خطے میں امریکیوں کی ایک اور پسپائی
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: الاخبار کے مطابق، یمن امریکہ اور سعودی عرب کے مشترکہ تزویراتی مفادات اور نظریات کا ایک اہم سنگم ہے۔ لیکن چھ برسوں سے جاری سعودی جارحیت کے نتیجے میں نہ تو “یمن کی انصار اللہ کی شکست” کا ہدف حاصل ہوسکا ہے اور نہ ہی بھاگے ہوئے مستعفی صدر عبد ربہ منصور ہادی کی نام نہاد “قانونی حکومت کا استحکام” ممکن ہوسکا ہے اور وہ یمن کے صدارتی محل میں واپسی کے بجائے اب تک ریاض کے کسی گمنام ہوٹل میں قیام پذیر ہے۔ جبکہ اس جنگ کے دو اعلانیہ مقاصد یہی تھے؛ یہی نہیں بلکہ اس جنگ نے خطے میں ایک نئی سیاسی-فوجی-اقتصادی حقیقت کو جنم دینے کے ساتھ ساتھ ان دونوں تاریخی اتحادیوں کے درمیان بہت سے تضادات بھی پیدا کئے ہیں۔
جنگ کی مارب کے محاذ پر منتقلی اور صنعا کی افواج کی اس صوبے کے مرکز کے قریب تک پہنچنے کی بنا پر سعودی عرب کو اب بھی توقع ہے کہ امریکہ اس کی مدد کو آئے گا اور انہیں ہرگز یہ توقع نہیں ہے کہ واشنگٹن مختلف موقف اختیار کرے گا۔ [لیکن سعودیوں کو اب مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے]۔
مشرق وسطی کے امور میں سابق امریکی نائب وزیر خارجہ ڈیوڈ شنکر نے حال ہی اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ بہر صورت امریکی صدر جو بائیڈن – خواہ معزول صدر عبد ربہ کی فوجی امداد کے ذریعے خواہ یمن میں فوجی مداخلت کے ذریعے – حوثیوں کی مکمل فتح کا راستہ روکنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
لبنانی روزنامے الاخبار کے مطابق، یمن پر جارحیت اور اس کے بعد سامنے آنے والے حقائق نے سعودی عرب کی سرحدوں کی حفاظت اور اس کی سرزمین کو میزائل حملوں سے بچانے کے سلسلے میں ایک جامع معاہدے پر دستخطوں کی سعودی خواہش کو بھی کم کر دیا ہے۔
لبنانی اخبار الاخبار نے لکھا کہ امریکی نائب وزیر خارجہ برائے مشرق قریب، نے واشنگٹن میں خلیج فارس کی ریاستوں کے سفارتکاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: اس وقت کوئی بھی چیز یمن کی انصار اللہ پر اثر انداز نہیں ہورہی ہے، حتی کہ دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج ہونے کے بعد بھی وہ اپنا موقف بدلنے کے لئے تیار نہیں ہوئی ہے؛ چنانچہ سعودی عرب کو یمن سے پسپا ہونا چاہئے۔
جودی ہود (Judy Hood) کا کہنا تھا کہ اگرچہ یمن میں سعودی کاروائیوں کا خاتمہ اور یمن سے سعودیوں کا انخلاء، جنگ کے خاتمے میں مدد دے گا اور اس کے باوجود کہ اس تجویز کو قبول کرنا دشوار ہے مگر ہمارا [امریکہ کا] خیال ہے کہ یہی اقدام صحیح ہے۔ اب جو انصار اللہ پسپا نہیں ہورہی تو سعودی عرب جنگ کے خاتمے کا انتظام کرے۔
لبنانی روزنامے الاخبار کے رپورٹ “حمزہ الخنساء” نے یمن پر امریکہ اور سعودی عرب کے اختلافات کے سلسلے میں لکھا ہے کہ امریکہ یمن کی جنگ کے خاتمے کے لئے سعودی عرب پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔
حمزہ کے مقابق، موصولہ اطلاعات کے مطابق یہ موضوع قابل فہم ہے کہ امریکہ سعودی عرب کو جنگ یمن کے خاتمے کی ترغیب دلانے میں مصروف ہے اور اسے توقع ہے کہ تیسرا فریق انصار اللہ کے قائل کرے تاکہ یمن کی جنگ میں امریکی اور سعودی اہداف بھی حاصل ہوسکیں! یہ سلسلہ بغداد میں ایران-سعودی مذاکرات کی صورت میں بھی اور ویانا میں جوہری مذآکرات کی صورت میں بھی جاری ہے۔ [اور تیسرے فریق سے مراد غالبا “ایران” ہے]۔
حمزہ الخنساء کے مطابق، 4 جون 2021ع کو امریکی نائب وزیر خارجہ جودی ہود اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں کے سفارتکاروں کی ملاقات کے سلسلے میں موصولہ دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ جودی ہود نے عرب سفارتکاروں سے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ اس وقت کوئی بھی چیز انصار اللہ پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ امریکہ نے انصار اللہ کے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کردیا مگر اس سے ان کے موقف پر کوئی اثر نہیں پڑا، ایران کی طرف سے بھی کسی اقدام کے نتیجے میں انصار اللہ کی پسپائی کا امکان بہت کمزور ہے۔ ہود نے مزید کہا: اگرچہ جنگ کا خاتمہ ان حالات میں، بہت دشوار ہے لیکن یمن میں سعودی کاروائیوں کا خاتمہ جنگ کے جلد از جلد خاتمے میں مؤثر ہوگا۔
ایک دوسری دستاویز کے مطابق – جس کا تعلق مورخہ 21 فروری 2021ع سے ہے – میں امریکی وزارت خارجہ کے یمن آفس کی سربراہ ٹیرز پاسٹل (Therese Postel) نے، یمن کے لئے امریکی ایلچی لینڈر کنگ کے ساتھ یمن کا دورہ کرنے کے بعد، انکشاف کیا ہے کہ “سعودی عرب یمن سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے لیکن اس کے اچانک انخلاء کے عوض ریاض کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی؛ انصار اللہ کی پیشقدمی جاری ہے اور قطر، ترکی اور امارات جیسے ممالک اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لئے میدان میں آ سکتے ہیں جس سے یمن کا بحران مزید طویل ہوسکتا ہے۔
پاسٹل نے کہا: امریکہ نے انصار اللہ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کردیا ہے چنانچہ امریکی انتظامیہ انصار اللہ کی مسلسل پیشقدمی سے ناراض ہے اور اسی وجہ سے واشنگٹن انصار اللہ کی عسکری شخصیات پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے لئے کوشاں ہے۔
الاخبار کے مطابق، گوکہ ہود اور پاسٹل کے خیالات میں تضاد پایا جاتا ہے لیکن وہ دونوں سعودی عرب کو یمن کی دلدل سے نکلنے کی ترغیب دلانے میں متفق نظر آتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، شاید یہ بات اس مسئلے کی تائید کرے کہ پاسٹل کے اظہار خیال کے چند ہی روز بعد (مورخہ 26 فروری 2021ع کو)، وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل میں خلیج فارس کے امور کے ڈائریکٹر کینتھ ایوانز نے خلیج فارس کی عرب ریاستوں کے سفارتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “یمن میں جنگ کے خاتمے کا ایک موقع ہے، اگرچہ یہ آسان نہيں ہے”۔ انھوں نے لینڈر کنگ نے حالیہ دورہ ریاض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ “ان کا خیال ہے کہ سعودی عرب جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے اور حوثیین بھی شاید جنگ کے خاتمے کے لئے تیار ہوں ان شرطوں پر کہ صنعاء کے ہوائی اڈے اور حدیدہ بندر گاہ کو کھول دیا جائے، یمن کے مالی وسائل کو ہادی حکومت اور صنعاء میں قائم انصار اللہ کی حکومت کے درمیان تقسیم کیا جائے”۔ دوسری طرف سے ایوانز کا کہنا ہے کہ “اگر ایران جوہری مذاکرات میں واپس آنے پر رضامند ہوتا ہے تو وہ حوثیوں پر پرسکون ہونے کے لئے دباؤ ڈال سکتا ہے لیکن چونکہ انصار اللہ کو یقین ہے کہ وہ مارب کے معرکے میں فتح پائیں گے لہذا وہ ہرگز بھی کوئی امتیاز دینے کے لئے تیار نہ ہونگے”۔
ایوانز نے ایک ایسا حوالہ دیا – جو یمن میں امریکی-سعودی اختلافات کے بہت سے پہلؤوں کو واضح کرسکتا ہے، – اور کہا: امریکی ایلچی لینڈر کنگ کا مشن – جنگ کے خاتمے اور سیاسی بات چیت کے لئے راستہ ہموار کرنے کے لئے – اقوام متحدہ کے [سابق] ایلچی مارٹن گریفیتس کی کوششوں کی حمایت کرنا ہے چنانچہ “ہم کسی نئے نظریئے کے درپے نہیں ہیں”؛ نیز ایوانز نے کہا کہ “ان کا ملک [امریکہ] ریاض پر دباؤ ڈالے گا کہ جنوبی یمن کی حمایت کرے کیونکہ جنوبی یمن کا استحکام خلیج فارس کے ممالک کے لئے مفید ہوگا”۔ اور ان کا خیال ہے کہ “جنوبی یمن کی حمایت کے لئے وسائل کی فراہمی کے لئے سعودی سٹیٹ بینک اور اس ملک کے سرکاری شعبوں پر انحصار کیا جاسکتا ہے”۔ نیز ایوانز نے سعودی عرب کے فضائی دفاعی نظامات کی طرف اشارہ کیا تھا جو سعودیوں نے 2019 میں میزائل حملوں سے نمٹنے کے لئے یورپی ممالک سے مانگے تھے اور کہا کہ سعودی عرب پر جاری حملوں کے ہوتے ہوئے اس مسئلے کو آگے بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
تبصرہ کریں