سلیمانی سلیمانی کیونکر بنے؟/ مکتب سلیمانی اقوام عالم کے لئے کارساز

حقیقت یہ ہے کہ جنرل سلیمانی کی سوچ اور ان کا عمل اسلامی انقلاب کی فکر اور فکری نظام کے دوسرے ممالک میں برآمد ہو کر عالمگیر ہوجانے کی بنیاد بنا اور اس فکری نظام نے بہت گہرے اور زندہ جاوید اثرات مرتب کئے۔ اگر ایک قوم اپنی قومی صلاحیتوں کو میدان میں لائے یا اگر مختلف اقوام و مذاہب کے ہوتے ہوئے قومی یکجہتی قائم کرنا چاہے یا اگر اسے کسی جابر و ظالم قوت کا سامنا ہو اور وہ اس پر غلبہ پانا چاہے یا اگر وہ ایک پرامن اور محفوظ اور خوش و خرم علاقائی ماحول بنانا چاہے تو مکتبِ سلیمانی اس کے سامنے ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شاندار اور حیرت انگیز کامیابی ان کی باطنی کامیابی کی عکاسی کرتی ہے۔ فتح المبین ابتداء میں انسان کے باطن میں حاصل ہوتی ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر الحاج قاسم کی کامیابیوں کی وسعتیں ان کی باطنی وسعت کی عکاس ہیں۔ اللہ کی بندگی دشوار لڑائیوں میں اس شہید کا سرمایہ اور خُلقِ عظیم ان کا چراغ راہ تھا۔ باطن میں خود کو نہ دیکھنا، ان کے لئے بیرونی دنیا کے راستے کھلنے کا سبب تھا۔ یہی شہید سلیمانی کی قومی ہردلعزیزی اور بین الاقوامی عظمت کا راز تھا؛ جیسا کہ امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالی) نے ایک مختصر سی عبارت کے ضمن میں فرمایا: “مکتبِ سلیمانی صدق و اخلاص سے عبارت ہے؛ یہی مکتب سلیمانی کی علامت اور یہی اس کا خلاصہ ہے۔ وہ دیکھے جانے سے گریزاں تھے، کیوں؟ اس لئے کہ دیکھے جانے سے ان کا اخلاص خطرے سے دوچار ہوسکتا تھا۔ شہید نے اللہ کے ساتھ رازونیاز کرتے ہوئے مسلسل جاری آنسؤوں کی ایک حفاظتی دیوار کھڑی کردی تھی جس کے ذریعے وہ اپنے اخلاص کی حفاظت کرتے تھے۔ اسی بنا پر جب انہیں بڑی ذمہ داریاں سونپی جاتی رہیں تو ان کے راز و نیاز، توسل اور اشک ریزی میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ اور دوسری طرف سے اپنی منکسرالمزاجی اور بےریائی کے بموجب ان کی جلوہ گریوں میں بھی اضافہ ہوتا رہا بغیر اس کے کہ اپنی منکسرالمزاجی دوسروں کو دکھانے کی کوشش کرتے۔
شہید نے اپنے گرد و پیش کے ماحول میں دو قسم کے لوگوں کے ساتھ دو مختلف اور نہایت مضبوط رویہ اپنایا: ہر قوم، ہر ملت اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے “خدا کے بندوں” کے لیے وہ “رُحَمَاء بَيْنَهُمْ” کا اور ہر قوم و ہر ملت و مذہب سے تعلق رکھنے والے متکبر اور سرکش طاغوتوں کے لیے “أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ” (1) کا مصداق تھے۔ یتیموں کو دیکھ کر بلک جاتے تھے، گریاں ہو جاتے تھے اور ان کے لئے جو بھی ممکن ہوتا تھا، کر لیتے تھے۔ ان امور میں ان کی منکسرالمزاجی دیدنی تھی اور عالمی مستکبرین کے مقابلے میں “جلتا ہؤا لوہا” تھے اور اپنے آپ کو تن تنہا ان کا حریف اور ہم آورد سمجھتے تھے؛ ان کا مشہور جملہ: “جناب جؤاباز ٹرمپ، میں تیرا حریف ہوں، آجاؤ” استکبار شکنی کا ایک جلوہ تھا۔
ان کے مکتب، آداب، مسلک اور منطق میں کئی کلیدی عناصر تھے اور ان ہی عناصر نے انہیں ہم عصر ہیر‎ؤوں سے ممتاز کردیا تھا:
1- معنوی (روحانی) تفکر کا عنصر
روحانیت شہید سلیمانی کی سب سے نمایاں خصوصیت تھی۔ یہ روحانی سوچ توحید سے توحید تک کے سفر سے عبارت تھی اور ان کے توحیدی سفر کا عروج “شہادت” تھا۔ ان کی جان و روح میں شہادت کی تمنا ابتدائے جوانی سے رچی بسی تھی اور جیسا کہ وہ خود بھی کہا کرتے تھے، شہیدانہ جیتے تھے اور شہادت پانے کے شوق میں؛ اور اسی تمنا اور اسی شیوۂ حیات نے ان کے باطن کو مکمل طور پر روحانی اور معنوی بنا دیا تھا۔ شدیدترین واقعات کے بیچ میں گھس جاتے تھے اور بدیوں سے متاثر نہیں ہوتے تھے بلکہ اپنے نور سے ان کی اصلاح کرتے تھے یا راستے سے ہٹا دیتے تھے۔ یہ ان کی چالیس سالہ مجاہدت کی کہانی ہے۔ اپنے نور سے کئی لوگوں کو جہنم میں گرنے سے نجات دلائی؛ بہت سے لوگوں کو اسلامی انقلاب اور دین خدا کی راہ دکھائی۔ وہ اپنی روشنی سے بہت سی پلیدیوں کی نشاندہی کر دیتے تھے اور “راستے” سے ہٹا دیتے تھے۔ معنوی تفکر کا عنصر ان کے سامنے تمام ناممکنات تک پہنچنے کا راستہ ہموار کردیتا تھا۔ جس وقت وہ سنہ 2004ع‍ میں، امریکی قابضوں سے نمٹنے کے لئے عراق چلے گئے اور انہیں ائمۂ معصومین (علیہم السلام) کی مقدس سرزمین کو امریکی غلاظت سے پاک کرنے کا مشن ملا تو امریکی عظمت اور طاقت سے مرعوب نہیں ہوئے اور اپنی طاقت اور تعداد کی قلت سے مایوس اور متذبذب نہیں ہوئے۔ ان کا عزم تھا کہ عراق کو طاغوتی جارحین کی غلاظت سے پاک کرنا چاہئے اور انہیں یقین تھا کہ یہ کام ممکن ہے اور یہ کہ یہ ایک مشن ہے جس کی تکمیل ان کے ذمے ہے۔ چنانچہ انھوں نے طاقت کے ساتھ عراق کی آزادی کا مشن سنبھال لیا اور مختصر سے عرصے میں اس مشن کو مکمل کرلیا۔ جب سنہ 2014ع‍ میں عراق امریکہ سے وابستہ اور امریکہ کے علاقائی کٹھ پتلیوں کی حمایت یافتہ تکفیری جماعتوں کے فتنۂ کبری سے دوچار ہؤا اور جنرل سلیمانی نے امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالی) کی طرف سے حکم ملا کہ عراق کو مغربی-عبرانی-غربی محاذ سے چھڑا دیں تو بھی انھوں نے اس مشن کو اہم اور ممکن قرار دیا اور یہی سمجھ لیا کہ نئی صورت حال سے نمٹنا بھی ان ہی کا مشن ہے؛ حالانکہ اُسی اثناء میں وہ شام میں بھی تکفیریوں کی بغاوت اور ان کے پیدا کردہ سلامتی کے بحران سے نبردآزما تھے۔ امریکی قابضوں اور تکفیری دہشت گردوں کا مقابلہ جنرل قاسم سلیمانی ان کے معنوی تفکر کا ثمرہ تھا، اور ان دو انتہائی دشوار میدانوں میں ان کی کامیابی بھی ان کی روحانیت ہی کا نتیجہ تھی۔ ان کی روحانیت ہی تھی جسے جب کبھی کسی محفل و مجلس میں بیان کیا جاتا تھا، ہزاروں افراد کے دلوں اور فکروں کو روحانیت و معنویت سے نورانی کر دیتی تھی اور ہزاروں افراد شہادت کے مشتاق ہوکر اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے مشکل میدانوں میں کود پڑتے تھے۔
2- تعمیل و نفاذ پر ارتکاز کا عنصر
اچھے منصوبوں کی کوئی کمی نہیں ہے، قوی اور کامل متون و نصوص کی بھی کوئی کمی نہیں ہے لیکن ان سارے منصوبوں اور متون کی کامیابی کا دارومدار نفاذ اور تعمیل پر ہے۔ الحاج قاسم سلیمانی اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے تھے اور نئی قابلیتوں کی تخلیق کرتے تھے، ہر مسئلے کے تمام پہلؤوں کا باریک بینادہ مطالعہ کرتے تھے۔ رکاوٹوں کو بہت اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے؛ اور فراست و ذکاوت کے ساتھ میدان میں اترتے تھے۔ “تیز رفتار اور مکمل جمع کاری (adding up)” کے سلسلے میں ان کی صلاحیت بےمثل تھی اور اسی حال میں ہر کام کی جزئیات و تفصیلات کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ شہید الحاج قاسم سلیمانی فرائض کی تقسیم پر یقین رکھتے تھے اور اسی حال میں ماتحت افواج کے ہر عمل کے آگے جوابدہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ وہ موصولہ رپورٹوں کو اپنے “اور اپنے ادراکات اور ماخوذہ نتائج” کو ملا دیتے تھے اور پورے اعتماد کے ساتھ تزویراتی حکمت عملی کے نفاذ کے لئے تدبیر و انتظام کرتے تھے اور خطرناک حوادث کے اندر پہنچ جاتے تھے اور اپنے متعینہ نظام الاوقات میں مقصد کو حاصل کر لیتے تھے۔ میدان کے اندر یہ قائدانہ صلاحیت مشن کی تکمیل کے مصارف و اخراجات کو بہت حد تک کم اور حاصل کردہ فوائد میں اضآفہ کر دیتے تھے؛ ایک انتہائی روحانی اور انتہائی پرعزم شخصیت تھے۔ مد مقابل محاذ اس خصوصیت سے محروم تھا اور اس کے فیصلے بھی گہرائی نہیں رکھتے تھے۔ امریکہ انتہائی تکبر کے ساتھ عراق پر جارحیت کا مرتکب ہؤا۔ سینئر امریکی کمانڈروں کے بقول اس نے کھربوں ڈالر عراق میں خرچ کئے، ایک لاکھ عراقیوں کا قتل عام کیا، اور دسیوں لاکھ عراقیوں کو زخمی اور معذور کردیا اور امریکہ کے اپنے بقول 5000 امریکی بھی عراق میں مارے گئے، اور آخرکار خفت و ذلت کے ساتھ عراق سے نکلنا پڑ رہا ہے اور جو کچھ اس نے حاصل کیا وہ صرف اور صرف امریکہ سے عراقی عوام کی شدید نفرت تھی۔ یہ سب بنی نوع انسان کے لئے – اور بالخصوص علمی اور سیاسی مراکز – کے لئے ایک عملی سبق ہے۔ جو لوگ حکمرانی کے میدان میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور کامیابی کے رازوں سے واقف ہونا اور کامیابی کی رکاوٹوں کو پہچاننا چاہتے ہیں، وہ عراق میں سامراجی محاذ اور اسلامی مقاومت کی مبارزت کو غور سے دیکھیں۔
3- مقبولیت (Acceptability) کا عنصر
شہید سلیمانی کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر کافی پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ مقبولیت نہ صرف کامیابی کا ایک ذریعہ ہے بلکہ یہ مشروعیت (Legitimacy) کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ مقبولیت، طاقت اور طاقتور نظام کے استحکام کے چار عناصر میں سے ایک ہے۔ بالفاظ دیگر اقتدار کا اخلاقی عنصر – یعنی “مقبولیت” – اگر نہ ہو یا کام کے دوران مخدوش ہوجائے، اقتدار بھی چلا جاتا ہے۔ یہ موضوع قومی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی صادق ہے۔ مقبولیت کا عنصر باقی تین پہلؤوں کی کمزوریوں کی ازالہ کرتا ہے جن میں رائے قائم و نافذ کرنے کی طاقت، مد مقابل دھاروں پر قابو پانے کی طاقت اور مناسب تنظیمیں قائم کرنے کی طاقت شامل ہے۔ اور مقبولیت کا فقدان باقی تینوں پہلؤوں کو بھی ناکارہ کر دیتا ہے۔
جنرل سلیمانی نے عراق، شام، لبنان، فلسطین، یمن اور افغانستان میں کردار ادا کیا۔ ان سارے محاذوں پر وہ “برادرانہ” انداز سے داخل ہوئے نہ کہ بالادستانہ (Hegemonic) انداز سے، اسی بنا پر ان ممالک میں ان کے مخالفین بھی انہیں خراج تحسین پیش کرتے تھے اور ان کی مقبولیت اور ہردلعزیزی کا انکار نہیں کرسکتے تھے۔ دیانتداری کی بات ہے کہ وہ حقائق بیان کرنے اور بحث کے فریقوں کو قائل کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ طریقۂ کار کے اعتبار سے بااثر رہنماؤں اور گروہوں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں، وہ سب سے پہلے، ان کے سامنے صورت حال کی تفصیلات نہایت باریک بینی کے ساتھ بیان کرتے تھے اور بعدازاں مشکل اور پریشانی سے نکلنے کا راستہ دکھا دیتے تھے اور تیسرے مرحلے میں منصوبہ پیش کرتے تھے اور امکانات اور وسائل میدان میں لاتے تھے، اور فتح و نصرت کو ان کے درمیان تقسیم کر دیتے تھے تاکہ کوئی بھی خود کو فریب خوردہ نہ سمجھے اور ان کے کردار کی قدردانی کا حق ادا کیا جائے۔ یہ ایک بہت اہم انتظامی سبق ہے اور بڑی کامیابیوں کی بنیادی کنجی ہے۔
4- عالمگیریت کا عنصر
سیاسی ادب میں عالمگیریت بالادستی کا مظہر ہے اور یہ شہید کی اخلاقی اور معنوی روح اور اخلاقی تربیت سے متصادم تھا؛ لیکن اس کے باوجود سردار سلیمانی کی سوچ اور طرز عمل اس لحاظ سے عالمگیر ہوگیا اور وہ یوں کہ ان کی فکر و روش ایک وسیع جغرافیے میں سیاسی ڈھانچے اور بہت سے جغرافیائی علاقوں میں “مؤثر حل” کی صورت میں ابھری۔ شہید سلیمانی کی فکر اور راہ و روش نہ صرف خطے کے ممالک میں اور مسلم اقوام کے درمیان ایک حکومت ساز جلوے کی صورت میں مستقر ہوئی بلکہ بہت سے عیسائی اور غیر عیسائی معاشروں اور لاطینی امریکہ سمیت کئی علاقوں میں بھی حکومت سازی کے عملی نمونے میں تبدیل ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل سلیمانی کی سوچ اور ان کا عمل اسلامی انقلاب کی فکر اور فکری نظام کے دوسرے ممالک میں برآمد ہو کر عالمگیر ہوجانے کی بنیاد بنا اور اس فکری نظام نے بہت گہرے اور زندہ جاوید اثرات مرتب کئے۔ اگر ایک قوم اپنی قومی صلاحیتوں کو میدان میں لائے یا اگر مختلف اقوام و مذاہب کے ہوتے ہوئے قومی یکجہتی قائم کرنا چاہے یا اگر اسے کسی جابر و ظالم قوت کا سامنا ہو اور وہ اس پر غلبہ پانا چاہے یا اگر وہ ایک پرامن اور محفوظ اور خوش و خرم علاقائی ماحول بنانا چاہے تو مکتبِ سلیمانی اس کے سامنے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: سعد اللہ زارعی، روزنامہ کیہان
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1. ارشاد رب متعال ہے: “مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ؛
محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو ان کے ساتھی ہیں، وہ کافروں کے مقابلے میں بہت سخت، آپس میں بڑے رحم اور ترس والے ہیں”.
(سورہ فتح، آیت 29)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔