خطبہ فدک کی روشنی میں (۴)

دشمن پر اعتماد اور اس کے نتائج

بی بی دوعالم کے ان جملوں کی روشنی میں ہم اگر اس سوال کا جواب دیں گے تو بہت سے حقائق ہم پر روشن ہو جائیں گے کہ گر اصحاب پیغمبر گہری نگاہ رکھتے مسائل کا صحیح تجزیہ کرتے حالات کے رخ کو بجا طور پر بھانپنے کی صلاحیت ہوتی تو کیا ایسا ہوتا ؟

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: یوں تو دشمن پر جہاں بھی ذرا سا بھی اعتماد کیا گیا ہے عالم اسلام کو منھ کی کھانی پڑی ہے ، آج ایک بار پھر تاریخ تکرار ہو رہی ہے اور اسلامی ممالک دھیرے دھیرے اپنے سب سے ازلی دشمن سے دوستی کی پینگیں بڑھانے میں مصروف ہیں ، خلافت کا معاملہ ہو یا علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسے تاریخ کے عظیم ترین امام و انسان کی تنہائی دشمن پر اعتماد کے سایے ہر جگہ نظر آتے ہیں ، خوارج کے وجود میں آنے کا ایک سبب اگر دیکھا جائے تو یہی تھا کہ لوگوں نے امام وقت کو چھوڑ دیا اور دشمن کی جال میں پھنس گئے یہ وہ بات ہے جسے خد امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اس طرح بیان کیا ہے
“أَلَمْ تَقُولُوا عِنْدَ رَفْعِهِمُ الْمَصَاحِفَ حِيلَةً وغِيلَةً – ومَكْراً وخَدِيعَةً إِخْوَانُنَا وأَهْلُ دَعْوَتِنَا – اسْتَقَالُونَا واسْتَرَاحُوا إِلَى كِتَابِ اللَّه سُبْحَانَه – فَالرَّأْيُ الْقَبُولُ مِنْهُمْ – والتَّنْفِيسُ عَنْهُمْ – فَقُلْتُ لَكُمْ هَذَا أَمْرٌ ظَاهِرُه إِيمَانٌ – وبَاطِنُه عُدْوَانٌ – وأَوَّلُه رَحْمَةٌ وآخِرُه نَدَامَةٌ فَأَقِيمُوا عَلَى شَأْنِكُمْ – والْزَمُوا طَرِيقَتَكُمْ –
ذرا بتلائو کہ جب صفین والوں نے حیلہ و مکر اورجعل و فریب سے نیزوں پر قرآن بلندکردئیے تھے تو کیا تم نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ سب ہمارے بھائی اور ہمارے ساتھ کے مسلمان ہیں۔اب ہم سے معافی کے طلب گار ہیں اور کتاب خداسے فیصلہ چاہتے ہیں لہٰذا مناسب یہ ہے کہ ان کی بات مان لی جائے اورانہیں سانس لینے کا موقع دے دیا جائے۔میں نے تمہیں سمجھایا تھا کہ اس کا ظاہر ایمان ہے لیکن باطن صرف ظلم اور تعدی ہے۔اس کی ابتدا رحمت و راحت ہے لیکن اس کا انجام شرمندگی اور ندامت ہے لہٰذا اپنی حالت پر قائم رہو اور اپنے راستہ کو مت چھوڑو” نھج البلاغہ ترجمہ علامہ جوادی ص ۲
۲۱۹
وعَضُّوا عَلَى الْجِهَادِ بَنَوَاجِذِكُمْ – ولَا تَلْتَفِتُوا إِلَى نَاعِقٍ نَعَقَ – إِنْ أُجِيبَ أَضَلَّ وإِنْ تُرِكَ ذَلَّ – وقَدْ كَانَتْ هَذِه الْفَعْلَةُ وقَدْ رَأَيْتُكُمْ أَعْطَيْتُمُوهَا – واللَّه لَئِنْ أَبَيْتُهَا مَا وَجَبَتْ عَلَيَّ فَرِيضَتُهَا – ولَا حَمَّلَنِي اللَّه ذَنْبَهَا ووَ اللَّه إِنْ جِئْتُهَا إِنِّي لَلْمُحِقُّ الَّذِي يُتَّبَعُ – وإِنَّ الْكِتَابَ لَمَعِي مَا فَارَقْتُه مُذْ صَحِبْتُه فَلَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم – وإِنَّ الْقَتْلَ لَيَدُورُ عَلَى الآباءِ والأَبْنَاءِ – والإِخْوَانِ والْقَرَابَاتِ – فَمَا نَزْدَادُ عَلَى كُلِّ مُصِيبَةٍ وشِدَّةٍ – إِلَّا إِيمَاناً ومُضِيّاً عَلَى الْحَقِّ – وتَسْلِيماً لِلأَمْرِ – وصَبْراً عَلَى مَضَضِ الْجِرَاحِ – ولَكِنَّا إِنَّمَا أَصْبَحْنَا نُقَاتِلُ إِخْوَانَنَا فِي الإِسْلَامِ – عَلَى مَا دَخَلَ فِيه مِنَ الزَّيْغِ والِاعْوِجَاجِ – والشُّبْهَةِ والتَّأْوِيلِ – فَإِذَا طَمِعْنَا فِي خَصْلَةٍ يَلُمُّ اللَّه بِهَا شَعَثَنَا – ونَتَدَانَى بِهَا إِلَى الْبَقِيَّةِ فِيمَا بَيْنَنَا – رَغِبْنَا فِيهَا وأَمْسَكْنَا عَمَّا سِوَاهَا.
اور جہاد پر دانتوں کو بھینچے رہو اور کسی بکواس کرنے والے کی بکواس کو مت سنو کہ اس کے قبول کرلینے میں گمراہی ہے اور نظر انداز کردینے میں ذلت ہے۔لیکن جب تحکیم کی بات طے ہوگئی تو میں نے دیکھا کہ تمہیں لوگوں نے اس کی رضا مندی دی تھی حالانکہ خدا گواہ ہے کہ اگرمیں نے اس سے انکار کردیا ہوتا تو اس سے مجھ پر کوئی فریضہ عائد نہ ہوتا۔اورنہ پروردگار مجھے گناہ گار قراردیتا اور اگر میں نے اسے اختیار کیا ہوتا تو میں ہی وہ صاحب حق تھا جس کا اتباع ہونا چاہیے تھا کہ کتاب خدا میرے ساتھ ہے اور جب سے میرا اس کا ساتھ ہوا ہے کبھی جدائی نہیں ہوئی۔ہم رسول اکرم (ص) کے زمانے میں اس وقت جنگ کرتے تھے جب مقابلہ پر خاندانوں کے بزرگ بچے۔بھائی بند اور رشتہ دار ہوتے تھے لیکن ہر مصیبت و شدت پر ہمارے ایمان میں اضافہ ہوتا تھا اور ہم امر الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کئے رہتے تھے۔راہ حق میں بڑھتے ہی جاتے تھے اور زخموں کی ٹیس پر صبر ہی کرتے تھے مگر افسوس کہ اب ہمیں مسلمان بھائیوں سے جنگ کرنا پڑ رہی ہے کہ ان میں کجی۔انحراف ۔شبہ اور غلط تاویلات کادخل ہوگیا ہے لیکن اس کے باوجود اگرکوئی راستہ نکل آئے جس سے خدا ہمارے انتشار کو دور کردے اورہم ایک دوسرے سے قریب ہو کر رہے سہے تعلقات کو باقی رکھ سکیں تو ہم اسی راستہ کو پسند کریں گے اور دوسرے راستہ سے ہاتھ روک لیں گے۔امام علیہ السلام کے جملے آج بھی ہمیں دشمن کی جانب سے ہوشیار رہنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔” ولَا تَلْتَفِتُوا إِلَى نَاعِقٍ نَعَقَ – إِنْ أُجِيبَ أَضَلَّ وإِنْ تُرِكَ ذَلَّ”یہاں پر مولا بتانا چاہتے ہیں کہ دشمن کی منصوبہ بندی پر اگر ہماری توجہ نہ رہے گی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ علی ع جیسا رہبر تنہا رہ جائے گا حکمیت پر علی ع کو مجبور کیا جائے گا اور خوارج وجود میں آءیں گے ، لہذا ضروری ہے کہ ہر انقلابی ان خطرات سے سبق حاصل کرے ۔

حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پیغام توحیدی اور دشمن کا نفوذ
“ثُمَّ لَمْ تَلْبَثُوا إِلَّا رَیثَ أَنْ تَسْکنَ نَفْرَتُهَا، وَ یسْلَسَ قِیادُهَا، ثُمَّ أَخَذْتُمْ تُورُونَ وَقْدَتَهَا”
شہزادی کونین بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ان فقروں کے ذریعہ ہمارے سامنے اس دور کی تصویر پیش کی ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کی رسہ کشی شرور ہو گئی اور اصحاب پیغمبر ص کی سطحی نگری کی بنا پر خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام تر جانفشانیوں کے باوجود دشمن مسلمانوں کے درمیان پیٹھ بنانے میں کامیاب ہو گیا ، جسکا نتیجہ علی کی ۲۵ سالہ خاموشی اور خلافت کے اپنی ڈگر سے ہت جانے کی صورت سامنے آیا شک نہیں کہ نظریاتی دشمن کسی بھی جگہ اپنی دشمنی سے باز نہیں آتا ہے وہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ کب اپنا زہر انڈیل دے اسکے لئے بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہوتی ہے ،
فہم عمق کا نہ ہو نا تجزیہ کی صلاحیت کا نہ ہونا ظاہری چیزوں پر ٹہر جانا یہ ساری وہ چیزیں ہیں جنکی بنا پر دشمن کو اپنے مقاصد کے حصول میں بڑی آسانیاں فراہم ہو جاتی ہیں ، جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ہوا کچھ شاطر افراد نے جہل مرکب سے استفادہ کرتے ہوئے ، رہبریت و قیادت کو ہی اپنی جگہ سے ہٹا دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد نظام ہدایت اپنے محور سے ہٹ گیا ۔ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے دشمن کے تدریجی نفوذ کے سلسلہ سے یہاں پر چند نکات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
۱۔ آپ فتنہ خلافت کو ایسے ناقے سے تشبیہ کرتی ہیں جو بدک گیا ہو اس لئے کہ ہر قبیلہ یہ کہہ رہا تھا کہ خلافت ہمارے یہاں ہونا چاہیے اوراپنے آ پ کو خلافت کا اہل بنا کر پیش کر رہا تھا ، انجام کار یہ ناقہ رام ہو گیا اور اسکی مہار ایسے شخص کے ہاتھوں چلی گئی جسکا بس ایک ہی امتیاز تھا اور وہ تھا بوڑھا ہونا ۔
شتر خلافت کی مہار ہاتھوں میں لینے اور اس پر سوار ہونے کے بعد اسی پر اکتفا نہ ہوئی بلکہ حالات کو مزید اپنے حق میں بہتر بنانے کے لئے اور بھی آگ بھڑکائی گئی اور خلافت کے بعد فدک کو غصب کیا گیا اسکے بعد جبری بیعت لی گئی اور پھر اسلام کی تاریخ میں وہ دردناک واقعات رقم ہوئے جن کو پڑھ اور سن کر ہر صاحب احساس کی روح کانپ جاتی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعدفورا بعد حالات اسقدر بھی پلٹ سکتے ہیں کہ دختر رسول ص کا گھر جلا دیا جائے ۔لیکن یہ حقیقت ہے اور یہ سب اس لئے ہوا کہ لوگوں نے اس وقت سمجھوتہ کر لیا جب علی ع کا حق چھینا گیا جب غدیر کو بھلا دیا گیا انہیں باتوں کو آپ نے اس طرح بیان کیا ہے
ثُمَّ أَخَذْتُمْ تُورُونَ وَقْدَتَهَا، وَ تُهَیجُونَ جَمْرَتَهَا ۔۔۔۔
، پھر تم نے آتش فتنہ کو بھڑکایا اور اس کے شعلے پھیلانے شروع کر دیے
۲۔ آپنے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دشمن جب تدریجی طور پر داخل ہوتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے ، یک بعد دیگرے وہ معاشرہ میں اپنے کھونٹے گاڑتا رہتا ہے اور ایک دن وہ آتا ہے جب ہر طرف اسی کا راج ہوتا ہے پھر کسی کی زبان میں اس کے خلاف بولنے کی سکت نہیں ہوتی ہے ۔
۔ وَ تَسْتَجِیبُونَ لِهُتَافِ الشَّیطَانِ الْغَوِی، وَ إِطْفَاءِ أَنْوَارِ الدِّینِ الْجَلِی، وَ إِهْمَادِ سُنَنِ النَّبِی الصَّفِی،
دیے اس طرح تم شیطان کی گمراہ کن پکار پر لبیک کہنے لگے تم دین کے روشن چراغوں کو بجھانے اور برگزیدہ نبیؐ کی تعلیمات سے چشم پوشی کرنے لگے
تَشْرَبُونَ حَسْواً فِی ارْتِغَاءٍ۔۔
، تم بالائی لینے کے بہانے پورے دودھ کو پی جاتے ہو اور رسول کی اولاد اور اہلبیت کے خلاف خفیہ چالیں چلتے ہو
یہاں پر مراد یہ ہے کہ جب دودھ دوہواجاتا ہے تو کبھی ملائی کے بہانے انسان دودھ پیتا ہے کبھی دودھ دوہنے کی بنا پر جھاگ آنے کی وجہ سے پورے دودھ کے برتن پر قبضہ ہو جاتا ہے اور بلی کی طرح سارا دودھ پی لیا جاتا ہے اور جھاگ ہی بچ پاتا ہے ۔
وَ نَصْبِرُ مِنْکمْ عَلَى مِثْلِ حَزِّ الْمُدَى، وَ وَخْزِ السِّنَانِ فِی الْحَشَا،”
تمہاری طرف سے خنجر کے زخم اور نیزے کے وار کے باوجود ہم صبر سے کام لیں گے ۔{ہم تمہاری جانب سے دئے گئے زخموں پر ایسے صبر کریں گے جیسے کسی کو بڑے چاقوں گود دیا ہو اور نیزے بدن میں دھنسا دئیے ہوں لیکن وہ بڑے مقصد کے پیش نظر صبر سے کام لیتا ہے
یہ جملے مولائے کائنات کے جملوں سے کس قدر شبیہ ہیں جنہیں ۲۵ سال سکوت کے بعد آپ نے فرمایا تھا
فَصَبَرتُ، وفِی العَینِ قَذىً، وفِی الحَلقِ شَجاً؛ أرى تُراثی نَهبا… فَصَبَرتُ عَلى طولِ المُدَّةِ، وشِدَّةِ المِحنَةِ. خطبہ ۳
بی بی دوعالم کے ان جملوں کی روشنی میں ہم اگر اس سوال کا جواب دیں گے تو بہت سے حقائق ہم پر روشن ہو جائیں گے کہ گر اصحاب پیغمبر گہری نگاہ رکھتے مسائل کا صحیح تجزیہ کرتے حالات کے رخ کو بجا طور پر بھانپنے کی صلاحیت ہوتی تو کیا ایسا ہوتا ؟ اور اگر اہلبیت اطہار علیھم السلام کو انکا حق مل جاتا تو اسلامی میراث کتنی عظیم میراث ہوتی ، لیکن سطحی طرز فکر کی بنیاد پر جو ہوا وہ سامنے ہے ہر طرف مسلمانوں کے اوپر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے اورآج اسلام اور مسلمانوں کا وہ حال ہے جس کا خواب میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا تھا کیا ان تما چیزوں کے پیچھے علی ع کی تنہائی اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مظلومیت نہیں ہے ، اگر مظلومیت ہے تو گزرے ہوئے کل سے ہم عبرت کیوں نہیں لیتے آج پھر کیوں اسی ڈگر پر گامزن ہیں جس پر کل بعد وفات پیغمبر مدینہ کا معاشرہ چل پڑا تھا جسکا نتیجہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا تلخ سکوت تھا جسکا نتجہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مرثیہ تھا کیا آج بھی ہمارے کانوں سے یہ آواز نہیں ٹکرا رہی ہے ۔ صُبَّــــــتْ عَلَیَّ مَصَائِــبُ لَوْ أَنَّهَا صُبَّـتْ عَلَـى الْأَیَّـامِ صِـرْنَ لَیَالِیَا۔۔۔۔