اب بھی نہ مانوں کی رٹ!؟

سعودی پرچم سے کلمہ طیبہ مٹانے کا ترمیمی بل منظور! / کیا سرزمین عرب کے یہودیانے کا منصوبہ ہے!

سعودی بادشاہ کی متعینہ مجلس شوریٰ نے نام نہاد قانون میں ترمیم کرکے عبارت "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" سعودی پرچم سے ہٹانے اور قومی ترانہ تبدیل کرنے کے بل کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا! صارفین کا شدید رد عمل!

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: سعودی مجلس شوری نے پیر 31 جنوری 2022ع‍ کو اپنے اجلاس میں قومی پرچم اور قومی ترانے میں تبدیلی کے بل کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا۔ متعصب وہابیوں کے کہنے پر تکفیر کا فتنہ اٹھانے والوں کے لئے لمحۂ فکریہ، کیا بر صغیر کے تکفیری اس کے لئے کوئی جواز فراہم کریں گے؟
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، سعودی بادشاہی کے سب سے اعلی مشاورتی ادارے “مجلس شوریٰ” نے قومی پرچم اور قومی ترانے کی تبدیلی کے ترمیمی بل کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا ہے جس کے تحت قومی ترانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سعودی پرچم سے کلمۂ اسلام “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کو ہٹایا جائے گا۔
خبر الیمنی نامی اخباری ویب گاہ نے لکھا ہے کہ توحید و رسالت کا کلمہ سعودی قومی پرچم سے ہٹانے کا عمل یہودیوں کی غاصب ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی غرض سے انجام کو پہنچایا جا رہا ہے جس پر نجد و حجاز اور دوسرے عرب ممالک کے رہنے والے انٹرنیٹ صارفین نے نہایت تلخ رد عمل ظاہر کیا ہے۔ مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ کسی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے پرچم اور قومی ترانے میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہؤا کرتی لہٰذا لگتا ہے فلسطین کے متعدد علاقوں کی طرح اب نجد و حجاز کے یہودیانے کا منصوبہ ہے جس پر یہودی ریاست کی جڑواں سعودی ریاست کے نئے حکمرانوں کے توسط سے عملدرآمد کروائی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب میں سلمان بن عبدالعزیز کے بادشاہ بننے اور سلطنت کے امور پر سلمان کے بیٹے ؛ ایم بی ایس (محمد بن سلمان) کے مسلط ہونے کے بعد سے صہیونی-یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے بہتیری کوششیں کی ہیں۔ ایم بی ایس نے امریکی جریدے اٹلانٹک کو انٹرویو دیتے ہوئے اعلانیہ طور پر اسرائیل کی موجودگی کے حق کی وکالت کی ہے۔ یہاں تک کہ اس نے جزیرہ نمائے عرب کی نصابی کتب تک میں بنیادی تبدیلیاں کی ہیں اور جہاد و شہادت وغیرہ جیسے اسلامی مفاہیم نیز قرآن میں مذکورہ یہودیوں کی اسلام دشمنی جیسے موضوعات کو اپنے نصاب سے حذف کرلیا ہے اور ظاہری طور پر اصل مقصد ناجائز اور غاصب یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی ہے؛ لیکن بات گویا اس سے بڑھ کر ہے۔۔۔
ایم بی ایس نے گذشتہ سال – اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی قطار میں کھڑے ہونے کی غرض سے – ایک ہدایت نامہ جاری کیا جس کے تحت جزیرہ نمائے عرب کے طالب علموں کی نصابی کتب میں مندرجہ یہودیوں سے متعلق دینی و مذہبی احکامات کو ہٹا دیا گیا اور نصابی کتب کو از سر نو لکھوایا گیا۔
اسی بنا پر نجد و حجاز کے بہت سے سرگرم سماجی کارکنوں اور عام شہریوں نے سعودی پرچم کی تبدیلی اور کلمۂ طیبہ کو ہٹانے کے منظور شدہ بل پر شدید رد عمل ظاہر کیا ہے اور سوشل میڈیا میں ہیش ٹیگز کا سلسلہ چلا کر اس سعودی اقدام کی مذمت کی ہے۔
کچھ ایرانی صارفین نے بھی سوشل میڈیا کے ایرانی صارفین نے بھی اس اسلام دشمن اقدام پر اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے جو کچھ یوں ہے:
1۔ سعودی مجلس شوری نے اتفاق رائے سے پرچم کی ظاہری شکل کی تبدیلی کے ترمیمی بل کے مسودے کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا ہے۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ حرمین شریفین کی خدمت کے لئے اہلیت کی ضرورت ہے جو سعودی حکام کے پاس نہیں ہے اور وہ اپنی اصل جڑ یعنی “جاہلیت” کی طرف پلٹ رہے ہیں۔

2۔ میرے خیال میں سعودی ریاست صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لئے نہیں بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے اسرائیلیانے کے لئے “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کا کلمہ پاک اپنے پرچم سے ہٹا نا چاہتی ہے۔

3۔ گویا سعودیوں کا منصوبہ ہے کہ کلمہ مقدسہ کو اپنے پرچم سے ہٹا دیں۔۔۔ بہت ہی واضح ہے کہ وہ Factory setting کی طرف پلٹ رہے ہیں؛ اگلے مرحلے میں وہ (معاذ اللہ) کعبہ شریف میں اپنے اجداد کے پرانے بتوں “لات و منات اور ہُبل و عُزیٰ” نصب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں! اور اپنی بیٹیوں کو زندہ بگور کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا!
4۔ ایک صارف سے اس مسئلے کو دوسرے زاویئے سے دیکھا ہے اور لکھا ہے: واہ کیا بات ہے اب ہم امریکہ اور اسرائیل کے پرچم کے ساتھ سعودی پرچم کو بھی نذر آتش کرسکیں گے!
5۔ ایک صارف نے ایک خاکہ شائع کرکے تجویز دی ہے کہ چونکہ امریکہ سعودی حکومت کو دودھ دینے والی گائے سمجھتا ہے، تو اب جبکہ سعودی حکمران یہودیوں کی خوشامد کے لئے کلمۂ توحید و رسالت کو حذف کررہے ہیں، امریکہ کی خوش آمد کے لئے نئے سعودی پرچم پر تلوار کے اوپر ایک اچھی سی گائے کی تصویر لگا دیں۔

6۔ ایک صارف نے دہ پہلو (decagonal) ستارہ لگانے کی تجویز دی ہے جس کے بیچ تلواروں اور ان کے اوپر کھجور کا درخت ہے۔ صارف نے لکھا ہے:
“سعودی پرچمہ کلمۂ طیبہ کے بغیر!” ۔۔۔ سرزمین حجاز پر قبیلے کا نام رکھنے پر قانع نہیں ہوئے اب پرچم پر بھی اپنے قبیلے کا نام رکھ لیا “السعودیۃ الجدیدہ”!

7۔ ایک صارف نے لکھا:
قضیئے کی ظاہری صورت: سعودی عرب کے پرچم اور علامت میں تبدیلی
قضيئے کی باطنی صورت: اطاعت گذار اور حلقہ بگوش غلام کی طرح، غاصب یہودی ریاست کے احکامات کی تعمیل کرنا اور ہر اس چیز کا خاتمہ کرنا جو اسلام کی علامت سمجھی جائے۔
حقیقی قضیہ: جب ہم جنۃ البقیع میں ضریح اور حرم بنا رہے ہیں، دیکھتے ہیں کہ تم وہابی اس وقت کہاں ہو! یقین جانئے یہ تمہارے زوال کے آخری مراحل ہیں۔ #سعودی_زوال
8۔ ایک صارف نے سعودی پرچم پر ذوالفقار کی تصویر لگانے اور “لا فَتیٰ اِلاّ عَلي لا سَیفَ اِلاّ ذُوالفَقار” لکھنے کی تجویز دی ہے اور لکھا ہے:
سرزمین عرب میں یہودیوں کی اسلام دشمن سازشیں اور ان پر اٹھنے والے اخراجات نتیجہ خیز ثابت ہوئے ہیں اور ایم بی ایس نے اس ملک کے قومی پرچم سے “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کا کلمہ حذف کرنے کا فیصلہ کیا ہے! یہ بہترین موقع ہے کہ یمنی افواج فتح خیبر کے طرز پر بیت اللہ کو آزاد کرائیں اور سرزمین عرب کے لئے نیا پرچم بھی بنا کر نصب کریں۔

9۔ سعودی حکمران لا الہ الا اللہ کو پرچم سے حذف نہیں کرنا چاہتے وہ تو بس پرچم کے اوپر “یا حیدر کرار” لکھنے کے لئے جگہ خالی کرنا چاہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ مجلس شوریٰ: سعودی قبیلے کی استبدادی حکمرانی میں مجلس شوریٰ کی حیثیت ربڑ سٹیمپس کے مجموعے کی سی ہے، جو ووٹ نہ دینا چاہے اسے پیشگی استعفی دینا پڑتا ہے، اور مجلس کی عمارت میں صرف وہی داخل ہوسکتے ہیں جنہیں ووٹ دینا ہوتا ہے، ویسے بھی اس شوری کے اراکین دربار کے وکیل ہوتے ہیں جن میں بادشاہ یا ولی عہد کی تجویز کی مخالفت کی ہمت نہیں ہوتی اور اس غیر منتخب شوری میں کوئی بھی بل اتفاق رائے سے منظوری کے لئے پیش کیا جاتا ہے ورنہ تو یہاں کوئی قانون سازی نہیں ہوتی کیونکہ قوانین پہلے سے ہی آل سعود نے آل الشیخ سے لکھوا لئے ہیں اور نجد و ححاز کے لوگوں کو صرف ان پر عمل کی اجازت دی جاتی ہے!!!