خطبہ فدک کی روشنی میں (۳)

خطبہ فدک اور دشمن کے تدریجی نفوذ کی نشانیاں

پھر تمھیں خلافت حاصل کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ خلافت کے بدلے ہوئے ناقہ کے رام ہونے اور مہار تھامنے کا بھی تم نے مشکل سے انتظار کیا، پھر تم نے آتش فتنہ کو بھڑکایا اور اس کے شعلے پھیلانے شروع کر دیے اس طرح تم شیطان کی گمراہ کن پکار پر لبیک کہنے لگے تم دین کے روشن چراغوں کو بجھانے اور برگزیدہ نبیؐ کی تعلیمات سے چشم پوشی کرنے لگے۔۔۔

 فاران تجزیاتی ویب سائٹ: قرآن کریم و روایات کی روشنی میں کسے دشمن کہا گیا ہے اور اس کا کیونکر مقابلہ کیا جائے؟ یہ اپنی جگہ خود ایک مستقل موضوع ہے، فی الحال جس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے وہ یہ کہ دشمن کی شناخت کے بعد ہمارا سب سے ضروری قدم یہ ہونا چاہیے کہ جب ہم نے اسے پہچان لیا ہے تو ہرگز اسے نفوذ کا موقع نہ دیں اور اگر نفوذ کا موقع دیا گیا تو نتیجہ ہمارے سامنے ہوگا کہ وقت کا علی ع تنہا ہوگا فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا دروازہ جلایا جائے گا محسن کی شہادت ہوگی اور بات یہیں پہ ختم نہیں ہوگی بات کربلا تک پہنچے گی اور پھر کربلا کے بعد نہ جانے کتنی ہی ظلم کی داستانیں لکھی جائیں گی یہی وجہ ہے کہ بی بی دوعالم شہزادی کونین نے سخت و بحرانی ترین حالات میں ہمیں متوجہ کیا ہے کہ دشمن کے نفوذ کو روکنا ضروری ہے اسکا تدارک ضروری ہے ورنہ وہ ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر دے گا اور کوئی کچھ نہ کر سکے گا ، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے معروف خطبہ فدک میں انہیں باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
آپ فرماتی ہیں :
…”ثُمَّ لَمْ تَلْبَثُوا إِلَّا رَیثَ أَنْ تَسْکنَ نَفْرَتُهَا، وَ یسْلَسَ قِیادُهَا، ثُمَّ أَخَذْتُمْ تُورُونَ وَقْدَتَهَا، وَ تُهَیجُونَ جَمْرَتَهَا، وَ تَسْتَجِیبُونَ لِهُتَافِ الشَّیطَانِ الْغَوِی، وَ إِطْفَاءِ أَنْوَارِ الدِّینِ الْجَلِی، وَ إِهْمَادِ سُنَنِ النَّبِی الصَّفِی، تَشْرَبُونَ حَسْواً فِی ارْتِغَاءٍ، وَ تَمْشُونَ لِأَهْلِهِ وَ وُلْدِهِ فِی الْخَمْرَةُ وَ الضَّرَاءِ، وَ نَصْبِرُ مِنْکمْ عَلَى مِثْلِ حَزِّ الْمُدَى، وَ وَخْزِ السِّنَانِ فِی الْحَشَا،”
… پھر تمھیں خلافت حاصل کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ خلافت کے بدلے ہوئے ناقہ کے رام ہونے اور مہار تھامنے کا بھی تم نے مشکل سے انتظار کیا، پھر تم نے آتش فتنہ کو بھڑکایا اور اس کے شعلے پھیلانے شروع کر دیے اس طرح تم شیطان کی گمراہ کن پکار پر لبیک کہنے لگے تم دین کے روشن چراغوں کو بجھانے اور برگزیدہ نبیؐ کی تعلیمات سے چشم پوشی کرنے لگے، تم بالائی لینے کے بہانے پورے دودھ کو پی جاتے ہو اور رسول کی اولاد اور اہلبیت کے خلاف خفیہ چالیں چلتے ہو تمہاری طرف سے خنجر کے زخم اور نیزے کے وار کے باوجود ہم صبر سے کام لیں گے ۔{ہم تمہاری جانب سے دئے گئے زخموں پر ایسے صبر کریں گے جیسے کسی کو بڑے چاقو گود دیا ہو اور نیزے بدن میں دھنسا دئیے ہوں لیکن وہ بڑے مقصد کے پیش نظر صبر سے کام لیتا ہے }۔ (خطبہ فدک- کتاب الاحتجاج جلد 1/ شرح نھج البلاغہ جلد 12۔خطبہ فدک ص ۷۵ خطبہ فدک ،شیخ محسن علی نجفی ، ادارہ نشر معارف اسلامی ،لاہور ۔}
ان نورانی کلمات میں بی بی سلام اللہ علیہا نے واضح الفاظ میں اس بات کو بیان کیا ہے کہ کس طرح کچھ لوگوں نے خلافت پر قبضہ جما کر دین کے روشن چراغوں کو بجھانے کی کوشش کی اور اگر بصیرت فاطمی و علوی نہ ہوتی تو کس طرح وہ اپنے عزائم میں کامیاب ہو جاتے لیکن بی بی دو عالم نے جہاں رہتی دنیا تک اس دور کے دشمنان خدا کو رسوا کیا وہیں بتایا کہ اگر دین کا معاملہ ہو اور دشمن دین کی نابودی کے درپے ہو تو ایسی صورت میں بصیرت کا تقاضہ یہی ہے کہ خود زخم کھا لو لیکن دین کو زخمی نہ ہونے دو دشمن کی چالوں کو سمجھتے بھی رہو لیکن دین کی خاطر خاموشی اختیار کرو اور جب وقت آئے تو ہر چال کو ہر مکر کو برملا کرو اس لئے کہ جب دشمنی نظریاتی ہوتی ہے تو دشمن کا ہم و غم نظریہ پر چوٹ مارنا ہوتا ہے دشمن یہ چاہتا ہے کہ ہم اصولوں کا سودا کر لیں لیکن ہمارا کمال یہ ہونا چاہیے کہ دشمن چاہے جتنے حربے استعمال کر لے ہم اصولوں کا سودا نہ کریں اس لئے کہ یہ تو پرانی ریت ہے دنیا میں کوئی نظام ایسا نہیں ہے جسکا کوئی دشمن نہ ہو اور نہ ہی کوئی ایسی قوم ہے جس کے سب دوست ہوں، دوستی و دشمنی کی داستان ازل سے ہے ابد تک یہ سلسلہ رہنے والا ہے ، قرآن کریم نے بھی صراحت کے ساتھ اس بات کو بیان کیا ہے کہ ہمیشہ ایسے دشمن موجود رہیں گے جو اپنے مفادات کے خطرے میں پڑ جانے کی وجہ سے ہم سے چاہیں گے کہ ہم اپنے اصولوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں ، اپنے دین و آئین کا سودا کر لیں اپنی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیں ، اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ کس طرح ہم انکے مقابل ڈٹ جائیں اور سب کچھ لٹا کر بھی اپنی جان سے عزیز متاع یعنی اپنے دین کو محفوظ کر لیں۔
اسی لئے قرآن نے حقیقی دشمنی کو دین کی دشمنی کے طور پر بیان کیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
“إِنَّمَا يَنْهَاکُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوکُمْ فِي الدِّينِ وَ أَخْرَجُوکُمْ مِنْ دِيَارِکُمْ وَ ظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِکُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَ مَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ‌”
وہ تمہیں صرف ان لوگوں سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین میں جنگ کی ہے اور تمہیں وطن سے نکال باہر کیا ہے اور تمہارے نکالنے پر دشمنوں کی مدد کی ہے کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے گا وہ یقینا ظالم ہوگا۔ ( ممتحنہ ۹۔ ۱۰ )
اب اگر کوئی دین کا دشمن ہے تو ہرگز ایسے دشمن پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے اسلئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نظریاتی طور پر دین کے خلاف ہیں یہ کبھی ہماری بھلائی کے بارے میں نہیں سوچ سکتے اب عقلمندی یہی ہے کہ ایسے دشمنوں سے ہوشیار رہا جائے اور کوئی راز کی بات انہیں نہ بتائی جائے کہ یہ اس سے ناجائز فائدہ اٹھائیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِکُمْ لاَ يَأْلُونَکُمْ خَبَالاً وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَ مَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَکْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَکُمُ الْآيَاتِ إِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُون
اے ایمان والو خبردار غیروں کو اپنا راز دار نہ بنانا یہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہ کریں گے یہ صرف تمہاری مشقت و مصیبت کے خواہش مند ہیں- ان کی عداوت زبان سے بھی ظاہر ہے اور جو دل میں چھپا رکھا ہے وہ تو بہت زیادہ ہے. ہم نے تمہارے لئے نشانیوں کو واضح کرکے بیان کردیا ہے ۔ سورہ آل عمران ۱۱۸
یہ وہ لوگ ہیں جنکے بارے میں قرآن آواز دے رہا ہے کہ یہ تمہاری بے بصیرتی ہے کہ تم انہیں اپنا سمجھ رہے ہو لیکن یہ تو موقع کی تلاش میں ہیں یہ ہرگز تمہیں اپنا دوست نہیں سمجھتے ہیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
هَا أَنْتُمْ أُولاَءِ تُحِبُّونَهُمْ وَ لاَ يُحِبُّونَکُمْ وَ تُؤْمِنُونَ بِالْکِتَابِ کُلِّهِ وَ إِذَا لَقُوکُمْ قَالُوا آمَنَّا وَ إِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْکُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِکُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِخبردار… تم ان سے دوستی کرتے ہو اور یہ تم سے دوستی نہیں کرتے ہیں- تم تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور یہ جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب اکیلے ہوتے ہیں تو غّصہ سے انگلیاں کاٹتے ہیں- پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ تم اسی غّصہ میں مرجاؤ. خدا سب کے دل کے حالات سے خوب باخبر ہے ( ۱۱۹۔ ۱۲۰ ایضا)
قرآن کریم نے جہاں دشمن سے ہوشیار رہنے کی بات کی وہیں ہم دیکھتے ہیں بعض لوگوں نے انکی چال میں آکر ان پر اعتماد کیا جسکا نتیجہ عالم اسلام آج تک بھگت رہا ہے۔