فاران تجزیاتی خبرنامہ: ایک ترک مصنف کا ماننا ہے کہ اسرائیل کو شام میں خوش کرنے کے لیے کوئی بھی “اردوگان” سے زیادہ کامیاب نہیں رہا۔
“فہیم تاشکین” نے اپنے ایک مضمون “خون میں ڈوبی ہوئی روٹی” میں، جو ترکی کے اخبار “گازیٹے دوار” میں شائع ہوا، لکھا:
“وہ کردار جنہوں نے شام کے اسد کا ساتھ چھوڑ دیا، وہ اس عرب ملک کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوگئے جو مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی خواہشات کے خلاف تھا۔ اب شام کے پاس اسرائیل کو جواب دینے کی طاقت و صلاحیت نہیں رہی۔”
تاشکین کے مطابق، اس تاریخی دور میں شام میں اسرائیل کا مشن دو بنیادی نکات پر مشتمل تھا:
1. اسد کے اتحادیوں کے ٹھکانوں پر مہلک حملے۔
2. شام کی فوجی صلاحیت کو ختم کرتے ہوئے اس کے دانت اور ہڈیاں توڑ دینا، اور “جبل الشیخ” جیسے اسٹریٹجک مقام پر قبضہ کرنا، جو کہ دفاعی لحاظ سے اہم اور قیمتی آبی سہولتوں کا حامل ہے۔
تاشکین کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ترک صدر رجب طیب اردوغان کی مدد سے ممکن ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کو خوش کرنے میں اردوغان جیسا کوئی اور نہیں۔
ترک صحافی اور تجزیہ کار لکھتے ہیں:
“اردوغان نے 13 سال تک مسلسل اپنی تمام تر توانائیاں شام کی تباہی پر مرکوز رکھیں۔ وہ ایک طرف خود کو ایران، روس اور شام کے اسد کا اتحادی ظاہر کرتے رہے اور آستانہ کے اجلاسوں میں شام کے بحران کا حل ڈھونڈنے کا دکھاوا کرتے رہے، لیکن پردے کے پیچھے وہ اسرائیل کے حلیف مسلح گروہوں کو دمشق فتح کرنے کی تربیت دے رہے تھے۔”
اردوغان کا اسرائیل کے لیے دوہرا کردار
اردوغان ہمیشہ فلسطین اور فلسطینیوں کے حق میں زبانی حمایت اور اسرائیل پر ظاہری تنقید کے باوجود صہیونی حکومت کے مددگار رہے ہیں، اور شام میں ان کی حمایت اس کی تازہ ترین مثال ہے۔
غزہ کی جنگ میں اسرائیل کے لیے حمایت
اردوغان کی اسرائیل کی حمایت صرف شام تک محدود نہیں رہی، بلکہ فلسطینیوں کے خلاف 14 ماہ کی جنگ کے دوران بھی وہ تل ابیب کے مددگار رہے۔ 2023 میں ترکی اسرائیل کے اہم ترین تجارتی شراکت داروں میں شامل رہا، اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 7 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔
ترکی، 2023 میں اسرائیل کو لوہے سے بنی اشیاء لوہا اور پیٹروکیمیکل مصنوعات فراہم کرنے والا اہم ملک رہا۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات 2009 سے 2023 کے درمیان تقریباً تین گنا بڑھ گئے۔
منافقت کا پہلو
اردوغان نے اسرائیل کے خلاف تجارتی تعلقات معطل کرنے کی دھمکیاں دیں، لیکن ترکی کی تجارتی شرح 2023 میں 3.9 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ گمرک اور تجارتی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ترکی کی جانب سے لوہے، معدنیات، اور بنیادی اشیاء جیسے انڈے، پھل اور سبزیوں کی برآمدات میں اضافہ ہوا، حالانکہ غزہ میں نسل کشی جاری تھی۔
تجارتی تعلقات میں چالاکی
اردوغان نے مئی 2024 میں اسرائیل کے ساتھ تجارت معطل کرنے کا اعلان کیا، لیکن گہرائی سے جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ ترک تاجروں نے اسرائیل کو برآمدات کو فلسطین کے نام سے رجسٹر کرنا شروع کر دیا۔
مثال کے طور پر، ترکی کی فلسطین کو برآمدات میں 10 سے 15 گنا اضافہ دیکھا گیا۔ مزید یہ کہ ترکی نے یونان، مصر اور لبنان جیسے ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تجارتی روابط جاری رکھنے کے لیے متبادل راستوں کے طور پر استعمال کیا۔
اسرائیل کے مرکزی شماریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق، مئی 2024 میں ترکی سے اسرائیل کو 116 ملین ڈالر کی درآمدات ہوئیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ اردوغان ہر موسم میں اسرائیل کے لیے فائدہ مند رہے ہیں۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں