سعودی-یہودی حفاظتی و معلوماتی تعاون

ویکی لیکس نے فاش کیا کہ سعودیوں نے یہودی ریاست کے بدنام جاسوسی ادارے "موساد" کے ساتھ سلامتی امور کے سلسلے میں ایک ارب ڈالر کے معاہدے کی تجویز دی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق، موساد سعودی خفیہ ادارے کے معلومات اکٹھی کرنے میں مدد اور ایران کے بارے میں مشورہ دے کر مدد اس ادارے کی مدد کرے گی۔

فاران؛ ایسے حال میں کہ سعودی اور صہیونی-یہودی ریاستوں کے درمیان مختلف سطوح پر “خفیہ” تعاون جاری ہے، یہ بات کافی قابل توجہ ہے کہ ان دو ریاستوں کے درمیان تعلقات قائم کرنے میں وزارت ہائے خارجہ کے سفارتکاروں کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ یہ معلوماتی اور حفاظتی ایجنٹ (Intelligence & security agents) ہیں جو ان تعلقات اور اس تعاون کو خفیہ طور پر منظم کرتے ہیں اور سفارتکاروں کے لئے ماحول فراہم کرتے ہیں۔ چنانچہ [گذشتہ کئی عشروں سے] سعودیوں اور یہودیوں کے درمیان کے تعلقات اور ملاقاتیں معلوماتی اور حفاظتی ایجنٹوں کی حد تک محدود رہی ہیں۔
بعض اسرائیل اور مغربی ذرائع کے مطابق، خفیہ یہودی خفیہ ادارے “موساد” کے سابق سربراہ میئر داگان (Meir Dagan) اور اس بدنام زمانہ ادارے کے اس سے بھی پہلے کے سربراہ “تامیر پاردو” (Tamir Pardo) نے سعودی دارالحکومت ریاض کے دورے کرکے سعودی حکام سے بات چیت کی ہے۔ نیز ذرائع نے فاش کیا ہے کہ سعودی جاسوسی ادارے کے سابق سربراہ “بندر بن سلطان” – جو مغربی ایشیا کے ممالک کو آگ کی دریا میں جھونکنے کا بنیادی کردار ہے – نے سنہ 2006 میں مقبوضہ فلسطین کا دورہ کرکے تل ابیب میں غاصب صہیونی ریاست کے اس وقت کے وزیر اعظم “ایہود اولمرت” سے ملاقات کی تھی۔
سعودی ریاست کے خفیہ ادارے کا سابق سربراہ “ترکی الفیصل” صہیونی حکام سے ملاقاتوں کے حوالے سے مصروف ترین شخص سمجھا جاتا ہے۔ اس نے بارہا غاصب کی سابقہ وزیر خارجہ “زیپی لیونی” (Tzipi Livini) سے ملاقاتیں کی ہیں اور صہیونیوں کے ساتھ ٹیلی ویژن پروگراموں میں شرکت کی ہے، اور سابق عجیب یہودی وزیر اعظم نیتن یاہو کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل “یعقوب آمیدرور” (Yaakub Amidror)، عاموس یادلین (Amos Yadlin) اور نائب وزیر خارجہ ڈورے گولڈ (Dore Gold) سے مسلسل بات چیت کرتا رہا ہے۔ ترکی الفیصل نے نومبر 2014ء میں یہودی ریاست کے وزیر جنگ “موشے یعلون” سے ملنے کے لئے برسلز میں واقع جرمن مارشل فاؤنڈیشن کی عمارت میں حاضر ہؤا.
نیز سنہ 2015ء میں جرمنی میں منعقدہ ایک سیکورٹی کانفرنس کے موقع پر بھی ترکی الفیصل نے یہودی ریاست کے اس مذکورہ وزیر کے ساتھ مصافحہ کیا۔ الفیصل نے دورے گولڈ کے کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات میں اضافہ کیا۔ جبکہ گولڈ اب تک آل سعود کے خلاف سب سے زیادہ بولتا اور لکھتا رہا ہے اور کتاب “نفرت کی بادشاہی: سعودی عرب کس طرح جدید عالمی دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے” (1) اسی شخص نے لکھی ہے؛ یہ کتاب ابتداء سے انتہا تک سعودی حکمراوں کے خلاف ہے اور اس ریاست کو “دہشت گردی کی ماں” کے طور پر متعارف کراتی ہے۔
اپریل 2016ء میں شہزادہ ترکی الفیصل اور بنیامین نیتن یاہو کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی اور جنرل یعقوب آمیدرور نے امریکی دارالحکومت میں واقع “واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ برای مشرق قریب” میں حاضر ہوئے اور یہودی ریاست اور عربوں کے درمیان تعاون کے امکانات کا جائزہ لیا۔ ترکی الفیصل نے اپنے خطاب میں کہا: “اگر اسرائیل عرب دنیا کے ساتھ صلح کرلے، تو فریقین ہر چیلنج پر غلبہ پاسکتے ہیں اور [الفیصل کے بقول] یہودی دولت اور “عربی عقل!!” کی مدد سے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے”۔
تعلقات کے معمول پر لانے [یا غاصب ریاست کے غیرمعمولی پن کو معمولی بنانے] کی کوششیں اس وقت عروج کو پہنچیں جب سنہ 2016ء میں سعودی عرب کے سبکدوش انٹیلی جنس افسر جنرل انور عشقی (2) کی قیادت میں اعلی سعودی اشرافیہ کے وفد نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کرکے ناجائز صہیونی ریاست کے حکام کے ساتھ ملاقات اور “عربی امن” کے عنوان سے بات چیت کی۔ اس وفد نے اسرائیلی وزارت خارجہ کے سیاسی امور کے ڈائریکٹر جنرل “دورے گولڈ” اور “مقبوضہ سرزمین میں یہودی حکومت کے رابطہ کار “جنرل یوآو مُردخائے” (Yoav Mordechai) اور اسرائیلی پارلیمان یا کنیسٹ (Knesset) کے متعدد اراکین سے بھی ملاقاتیں کیں۔ (3)
عبدالحمید حکیم اسی وفد کا رکن تھا جو جون 2017ء کو اسرائیلی ٹیلی ویژن کے اسکرین پر ظاہر ہؤا اور اس کے اس عمل نے بہت سے عربوں کو جھٹکا دیا، کیونکہ یہ پہلا سعودی تجزیہ نگار تھا جو اسرائیلی ذرائع ابلاغ پر دکھایا دے رہا تھا۔ عبدالحمید حکیم نے قطر کے ساتھ سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کے خاتمے کے اسباب کے بارے میں اسرائیلی ٹیلی ویژن کے چینل 2 کے ساتھ گفتگو کی تھی۔
صہیونی ریاست کے انٹیلیجنس کے وزیر یسرائیل کاٹز (Yisrael Catz) نے اعلانیہ طور پر سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز سے مطالبہ کیا تھا کہ اس ریاست کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو سعودی عرب کا سرکاری دورہ کرنے کی دعوت دیں۔ اس کا کہنا تھا کہ “تل ابیب تعلقات معمول پر لانے کے عوض سعودی عرب اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں کو سلامتی اور معلومات کے سلسلے میں شراکت داری کی تجویز دے سکتا ہے”۔
واشنگٹن میں مقیم اسرائیلی سفیر ڈانیل بی شاپیرو (Daniel B. Shapiro) کے مطابق “اسرائیل اور سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک کے درمیان خاموشی کے ساتھ پس پردہ ہم آہنگیاں جاری ہیں جو عام طور پر حفاظتی اور معلوماتی تعاون پر مشتمل ہیں، تاہم اس تعاون کو اس لئے خفیہ رکھا جارہا ہے کہ عرب دنیا کی رائے عامہ کے نزدیک اسرائیل غیر مقبول ریاست ہے”۔
یہودی ریاست کے وزیر توانائی یووال استائنیتز (Uuval Steinitz) نے ریڈیو اسرائیل سے کہا: “ہمارے بہت سے عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں جو درحقیقت قدرے خفیہ ہیں اور ہم وہ نہیں ہیں جو ان تعلقات سے شرمندہ اور خجلت زدہ ہیں!”۔ اس کا کہنا تھا “دوسرا فریق چاہتا ہے کہ یہ تعلقات خفیہ اور خاموش رہیں، ہمارے خیال میں اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن ہم فریق مقابل کی خواہش کا احترام کرتے ہیں، چاہے وہ سعودی عرب ہو یا دوسرے عرب اور مسلم ممالک۔ یہ تعلق اور تعاون اس سے بھی وسیع تر ہے لیکن ہم اس کو صیغۂ راز میں رکھتے ہیں”۔
یقینا یہ ایک منصوبہ بند پروگرام ہے، سعودی اور یہودی ریاستوں کے درمیان تعاون پر مبنی سرگرمیاں بہت وسیع ہیں، کیونکہ جو ممالک مشترکہ طور پر معلوماتی اور حفاظتی تعاون کرتے ہیں ان کے درمیان ہونے والی دوطرفہ سرگرمیوں کو بہت وسیع ہونا چاہئے یہاں تک کہ یہ تعاون سلامتی اور معلوماتی تعامل تعاون کی سطح پر پہنچ سکیں۔ قاعدہ یہ ہے کہ حکومتیں ابتداء میں ثقافتی، معاشرتی اور سیاسی شعبوں میں سرگرمیاں دکھاتی ہیں اور آخرکار سلامتی کے شعبوں میں تعاون تک پہنچتی ہیں۔ قاعدے کے مطابق، مذکورہ شعبوں میں سعودی-یہودی مشترکہ سرگرمیاں – خفیہ طور پر – برسہا برس پہلے شروع ہوچکی ہیں اور آج یہ سرگرمیاں طشت از بام ہورہی ہیں۔ بالفاظ دیگر حفاظتی اور معلوماتی شعبوں میں تعاون دوسرے شعبوں سے مؤخر ہوتا ہے، اور جن دو ملکوں میں اس سطح کا تعاون پایا جاتا ہو، وہ یقینی طور پر دوسرے شعبوں میں وسیع تعاون کی مشق پہلے ہی کرچکے ہوتے ہیں۔
حفاظتی اور معلوماتی شعبوں میں تعاون کی بعض مثالیں
– سنہ 2013ء میں امریکہ نے دنیا کے تیس ممالک کے ساتھ خلیج فارس میں بحری مشقوں کا اہتمام کیا تو اسرائیل نے سعودیوں اور اماراتیوں کو پیراشوٹنگ، تیراکی، اور سیکورٹی و انٹیلی جنس مینجمنٹ کی تربیت دی۔
– ویکی لیکس نے فاش کیا کہ سعودیوں نے یہودی ریاست کے بدنام جاسوسی ادارے “موساد” کے ساتھ سلامتی امور کے سلسلے میں ایک ارب ڈآلر کے معاہدے کی تجویز دی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق، موساد سعودی خفیہ ادارے کے معلومات اکٹھی کرنے میں مدد اور ایران کے بارے میں مشورہ دے کر مدد اس ادارے کی مدد کرے گی۔
– سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان معلوماتی تعاون کی ایک جھلک (سعودی عرب پر تنقید کرنے والے) واشنگٹن پوسٹ کے سعودی کالم نگار جمال خاشقجی (خشوگی) کے بھیانک قتل کی صورت میں دکھائی دی۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، جمال خاشقجی کے ایک دوست اور سعودی حکومت سے ناراض شخص نے اسی حوال سے صہیونی ریاست کی سافٹ ویئر تیار کرنے والی کمپنی کے خلاف شکایت کی ہے اور الزام لگایا ہے کہ اس کمپنی نے خاشقجی کے موبائل فون کی جاسوسی کرکے اس کے بارے میں معلومات سعودی بادشاہی کے دفتر کو فراہم کی ہیں اور ان معلومات سے خاشقجی کے قتل میں فائدہ اٹھایا گیا ہے۔
– سعودی-یہودی حفاظتی اور معلوماتی تعاون کا اہم حصہ ایران کے خلاف ہے۔ عرب ویب گاہ “الخلیج آنلائن” کی رپورٹ کے مطابق غاصب ریاست کے چیف آف ملٹری اسٹاف جنرل گادی آئزنکوٹ (Gadi Eizenkot) نے 15 نومبر سنہ 2017ء کو، سعودی آنلائن روزنامے “ایلاف” (4) کے ساتھ اپنے مکالمے میں ایران کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے، سعودی عرب کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا۔
آئزنکوٹ نے کہا: “اسرائیل اور سعودی عرب علاقے میں ایران کی نیت کے حوالے سے، متفق القول ہیں”۔ اس نے ایران کو “علاقے میں سب سے بڑا اور حقیقی خطرہ” قرار دیا اور کہا: “ایران شیعہ ہلال تشکیل دے کر، لبنان سے ایران تک اور خلیج فارس سے لے کر بحر احمر تک، پورے مشرق وسطی پر تسلط جمانا چاہتا ہے اور ہمیں اس پروگرام کے عملی جامہ پہننے کی راہ میں رکاوٹ بننا پڑے گا”۔
– یہودی ریاست وزیر توانائی یووال استائنیتز نے بھی 19 نومبر 2017ء کو ایک قدم آگے بڑھ کر سعودی عرب کے ساتھ خفیہ تعلقات کی خبر دیتے ہوئے کہا: “یہ دوسرا فریق ہی جو تعلقات کو خاموش رہنے پر اصرار کرتا ہے؛ تعلقات کے فاش ہونا ہمارے لئے مسئلہ نہیں ہے”۔ اس نے اپنے اظہار خیال کے ضمن میں جتا دیا کہ یہودی-سعودی مشترکہ مفادات کا مرکز ایران دشمنی ہے؛ اور کہا: “عرب دنیا کے “معتدل” حصے بشمول سعودی عرب کے ساتھ رابطے، ایران کی پیشقدمی روکنے میں ہماری مدد کرتے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو اسد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ The Hatred’s Kingdom: How Saudi Arabia Supports the New Global Terrorism
2۔ جنرل انور عشقی برسوں سے سعودی وزراء کونسل کے مشیر کے طور پر کام کرتا رہا ہے اور فی الحال جدہ میں “مشرق وسطی کے تزویراتی اور قانونی مطالعات مرکز” (Center for Strategic and legal studies of the Middle East) کا سربراہ اور یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔
3۔ سعودی ذرائع ابلاغ، سعودی وفد کے دورہ اسرائیل کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں اور رپورٹوں کی تردید کرتے ہیں لیکن انہیں اس وقت عجیب خفت کا سامنا کرنا پڑا جب جنرل انور عشقی نے اپنے دورہ اسرائیل کی تصدیق کردی اور کہا: “خودمختار فلسطینی اتھارٹی نے مجھے مشرق وسطی کے تزویراتی اور قانونی مطالعات مرکز کے سربراہ کی حیثیت سے رام اللہ کے دور کی دعوت دی تاکہ عربی امن کے منصوبے اور اس کے احیاء کے امکانات کے بارے میں فلسطینی حکام کے ساتھ بات چیت کروں۔ اس دورے میں، میں نے بیت المقدس کو بھی دیکھا اور مسجد الاقصی میں نماز بھی پڑھی۔ بعدازاں فلسطینی بھائیوں نے ہمیں رات کے کھانے پر بلایا۔ “دورے گولڈ” بھی اس ضیافت کے شرکاء میں شامل تھا۔ رام اللہ میں اسرائیلی پارلیمان کے کچھ عرب اراکین بھی مجھ سے ملنے آئے اور ہم نے امن اور صلح کے بارے میں بات چیت کی۔ یہ وہ سب کچھ تھا جو وہاں واقع ہؤا!!!”۔
انور عشقی کا اصرار ہے کہ اسرائیلیوں کے ساتھ اس کی ملاقاتیں سب ذاتی نوعیت کی تھیں اور ان ملاقاتوں کا سعودی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے!!!۔
جناب عشقی اس سے قبل، جون 2015ء میں بھی واشنگٹن میں “خارجہ تعلقات کونسل انسٹی ٹیوٹ” میں ایک خصوصی نشست میں “دورے گولڈ” کے پہلو بہ پہلو دکھائی دیا۔ اس نے اس نشست سے خطاب کیا اور ان سرگرمیوں کی طرف اشارہ کیا جو اس کے بقول ایران علاقے کو غیر مستحکم کرنے اور عرب ممالک کے خلاف، انجام دیتا رہا ہے۔ اس نے یہ بھی دعوی کیا کہ اسلامی جمہوریہ کی کوشش ہے کہ انقلاب اسلامی کو عرب ممالک میں برآمد کرے اور “فارسی سلطنت” کو ایک بار پھر زندہ کرے۔
4۔ ایلاف نامی آنلائن روزنامے کا ہیڈکوارٹر لندن میں واقع ہے اور اس کا مالک عرب دنیا کے مشہور روزنامے الشرق الاوسط کا سابق چیف ایڈیٹر “عثمان عمیر” ہے۔ الشرق الاوسط سعودی خاندان کی ملکیت ہے اور یہ روزنامہ لندن سے شائع ہوتا ہے۔ صہیونی اخبار “ہا آرتص” (Haaretz) کی رپورٹ کے مطابق “روزنامہ ایلاف حالیہ برسوں میں اسرائیل اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں کے درمیان خفیہ چینل کا کردار ادا کررہا ہے”۔