سفاک اسرائیل سے جنگ بندی کی بھیک کیوں؟

آج کل رفح میں یہی سب کچھ تو ہو رہا ہے، مگر اس سب پر ہم سب مل کر فقط آنسو بہانے میں مصروف ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل صرف ایک زبان سمجھتا ہے اور وہ میزائلز کی زبان ہے، وہ زبان طاقت کی زبان ہے، وہ زبان جو ایران نے اسے دکھائی ہے، وہ زبان جو لبنان نے مزاحمت سے اسے سمجھائی ہے، وہ زبان جو اہل یمن اسے دکھا رہے ہیں۔

فاران: ہم پہلے دن سے ایک ہی موقف رکھتے ہیں کہ اسرائیل کا وجود سراپا ناجائز ہے، یہ مکمل ظلم کا نام ہے، کسی بھی ناجائز وجود کو دنیا کے نقشے پر موجود رہنے کا کوئی حق نہیں، یہ کامل و اکمل خاتمے کا تقاضا رکھتا ہے، اس کے ہر ظلم کا حساب چکانا امت پر لازم ہے۔ نہ صرف اسرائیلی مظالم کا حساب چکانا ضروری ہے بلکہ اسرائیل کے حامی، مددگار، اس کے سرپرست چاہے امریکہ ہو یا کوئی مسلمان ملک، اس کو اسرائیلی بدترین جرائم کی سزا دینا ہر باغیرت مرد و زن پہ لازم ہے۔ اسرائیل جتنے بھی ظلم کرتا آرہا ہے اور آج تک کیے ہیں، ان سب میں امریکہ اس کا شریک ہے۔ امریکہ آج بھی جب اس ناجائز وجود نے رفحہ پر بدترین یلغار کر رکھی ہے، پہلے سے اجڑے خیمہ بستیوں میں مقیم مہاجر فلسطینیوں پر جو بم گرائے جا رہے ہیں، وہ امریکہ کے فراہم کردہ ہیں۔

امریکہ کے عہدیدار امریکی عوام بالخصوص امریکی یونیورسٹیز کے طلباء کی تمام تر مہم و مظاہروں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اسرائیل کے دفاع اور فلسطینیوں کی بربادی میں پیش پیش ہیں۔ فلسطینی مزاحمتی تنظیموں بالخصوص حماس و جہاد اسلامی نے مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔اس مزاحمت کے نتیجے میں دنیا میں بیداری، اہل غزہ کی حمایت، مدد اور عالمی سطح پر کمپین چلی ہیں۔ اسرائیل کے حامی مغربی سیاستدانوں چاہے ان کا تعلق حکمران جماعتوں سے ہو یا دوسری جماعتوں سے، ان کا جینا اور چلنا پھرنا دشوار ہو چکاہے۔ اگر حقایق کو دیکھا جائے تو اہل مغرب نے فلسطینیوں، اہل غزہ کی حمایت میں جتنے مظاہرے، احتجاج، ریلیز اور گرفتاریاں، شیلنگ برداشت کرتے ہوئے اس اہم ترین ایشو کو زندہ رکھا ہے۔

یہ غزہ کی بہت بڑی مدد کے مترادف ہے، جس کے اپنے اثرات ہیں، ان اثرات کا اپنا دائرہ ہے، جو تاریخ کے اوراق میں نمایاں اور روشن دیکھا جاتا رہیگا، جبکہ اسی دور میں مسلمان ممالک میں جنہیں امت کی سربراہی و قیادت کا شوق ہے، جو اسلام و مسلمین کے بڑے مدافعان بنتے ہیں، ان کا بھیانک و منافقانہ کردار بھی آنے والی نسلوں کو یاد رہیگا۔ تاریخ ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے اور ان پر لعن طعن کرتی آرہی ہے۔ اس وقت ایک نئی سازش پر تیزی سے عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔ لگتا ہے کہ عالمی کردار و مسلمان ممالک میں ان کی لابیز اس پلان پر جلد از جلد عمل کروانے کیلئے سر جوڑ چکے ہیں۔ یہ پلان فلسطینیوں کی ییٹھ میں چھرا گھونپنے جیسا ہے۔

دو ریاستی حل کا پلان، اب کھل کے سامنے آچکا ہے، دو ریاستی حل کا مطلب ہے کہ اسرائیل کا وجود قبول کیا جائے، اب وہ کہاں تک ہے، کون کون سی جگہیں، کون کون سے شہر اور بستیاں، کون سے مقامات اسرائیل نامی ناجائز ریاست میں ہونگے۔ قبلہ اول کس کے پاس ہوگا۔ دو ریاستی حل کا واضح مطلب ہے، اہل فلسطین کے بنیادی موقف سے انحراف، وہ موقف جس کی بنیاد پر آج تک جنگ جاری ہے، وہ موقف جس کیلئے لاکھوں قربانیں دی جاچکی ہیں اور چھتر برس سے میدان سجا رکھا ہے، دو ریاستی حل کا مطلب ایک ڈور کو سلجھانا ہے، جس کا سرا ہی نہیں مل سکتا۔

اس پلان کے مطابق آج ایک طرف بعض ممالک فلسطین کو الگ ریاست تسلیم کر رہے ہیں، جس پر بہت سے ممالک بغلیں بجا رہے ہیں اور خوشی سے سنبھالے نہیں جا رہے اور دوسری طرف بہت سے مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے بے چینی دکھا رہے ہیں۔ اصل ایشو یہی ہے کہ مسلمان ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کروا لیا جائے۔ سعودی عرب کے آل سعود کے حکمرانوں نے ہمیشہ فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ سعودیہ نے ہی مصر میں اخوان کی حکومت ختم کروا کر مرسی کو پھانسی دلوائی اور ایک بدترین ڈکٹیٹر مسلط کیا، جس کی مکمل سرپرستی امریکہ کیساتھ سعودیہ کر رہا تھا۔ آج مصر فلسطینی مہاجرین کے راستے کی دیوار بنا ہوا ہے، آج مصر فلسطینیوں کی امداد اہل غزہ کے مظلوموں تک پہنچانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

اس وقت دو ریاستی حل کے نام پر اسرائیل کو مزید محفوظ و مقبول بنوانا مقصود دکھائی دیتا ہے، اسرائیل تو کبھی کسی معاہدے کا پابند نہیں رہا، اس کی کہہ مکرنیوں کا لمبا ریکارڈ ہے۔ حالیہ سات اکتوبر کی جنگ سے لیکر بھی اب تک اپنے قیدیوں کی رہائی کے عنوان سے ہونے والے مذاکرات میں اپنی کہی باتوں سے مکرنا اس کا معمول ہے، جب اس پر اپنی عوام کا پریشر آتا ہے تو مذاکرات کا شوشہ چھوڑ دیتا ہے، عوام جب روڈز پر آتی ہے اور حکمرانوں کا گھیرائو کرتی ہے تو مذاکرات کی بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے، مگر اسی دوران بدترین بمباری اور جارحیت کا ارتکاب کرتا ہے۔ اپنی سفاکیت، اپنی درندنگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ بچوں کو قتل کرتا ہے، معصوموں کا خون کرتا ہے، اسپتالوں کو برباد کرتا ہے، علاج گاہوں کو تاراج کرتا ہے، مہاجر بستیون کو بارود و آگ سے جلا کر بھسم کر دیتا ہے۔

آج کل رفح میں یہی سب کچھ تو ہو رہا ہے، مگر اس سب پر ہم سب مل کر فقط آنسو بہانے میں مصروف ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل صرف ایک زبان سمجھتا ہے اور وہ میزائلز کی زبان ہے، وہ زبان طاقت کی زبان ہے، وہ زبان جو ایران نے اسے دکھائی ہے، وہ زبان جو لبنان نے مزاحمت سے اسے سمجھائی ہے، وہ زبان جو اہل یمن اسے دکھا رہے ہیں۔ وہ زبان جو عراقی مقاومت اسے دکھاتی ہے، یہ وہ زبان ہے، جسے کئی بار حماس کو دکھانے کا موقعہ ملا تو اسے جھکنے پر مجبور کر دیا، وگرنہ اسرائیل نامی درندے، سفاک قاتل، بدمست جنگلی ہاتھی نے کھیت دیکھے نا کھلیان، کھڑی فصلیں دیکھیں نا گھر بار، محلے دیکھے نا اسپتال، اسکول دیکھے نا پرامن عوام، ہر ایک جگہ اس کی درندگی ہی دیکھی گئی۔

آج بھی اسرائیل کا ایک ہی علاج ہے کہ سب مل جائیں، ایک مٹھی بن جائیں اور جارحیت، درندگی، سفاکیت، جنونیت، تجاوز کو طاقت سے اور قوت سے نابود کر دیا جائے، مذاکرات کی بھیک تو اسرائیل مانگتا نظر آنا چاہیئے، جبکہ ہم مظاہرے کرتے ہیں کہ جنگ بند کی جائے، مذاکرات کیے جائیں، ہم اپیلیں کرتے ہیں، ہم دعائیں کرتے ہیں کہ جنگ رک جائے۔ ہمیں اپنی اس سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ مذاکرات اور دو ریاستی حل والے دراصل اسرائیل کو تسلیم کروانے چلے ہیں، ان سے بچنے اور فلسطین کو بچانے کی ضرورت ہے۔