وحدت اسلامی کانفرنس (۴)

دشمن کے منصوبے اور ہماری ذمہ داری

شک نہیں کہ دشمن ہمارے درمیان پائی جانے والی دراڑوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور ہمارے ہی مذہب کو ہمارے ہی خلاف استعمال کر رہا ہے تکفیریت کو آپ کیا نام دیں گے یہ مذہب علیہ مذہب نہیں تو کیا ہے ، یہ کہاں سے پنپ رہی ہیں کون اسے سپورٹ کر رہا ہے فرقہ واریت کیا ہے کہاں سے اس جونک کو خون مل رہا ہے کون اسے اسلامی معاشرے کے پیکر میں پیوست کر کے خوش ہو رہا ہے سب کچھ سامنے ہے۔

فاران؛ شک نہیں کہ دشمن ہمارے درمیان پائی جانے والی دراڑوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور ہمارے ہی مذہب کو ہمارے ہی خلاف استعمال کر رہا ہے تکفیریت کو آپ کیا نام دیں گے یہ مذہب علیہ مذہب نہیں تو کیا ہے ، یہ کہاں سے پنپ رہی ہیں کون اسے سپورٹ کر رہا ہے فرقہ واریت کیا ہے کہاں سے اس جونک کو خون مل رہا ہے کون اسے اسلامی معاشرے کے پیکر میں پیوست کر کے خوش ہو رہا ہے سب کچھ سامنے ہے اور واضح ہے کہ ہمارے درمیان پائے جانے والے رخنوں سے دشمن فائدہ اٹھا ر ہا ہے اب یہ اور بات ہے کہ امت مسلمہ اگر خود متحد ہو اور آپس میں ایک دوسرے کے حق لئے سب کھڑے ہوں تو دشمن کواپنے پینترے عملی کرنے کا موقع نہ مل سکے لیکن افسوس یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے جب کبھی کوئی خود کش حملہ ہوتا ہے تو مسلمانوں میں ہی ایک بڑا طبقہ یہ سوچ کر خاموش رہتا ہے کہ ہم پر تو حملہ نہیں ہوا جن پر حملہ ہوا ہے وہ منحرف ہیں راستے سے بھٹکے ہوئے تو چلو کوئی تو ہے جو انحراف کے مقابل اپنی ذمہ داری ادا کر رہا ہے یہ وہ خطرناک سوچ ہے جو ایک جونک کی صورت اسلامی پیکر میں پیوستہ اسکا خون چوس رہی ہے جبکہ اگرسلمان ایک مشترکہ محا ذ پر اکھٹا ہو جائیں اورتوحید و رسالت و معاد کو اصل بنا لیں اور انکے ماننے والوں کے خلاف ہونی والی کاروائیوں کی مل کر مذمت کریں اور اسلامی معاشرے کے خلاف بر سر پیکار عناصر سے مقابلہ کریں تو دشمن کو اسکی چال میں ناکام بنایا جا سکتا ہے ۔دشمن بھی درحقیقت انہیں روزنوں سے فائدہ اٹھاتا ہے انہیں کھانچوں سے اپنے مذموم مقاصد کو عملی کرتا ہے جو خود مسلمانوں کے آپسی تصادم کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں ۔
راہ حل کیا ہے؟
جو کچھ ہو رہا ہے سب کے سامنے ہے سب کو پتہ ہے اختلاف و تفرقہ ہمارے لئے تباہی و بربادی کا پیغام ہے اب ایسے میں سوال یہ ہے کہ ان باتوں کا حل کیا ہے ؟
حل پر ہم اگر غور کریں تو اس بات تک پہنچیں گے کہ قرآن نے تو بہت پہلے ہی ہمارے لئے واضح کر دیا کہ تمہیں کیا کرنا ہے کیا کسی کو شک ہے کہ ایمانی محور پر اگر مسلمان جمع ہو جائیں تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا ہے ایمانی طاقت کو سمجھنا ہے تو ہم اسے ہم ندیوں کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں آپ نے مختلف چھوٹی ندیوں کو دیکھا ہوگا اگر الگ الگ ان سے کھیتوں کی فصلوں کو سینچا جائے تو ان کے پانی سے کچھ ہی کھیت سینچے جا سکتے ہیں لیکن اگر انہیں ایک ڈیم اور بڑے باندھ میں ڈالا جائے تو اسکے پانی کو چھوڑ کر ہزاروں کھیتوں کو سینچا جا سکتا ہے اور پانی سے بجلی پیدا کر کے لاکھوں گھروں کو روشن کیا جا سکتا ہے
اسی طرح ایمان کی مثال ہے ایمان کے محور تلے مومنین کی صلاحیتوں کو جمع کر کے کتنی ہی انسانیت کی کھیتیوں کو سیراب کیا جا سکتا ہے اور کتنی ہی تاریک روحوں کو روشن کیا جا سکتا ہے ۔
ایمان کی طاقت کیا ہے اور مومنین آپس میں اگر جمع ہو جائے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں تو ہم کتنی زبردست طاقت بن سکتے ہیں اسکے بارے میں ایک مقام پر آیت اللہ جعفر سبحانی حفظہ اللہ نے اتحاد کے سلسلہ سے اپنے ایک بیان میں فرمایا: اگر آپ ایک ایٹم کو دیکھنا چاہیں تو اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ٹیلسکوب کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب ہم اسے شگافتہ کر دیتے ہیں اور کچھ دوسرے ایٹمز کے ساتھ ملاتے ہیں تو اس جوہری طاقت تک پہنچ جاتے ہیں جسکے بل پر چھوٹے سے ایک بم سے پوری دنیا کو کئی بار ختم کیا جا سکتا ہے ۔اسی طرح ایمان کی طاقت ہے جس کے بل پر پوری دنیا کو بدلا جا سکتا ہے ۔
یہی وجہ ہے رسول رحمت کی 23 سالہ تبلیغی زندگی جو چیز بارز نظر آتی ہے جو مومنین کا آپس میں ایک ہو کر رہنا ہے چنانچہ حضور ص نے جاہلیت کے اس دور میں جس چیز کے ذریعہ ہمیشہ آپس میں لڑنے جھگڑنے والوں کو متحد کیا وہ ایمان کی طاقت تھی جس کے اثرات آج تک ہم پوری دنیا میں دیکھ سکتے ہیں ۔امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے بھی بالکل وہی کام کیا جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کیا تھا امام خمینی رح نے لوگوں کو ایمان کے محور پر متحد کیا اور اس عظیم انقلاب کی داغ بیل ڈالی جسکی نظیر نہیں ملتی ۔
اگر ہم غور کریں گے تو ہمیں ملے گا امام خمینی کا انقلاب ایمانی بنیادوں پر تھا اور وہ اپنے ہدف میں مخلص تھے یہی وجہ ہے انہوں نے جہاں انقلاب کی کامیابی کو بیان کیا ہے وہاں اس بات کو ببانگ دہل کہا ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی اور اسکی بقا کا راز اتحاد میں ہے چنانچہ وہ فرما تے تھے ہمارے انقلاب کی علت محدثہ و مبقیہ دونوں ہی وحدت کے اندر پوشیدہ ہیں اگر یہ انقلاب وجود میں آیا تو وحدت کی بنا پر اگر باقی ہے تو وحدت کی بنا البتہ یہاں وحدت سے مراد یہ نہیں ہے کہ جو ایک نظریہ دے دیا جائے اس کے مقابل کوئی زبان نہ کھولے ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ امام خمینی رح وحدت در کثرت پر یقین رکھتے تھے آپ کا ماننا تھا کہ وحدت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ دو لوگ ایک ہی طرح سوچیں بلکہ فکروں کے اختلاف کے ساتھ مقصد کی یکسانیت اہم ہے اسی لئے فکروں کے اختلاف کو مسترد نہ کرتے ہوئے امام خمینی رح نے ہمیشہ مختلف فکروں کا استقبال کیا ہے اور یہ اختلاف اگر ایمان کے محور پر ہو تو معاشرے کے نکھار کا سبب ہے اس لئے کہ انسان کی فکر جب ایمانی ہوتی ہے تو لوگ اپنی ذات کو محور نہیں بناتے بلکہ ذات حق کو محور بناتے ہیں اب وہ بظاہر الگ ضرور ہوتے ہیں لیکن ایمان کے محور پر آکر مختلف افکار کے حامل لوگ ایک ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح ہم سب کو بھی الگ الگ فکروں کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے ملک میں ایمان کے محور پر جمع ہونے کی ضرورت ہے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی ضرورت ہے یہی وہ چیز ہے جو مطلوب خدا و رسول ص ہے ۔۔۔

جاری ہے