سعودی عرب کی لبنان میں سیاسی بحران ایجاد کرنے کی کوشش کیوں؟

یہ بالکل وہی حکمت عملی ہے جو اسرائیل کی غاصب رژیم نے اختیار کر رکھی ہے اور اس کے تحت صہیونی حکمران اپنے مجرمانہ اقدامات سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کیلئے خطے میں نت نئے بحران ایجاد کرتے رہتے ہیں۔

فاران: سعودی عرب نے لبنان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ آل سعود رژیم لبنان میں سیاسی بحران پیدا کر کے کئی اہداف حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے جن میں سے اہم ترین مقصد عالمی رائے عامہ کی توجہ یمن سے ہٹانا اور یوں اپنے اوپر روز بروز بڑھتے ہوئے دباو کو کم کرنا ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر سعودی حکومت پر یمن کے خلاف جاری فوجی جارحیت کو جلد از جلد ختم کرنے کیلئے دباو بڑھتا جا رہا ہے۔ کچھ ہفتے قبل جب ایران اور سعودی عرب کے درمیان خطے کے مسائل خاص طور پر یمن کی جنگ کے بارے میں مذاکرات منعقد ہو رہے تھے تو یہ تاثر قائم ہو گیا تھا کہ شاید آل سعود رژیم لبنان میں مداخلت کم کر کے بحران سازی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کرنے والا ہے۔

جب لبنان میں نئے وزیراعظم نجیب میقاتی کی سربراہی میں کابینہ تشکیل پائی تو اس وقت بھی سعودی عرب نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ لیکن اب سعودی عرب نے اچانک لبنان کے وزیر اطلاعات جارج قرداحی کے چند ماہ پرانے بیان کو بہانہ بنا کر لبنان کے سفیر کو ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیا ہے۔ جارج قرداحی نے چند ماہ پہلے یمن کے خلاف جاری سعودی جارحیت کے جلد از جلد خاتمے پر زور دیا تھا۔ اب چند ماہ بعد سعودی حکمرانوں نے اس بیان کی بنیاد پر لبنان سے درآمد ہونے والی تمام مصنوعات پر پابندی عائد کرتے ہوئے بیروت سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے جبکہ لبنانی سفیر کو بھی سعودی عرب ترک کرنے کیلئے صرف دو دن کی مہلت دی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب لبنان کے حالات دوبارہ خراب کر کے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ سعودی حکمران چونکہ لبنان کی موجودہ صورتحال کو اپنے حق میں نہیں سمجھتے لہذا انہوں نے لبنان سے تعلقات توڑنے کا فیصلہ کر چکے تھے اور اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے محض ایک بہانے کی تلاش میں تھے۔ لبنانی وزیر کا چند ماہ پہلے کا بیان یہ بہانہ فراہم کرنے کیلئے کافی تھا۔ لبنان سے سفارتی تعلقات توڑنے کا سعودی فیصلہ درست اس فیصلے کی مانند تھا جب سعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کئے تھے۔ اس وقت بھی سعودی حکمران گذشتہ چند ماہ سے اس اقدام کا بہانہ تلاش کرنے میں مصروف تھے۔ آخرکار جب تہران میں چند مظاہرین نے سعودی سفارتخانے پر حملہ کیا تو انہیں اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کیلئے مناسب بہانہ ہاتھ آ گیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آل سعودی رژیم اور بحرین جیسی اس کی پٹھو حکومتوں کی جانب سے لبنان سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا فیصلہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے اشارے پر انجام پایا ہے۔ اس اقدام کا ایک مقصد سعودی عرب اور بحرین کی جانب سے غاصب صہیونی رژیم سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کیلئے اس کی چاپلوسی کرنا ہے اور خود کو اس کا وفادار ظاہر کرنے کی کوشش ہے۔ دوسری طرف اس حقیقت سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے کہ آل سعود رژیم یمن کا بحران حل ہونے سے پہلے خطے کے دیگر بحران حل ہونے کے بارے میں شدید پریشان ہے۔ وہ اس خوف کا شکار ہے کہ خطے میں سیاسی استحکام پیدا ہو جانے کے بعد علاقائی اور عالمی رائے عامہ کی بھرپور توجہ یمن جنگ پر مرکوز ہو جائے گی اور اس پر دباو حد سے زیادہ بڑھ جائے گا۔

یہ بالکل وہی حکمت عملی ہے جو اسرائیل کی غاصب رژیم نے اختیار کر رکھی ہے اور اس کے تحت صہیونی حکمران اپنے مجرمانہ اقدامات سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کیلئے خطے میں نت نئے بحران ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ اس پالیسی کے تحت وہ فلسطین سے متعلق بین الاقوامی قراردادوں پر عملدرآمد روکے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب بھی یمن کے خلاف جنگ شروع کرنے کی ذمہ داری قبول کرنا نہیں چاہتا کیونکہ ایسی صورت میں اسے جنگ کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ لہذا سعودی حکمرانوں کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح لے دے ہو جائے اور وہ باعزت طور پر یمن کے خلاف جنگ کی دلدل سے باہر نکل آئے۔ ایران کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے سے بھی اس کا یہی مقصد تھا لیکن وہ اسے حاصل نہ کر سکا۔

دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات میں تعطل پیدا ہو چکا ہے اور امریکہ ایران کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کیلئے اس پر دباو ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ دباو نہ صرف ایران پر براہ راست طور پر بلکہ اس کے اتحادی ممالک کو مختلف قسم کے بحرانوں سے روبرو کر کے بھی ڈالا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے لبنان سے تعلقات کشیدہ کرنے کا اقدام اس تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسے ہی اقدامات کی ایک اور مثال عراق میں امریکہ کی زیر نگرانی پارلیمانی الیکشن میں وسیع قسم کی دھاندلی انجام دینا ہے۔ حال ہی میں ایران کے پیٹرول پمپس پر سائبر حملہ بھی اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔ یوں توقع کی جا رہی ہے کہ ایران کے جوہری مذاکرات بحال ہونے تک ایسے اقدامات جاری رہیں گے۔