماں باپ نہ بہن  نہ چچا  اور ماموں ہر ایک رشتہ کو ایک خونی ڈور سے خدا نے جوڑ دیا ہے جس میں انسان کا اپنا اختیار نہیں ہے ،ہاں وہ  خدا کے  بنائے رشتے کو خوبصورت ضرور بنا سکتا ہے ، دنیا میں بس ایک رشتہ ایسا ہے جسے اللہ نے انسان کے ہاتھ میں دیا ہے کہ اسے بناو گے بھی تم اور نبھاوگے بھی تم یہ ایسا رشتہ ہے جو خونی نہ ہوتے ہوئے بھی کہیں کہیں خون سے زیادہ کام آتا ہے یہ رشتہ وہ ہے  جو اگر صحیح رہ جائے اور اپنے کمال کو پہنچ جائے تو ہر رشتے کی بھرپائی کرتا ہے اس رشتہ کا نام دوستی ہے ، دوستی کا رشتہ ایسا رشتہ ہے جو وقت پڑنے پر ہر ایک رشتے کے خلا کو پورا کرتا ہے کہیں انسان کا دوست ضرورت کے وقت اسکے باپ کی جگہ کام آتا ہے کہیں جب محبت کی ضرورت ہو اور ماں کی محبت نہ ملے تو یہی رشتہ اسکی کمی پوری کرتا ہے تو کہیں بہترین بھائی بن جاتا ہے ، انسان جتنے خون جگر سے جتنی قربانیوں سے اس رشتے کو سینچتا ہے یہ رشتہ نکھر کر اتنا ہی خوبصورت انداز میں سامنے آتا ہے  کربلا میں یوں تو اصحاب امام حسین علیہ السلام میں بہت سے جانثاروں کا تذکرہ ہوتا ہے جنہوں نے اپنے وجود کو امام حسین پر قربان کر دیا لیکن ایک شخصیت کا انداز ہی الگ ہے اور وہ ہے حبیب ابن مظاہر کی شخصیت جنہیں حسین ابن علی ع کے دوست کے طور پر جانا جاتا ہے  حبیب کا امام حسین علیہ السلام کے نزدیک کیا مقام ہے اسے حبیب کے سلسلہ سے وارد ہونے والی زیات کے اور اس  کے انداز سے سمجھا جا سکتا ہے چاہے  پندرہ شعبان کے لئے مخصوص زیارتِ امام حسینؑ [1] ہو یا دیگرزیارت نامے[2] حبیب بن مظاہر کا ذکر ہر جگہ ہے نظر آتا ہے ۔حتی امام زمانہؑ سے منسوب زیارت ناحیہ میں حبیب کو ان الفاظ سے سلام کیا گیا ہے: “السلام علی حبيب بن مظاهر الاسدی[3]”۔ سلام ہو حبیب بن مظاہر اسدی پر۔

حبیب کا مختصر تعارف: 

حبیب بن مظاہر اسدی، مسلم ابن عوسجہ کی طرح کوفے کے رہنے والے اور قبیلۂ بنی اسد سے ہیں  آپ  حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[4] و امام علیؑ کے صحابیوں میں ہیں جس دوران امام علی علیہ السلام کی حکومت تھی اس وقت حبیب امام علی علیہ السلام کے ہمراہ رہے آپکو امام علی علیہ السلام کے خاص محرم اسرار اصحاب میں ہونے کا شرف حاصل ہے[5] ۔ آپ اہل کوفہ میں ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے  امیر شام  کی موت کے بعد امام حسینؑ کو خط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی [6]اور امام کو اگر بلایا تو آخر تک امام کے ساتھ رہے کوفہ کے سخت ترین حالات اور چوطرفہ نگرانی کے باوجود آپ نے خود کو امام حسین علیہ السلام تک پہنچا دیا [7]

۔ حبیب ایک پرہیز گار با تقوی اور حدود الہیہ کی رعایت کرنے والی ایسی شخصیت کے حامل تھے جس سے لوگوں نے خیر کے سوا کچھ نہ دیکھا،حافظ قرآن تھے، نمازی تھے  اور راہ خدا میں انفاق کرنے والے تھے گو کہ تمام تر ان صفا ت کو حبیب نے اپنے وجود کا حصہ بنا لیا تھا جو سید الشہداء میں پائی جاتی تھیں  کوشش کرتے اپنے آپ کو ویسا بنائیں جیسا حسین چاہتے ہیں ہر  شب عبادت و مناجات میں مصروف رہنا حبیب  کی وہ صفت ہے جسے دوست و دشمن نے بیان کیا ہے خود امام حسینؑ فرماتے ہیں کہ حبیب تم ہر  شب ایک ختم قرآن کیا کرتے تھے[8]۔ پاک و پاکیزہ اور سادہ زندگی گذارنے  پر یقین رکھتے اور زندگی کو ایسا ہی گزارا بالکل بے داغ  و صاف و شفاف ، دنیا سے  اس قدر بے رغبت کہ نہ کسی زرق برق سے متاثر ہوئے نہ کبھی حصول دنیا کی کوشش کی زاہدانہ زندگی کا عالم یہ کہ  جس قدر بھی انھیں مال و دولت اور امان ناموں کی پیشکش ہوئی، انھوں نے قبول نہ کی  اور کہا: “اگر ہمارے زندہ رہتے ہوئے سید الشہداء کو مظلومیت کی حالت میں شہید کر دیا جائے  تو رسول خداؐ کے حضور ہمارے پاس کوئی عذر نہ ہوگاہم رسول اللہ کو منھ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے[9]

امام علی سے عشق:

جب مولائے کائنات نے دار الخلافہ کو کوفے میں منتقل کیا تو حبیب مدینہ چھوڑ کر امیرالمؤمنینؑ کے ساتھ کوفہ چلے آئے اور آپؑ کے ساتھ  باغیوں سے جہاد میں مصروف ہوگئے  اور  نہ صرف آپؑ کے اصحاب خاص کے زمرے میں قرار پائے بلکہ  آپؑ کے علوم کے حاملین میں شمار ہوئے[10]۔امیر المومنین  ع نے انہیں علم منایا و بلایا عطا سکھیایا  شرطۃ الخمیس کے رکن خاص تھے اور شرطۃ الخمیس خطرات کی صورت میں فوری رد عمل کے لئے تشکیل یافتہ مسلح دستے  کا نام ہے جس میں امام علیؑ کے مخلص اور مطیع ساتھی شامل تھے[11]۔واقعۂ عاشورا سے برسوں قبل میثم تمار کا بنو اسد کی مجلس سے گذر ہوا تو دونوں نے ایک دوسرے کو شہادت کی بشارت اور شہادت کی کیفیت کی خبر دی اور اسی علم منایا کا نتیجہ تھا جو انھوں نے امیر المؤمنینؑ سے سیکھا تھا اور وہ دونوں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی خبر رکھتے تھے[12]۔

امیر شام کے واصل جہنم ہونے کے بعد  حبیب اور کوفہ کہ بعض شیعہ اکابرین و عمائدین ـ منجملہ سلیمان بن صُرَد، مسیب بن نَجَبَہ اور رفاعہ بن شداد بجلی نے بیعت یزید سے انکار کیا اور امام حسینؑ کو خط لکھا اور آپؑ سے حکومت کے خلاف قیام کی درخواست کرتے ہوئے آپ کو خط لکھا [13]ور اپنے عہد پر باقی رہتے ہوئے حبیب نے مسلم بن عقیل کوفہ آئے تو بھرپور نصرت کی ۔حبیب بن مظاہر اور مسلم بن عوسجہ خفیہ طور پر لوگوں سے مسلم کے لئے بیعت لینے والوں میں سر فہرست رہے [14]۔

جب ابن زیاد کوفہ آیا اور لوگوں پر دباؤ ڈالا تو اور جان و مال کے خوف سے لوگوں نے بیعت توڑ دی تو اس وقت بھی حبیب و مسلم اپنی بیعت پر قائم رہے اور  ابن زیاد کے سپاہیوں سے چھپتے چھپاتے  خفیہ طور پر کوفہ سے نکل گئےبالآخر وہ سات محرم الحرام کو کربلا میں امام حسینؑ کے قافلے سے آملے[15]۔

۔حبیب نے کربلا پہنچ کر  ایک بار امامؑ  پھر امام کی نسبت اپنی وفاداری میدان عمل میں ثابت کردی۔ جب دیکھا کہ امامؑ کے ساتھیوں کی تعداد بہت کم اور آپؑ کے دشمنوں کی تعداد کثیر ہے تو امامؑ سے عرض کیا: “قریب ہی قبیلۂ بنو اسد کا مسکن ہے؛ آپ اجازت دیں تو میں جاکر ان لوگوں کو آپ کی مدد کی دعوت دوں شاید خدا انہیں ہدایت دے”، امامؑ نے اجازت دی تو حبیب  تیزی کے ساتھ اپنے قبیلے میں پہنچے اور ان کو کو مولا کی نصرت کے لئے ابھارا لیکن عمر سعد نے ایک لشکر بھیج کر بنو اسد کو امامؑ کی طرف آنے سے روک لیا[16]۔

عصر تاسوعا یعنی روز عاشور سے ایک دن پہلے تک  حبیب بن مظاہر خیامِ امام پر حملے کا ارادہ رکھنے والی دشمن کی سپاہ پر نظر رکھے ہوئے امام حسینؑ اور آپؑ کے اصحاب کے اوصاف بیان کرتے رہے کہ دشمن حملہ نہ کر بیٹھے شب عاشورا نافع بن ہلال نے حبیب کو اصحاب کی وفاداری اوراستقامت کے سلسلے میں زینب بنت علی کی فکرمندی سے آگاہ کیا تو حبیب اور نافع مل کر اصحاب کی طرف گئے اور انہیں اکٹھا کرکے سب امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اعلان کیا کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک خاندان رسولؐ کی حمایت و حفاظت کریں گے۔

عاشورا کے دن امام حسینؑ نے اپنے مختصر سے  لشکر کے  میسرہ  پر حبیب بن مظاہر کو رکھا  اور میمنہ پر زہیر بن قین کو اور پرچم کے ساتھ  قلب  لشکر  کی قیادت حضرت عباس کو سونپ دی[17]۔

امام حسینؑ نے  جب لشکر یزید سے مخاطب ہوکر اپنا حسب و نسب بیان کیا اور اپنے فضائل گنواتے ہوئے رسول خداؐ کی حدیث هذان سيدا شباب اهل الجنة کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا “تمہارے درمیان ایسے لوگ ہیں جنہوں نے یہ حدیث رسول اللہؐ سے سنی ہے؛ شمر بن ذی الجوشن نے کہا: “اگر تمہاری بات میرے سمجھ میں آ جائے تو اسکا مطلب میں نے خدا کی عبادت شک کی حالت میں کی ہے  حبیب بن مظاہر نے فورا جواب دیا: اے شمر!تو ستر شکوک کے ساتھ خدا کی عبادت کرتا ہے  تو اسکی عبادت کرتا ہے جس پر تجھے یقین نہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ توسچ کہہ رہا ہے تیری سمجھ میں امام کی بات آ بھی نہیں سکتی کیوںکہ  تیرا دل سیاہ ہوچکا ہے اور اس پر مہر لگی ہوئی ہے[18]۔

ابو ثمامہ صیداوی نے جب امام حسینؑ کو وقت نماز کی یادآوری کرائی تو امامؑ نے فرمایا: ان سے کہو کہ جنگ روک لیں تاکہ ہم نماز ادا کریں۔ حصین بن نمیر نے کہا: تمہاری نماز قبول نہیں ہوگی  پڑھنے سے کیا فائدہ ۔ اس وقت  حبیب بن مظاہر ہی نے آگے بڑھ کر جواب دیا: تو سمجھتا ہے کہ آل رسولؐ کی نماز قبول نہیں ہوگی  اور  تیری نماز قبول ہوگی اے شراب خوار! اور اس پر حملہ کیا حصین گھوڑے سے گر گیا اور اشقیاء نے لپک کر اسے حبیب کے حملے سے نجات دلائی[19]۔

روز عاشورا حملوں کے دوران حبیب بن مظاہر کا رجز کچھ یوں تھا:

أنا حبيب و أبي مُظَهَّر

فارس هيجاء وحرب تسعر

وأنتم أعد عدة و أكثر

ونحن أوفی منكم و أصبر

میں حبیب ہوں اور میرے والد مُظَہَّر ہیں

میدان کارزار کا  میں شہسوار ہوں جب جنگ کے شعلے بھڑک جائیں

تمہیں عددی برتری حاصل ہے  تم زیادہ ہو       لیکن ہم تم سے زیادہ وفادار اور زیادہ صابر ہیں[20]

حبیب بن مظاہر، عمر رسیدہ ہونے کے باوجود شجاعت کے جوہر دکھاتے ہوئے شمشر زنی کر تے رہیں ۔ انھوں نے ۶۲ اشقیاء کو ہلاک کر ڈالا اور اسی اثناء میں بدیل بن مریم عقفانی نامی شقی نے ان پر حملہ کیا اور ان کی پیشانی کو تلوار کا نشانہ بنایا اور دوسرے تمیمی شخص نے نیزے سے حملہ کیا حتی کہ حبیب زین سے زمین پر آرہے، ان کی سفید داڑھی ان کے سر سے جاری خون سرخ ہوگئی اسی اثناء میں امام حسین علیہ السلام حبیب کے سرہانے پہنچے اور فرمایا: عندالله احتسب نفسي وحماة اصحابي۔ یعنی: میں اپنی اور اپنے حامی اصحاب کی جزاکی توقع خداوند متعال سے رکھتا ہوں[21]۔اور اس کے بعد مسلسل بار بار کہتے[22]  “إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔  امام حسینؑ نے حبیب سے مخاطب ہوکر فرمایا: “لله درك يا حبيب، لقد كنت فاضلا تختم القرآن في ليلة واحدة”۔،ترجمہ: مرحبا حبیب  تم ایک فاضل انسان تھے اور ہر شب ایک ختم قرآن کرتے تھے[23]

حواشی

[1]  ۔ مجلسی، بحار، ج45 ص71 و ج98 ص27۔

[2]  ۔ سید بن طاوس، اقبال الاعمال، ص229۔

[3]  ۔ اقبال الاعمال، ج 3، ص 78 و 343۔

[4]  ۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج 2، ص142۔

[5]  ۔ سماوی، ابصار العین فی انصار الحسین، ص127

[6]  ۔ مفید، الارشاد، ص378۔

[7]  ۔ سماوی، ابصار العین فی انصار الحسین، ص128۔

[8]  ۔ شیخ عباس قمی، نفس المہموم، ص124۔

[9]  ۔  محسن الامین، اعیان الشیعہ، ج4، ص553۔

[10]  ۔ سماوی، ابصار العین فی انصار الحسین، ص127۔، الحسین فی طریقہ الی الشہاده، ص6۔

[11]  ۔ شیخ مفید، الاختصاص، ص2 تا 7۔

[12]  ۔ سماوی، ابصار العین فی انصار الحسین، ص127۔

[13] ۔ مفید، الارشاد، ص378۔

[14]  ۔ محسن الامین، اعیان الشیعہ، ج4، ص554۔

[15] ۔ سماوی، ابصار العین فی انصار الحسین، ص128۔

[16] ۔ محسن الامین، اعیان الشیعہ، ج4، ص554۔

[17]  ۔ خوارزمی، مقتل الحسین ج2 ص7۔

[18] ۔ خوارزمی، مقتل الحسین ج2 ص7۔

[19]  ۔ شیخ عباس قمی، نفس المهموم، ص124۔

[20]  ۔ سماوی، ابصار العین فی انصار الحسین، ص133۔

[21]  ۔ طبری، تاريخ الامم و الملوک، ج5 ص439-440۔، خوارزمي، مقتل الحسين عليہ السلام، ج2، ص192۔، ابن اثیر، الکامل في التاريخ، ج2، ص567۔ ابن کثیر، البدايہ و النهايہ، ج8، ص198۔، بحار الانوار، ج45، ص27 ، البحرانی، عوالم العلوم، ج17، ص27۔،اعيان الشيعہ، ج1، ص206۔، ابو مخنف، وقعة الطف، ص230-2

[22]  ۔ مقتل الحسين مقرم، ص301

[23]  مقرم، مقتل الحسين، ص301۔ينابيع المودہ، ج3، ص71۔،سماوی، ابصارالعین فی انصارالحسین، ص127۔