خطبہ فدک کی روشنی میں (۲)

دشمن اور مخالف میں فرق

ہمیں ہر ایک سے دشمنی بھی مول لینے کی ضرورت نہیں ہے دشمنی انہیں سے مول لینا ہے جو ہمارے دین کے مخالف ہوں یا ہمیں تباہ و برباد کرنے دینے پر تلے ہوں اب ایسے میں سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ حقیقت میں دشمن ہوتا کون ہے تاکہ اس کے معنی کے روشنی میں ہم اس کی تطبیق اس طرح کر سکیں جو حقیقت مبنی ہو۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: تجہر فکر و نظریئے کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے مقابل قرار پانے والے افراد اگر اس سے متفق نہیں ہوتے تو دو طرح کے رد عمل کو پیش کرتے ہیں:
یا تو اس نظریئے کے واضح طور پر مخالف ہوتے ہیں اور سر عام اس کی مخالفت کا اعلان کرتے ہیں اور اسے تسلیم نہیں کرتے اگر یہ تسلیم نہ کرنا محض اس لئے ہو کہ انہیں نظریئے میں کچھ لوچ نظر آتی ہے اور ان کے لئے یہ نظریہ واضح دلیلوں کے بنیاد پر قابل قبول نہیں ہوتا اور ان کی مخالفت مبنایی اور اصولی ہوتی ہے تو اسے مخالف کہا جاتا ہے لیکن جب یہی مخالفت بغیر کسی مبنیٰ کے عناد کی بنیا د پر ہو تو اسے دشمن سے تعبیر کیا جاتا ہے مخالفت کا بالکل واضح و آشکار ہونا واضح دشمنی کی دلیل ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان عناد بھی رکھتا ہے اور مخالف بھی ہوتا ہے مخالفت بھی کوئی مبنائی نہیں ہوتی بےمبنیٰ مخالفت اسے عناد کی آگ میں جلاتی ہے اور وہ اسے دل میں رکھتا ہے اپنے اہداف و مقاصد تک پہنچنے کے لئے نفاق کا سہارا لیتا ہے اس کا سارا ہم و غم یہ رہتا ہے کہ ابھی حالات سازگار نہیں ہیں جیسے ہی سازگار ہوں گے ہم اپنا کام کرلیں گے لہذا ایسے مخالفین کبھی کھل کر میدان میں نہیں آتے پس پردہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں انہیں کو پوشیدہ دشمن کہا جاتا ہے یہ دشمن واضح اور آشکار دشمن سے بہت خطرناک ہوتا ہے اتنا خطرناک کہ آستین تک در آتا ہے اور جب باہر نکلتا ہے تو آستین سے سرسرا کر کسی دوسری کی آستین میں پہنچ جاتا ہے جبکہ صاحب آستین کا کام تمام ہو چکا ہوتا ہے لہذا ضروری ہے ہم دشمن کو پہچانیں تاکہ نہ سامنے سے حملہ کرنے والے کو موقع دیں نہ چھپ کر حملہ کرنے والے کو حملہ کرنے کی فرصت نصیب ہو سکے۔

دشمن شناسی کا پہلا مرحلہ:
دشمن شناسی کے پہلے مرحلے میں ضروری ہے کہ انسان اپنے فکری خطوط کو معین کرے اپنے ہدف کی تعیین کرے اپنے اقدار واغراض کو پہچانے اور دوست و دشمن کا ایک جامع معیار بنائے تاکہ اس کے مطابق دوست و دشمن میں تمیز کر سکے اور اس سلسلے میں وہم و مغالطہ کا شکار نہ ہو لہذا ایسی تعریف ضروری ہے جو تمام افراد پر مشتمل ہو اور جو دشمن نہ ہو اس میں شامل نہ ہو، علماء کے بقول جامع و مانع ہو۔ جب دشمن کی بات آتی ہے اور ہم اس کی تعریف تلاش کرتے ہیں تو ہمیں مشکل کا سامنا یقینی ہے اس لئے کہ اگر ملاک و معیار ہماری دنیا بن گئی یا دنیا کی کوئی بھی ایسی چیز جس کا حصول ہمارا مقصد ہے تو جو بھی اس کے لئے رکاوٹ ہوگا وہ ہمارا دشمن ٹہرے گا جبکہ واضح سی بات ہے دشمنی کا یہ معیار ثابت نہیں ہے اور دنیا کے مفادات کے ساتھ بدلتا رہے گا ایسے میں ممکن ہے دنیا کے حصول میں ہم آنکھ کان بند کر کے لگ جائیں اور آخرت کو بھلا دیں اور ہمارا کوئی دوست دنیا طلبی کی راہ میں ہمارا مانع ہو تو وہ ہماری نظر میں دشمن بن جائے، جبکہ حقیقت میں دیکھا جائے تو وہ ہمارا دشمن ہرگز نہیں بلکہ ہمارا بہی خواہ ہے اور قرآن نے بھی ہر ایک کو دشمن نہیں کہا ہے بلکہ قرآن نے تو ان لوگوں سے رابطہ کو ہرگزممنوع قرار نہیں دیا ہے دین کے سلسلہ سے ہماری مخالفت نہیں کرتے ہیں ارشاد ہوتا ہے ” لا يَنْهَاكُمُ اللّـٰهُ عَنِ الَّـذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِى الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَـرُّوْهُـمْ وَتُقْسِطُوٓا اِلَيْـهِـمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ
“اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑتے اور نہ انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اس بات سے کہ تم ان سے بھلائی کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اسکا مطلب ہے ہمیں ہر ایک سے دشمنی بھی مول لینے کی ضرورت نہیں ہے دشمنی انہیں سے مول لینا ہے جو ہمارے دین کے مخالف ہوں یا ہمیں تباہ و برباد کرنے دینے پر تلے ہوں اب ایسے میں سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ حقیقت میں دشمن ہوتا کون ہے تاکہ اس کے معنی کے روشنی میں ہم اس کی تطبیق اس طرح کر سکیں جو حقیقت مبنی ہو۔

دشمن کے لغوی و اصطلاحی معنی:
عدو، مادہ عدو، عداء سے تجاوز کرنے کے معنی میں ہے العدو وھو التعدی فی الامر وتجاوز ما ینبغی لہ ان یقتصر علیہ العداوۃ، العین، کلیل بن احمد فراہیدی، ج2، ص313، لسان العرب، ج15، ص33، مجمع البحرین، ج1، ص283، معجم مقاییس اللغۃ ج4، ص249۔ اسی لئے دشمنی کو اعدی علیہ، یعنی اس پر تجاوز کیا کے طور پر پیش کیا گیا (ایضا مزید تفصِل کے لئے ملاحظہ ہو دشمن شناسی، ص11، علی شیرازی، موسسہ فرہنگی خادم الرضا علیہ السلام) تجاوز کرنا اور حد سے گذر جانے کو ظلم کے معنی میں بھی بیان کیا گیا۔ والعدوان ولاعتداء، لسان العرب، ج15، ص33۔
دشمن کے اصطلاحی معنی کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: عدو یعنی دشمن، وہ دشمن جو دل میں بغض رکھتا ہے اور اسی بغض کے مطابق عمل انجام دیتا ہے ( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو قاموس قرآن، ج4، ص35۔) اسی لئے بغض رکھتے ہوئے انسان کسی کو گرانے کے لئے دل میں پائی جانے والی نفرت کے مطابق کسی کے لئے کچھ کرے تو اسے عداوت کہتے ہیں دشمن کی لغوی و اصطلاحی تعریف کے بعد اب ہمیں اس کی قسموں کو بھی دیکھنا ہوگا:
دشمنی دو طرح کی ہو سکتی ہے: ایک وہ جس کے اندر نفرت و دشمنی کی آگ جل رہی ہو جیسے کسی کو قتل کر دیا گیا ہو اور اس کے وارث انتقام کے در پہ ہوں جس کی طرف قرآن میں بھی اشارہ ہے۔ (فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ، نساء 92.)
دوسرا وہ جہاں انسان کسی چیز سے ناراض ہے اور کسی پر غضباک ہے جیسے جناب ابراہیم کی کیفیت بتوں کے سلسلے سے تھی کہ آپ انہیں دشمن تعبیر کرتے ہیں جبکہ وہ بے جان ہیں اور آپ کو کوئی نقصان بھی پہچاننے والے نہیں ہے لیکن آپ انہیں اس لئے دشمن قرار دیتے ہیں (فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ، شعراء 77) کہ آپ کی اذیت کا سبب تھے اور کافر انہیں خدا مانتے تھے۔
یقینا دونوں ہی قسم کے دشمن کا معیار اگر اللہ کا دین اور اس کی کتاب ہو تو انسان دشمن کے پہچاننے میں غلطی کا مرتکب نہیں ہوگا کیونکہ جہاں قرآن نے مختلف مقامات پر دشمن کے سلسلے سے متوجہ کیا ہے (ایک سو چھ بار کلمہ عدو اور اس کے مشتقات قرآن میں بیان ہوئے ہیں، المعجم الاحصائی، ج1، ص 492۔) وہیں ان لوگوں کو بھی واضح طور پر پہچنوا دیا ہے جو خدا، دین خدا اور کتاب خدا کے دشمن ہیں