سیاسی و سماجی پہلووں سے اسرائیل کے زوال کا جائزہ

حریف سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی اختلافات معمول کی بات ہے اور اس کا حتمی نتیجہ کسی ریاست کا خاتمہ نہیں ہو سکتا لیکن جب صیہونی حکمران اپنی رژیم کی حدود سے بڑھ کر آپس میں اختلافات رکھتے ہیں تو نتیجہ مختلف ہو سکتا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اسحاق ہرتزوگ سمیت غاصب صیہونی رژیم کے کچھ اعلی سطحی حکومتی عہدیداروں نے اس حقیقت کا اعلانیہ طور پر اعتراف کیا ہے کہ اس رژیم کو درپیش موجودہ صورتحال، رونما ہونے والے غیر قابل کنٹرول اختلافات اور وزیراعظم کی یکہ تازیوں کا انجام غاصب رژیم کی نابودی اور مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر یہودی ریاست کے خاتمے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ حریف سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی اختلافات معمول کی بات ہے اور اس کا حتمی نتیجہ کسی ریاست کا خاتمہ نہیں ہو سکتا لیکن جب صیہونی حکمران اپنی رژیم کی حدود سے بڑھ کر آپس میں اختلافات رکھتے ہیں تو نتیجہ مختلف ہو سکتا ہے۔ لہذا یہاں یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ صیہونی رژیم میں پائے جانے والے موجودہ اختلافات کیوں اس کی نابودی کا باعث بنیں گے؟ اس سوال کا جواب پانے کیلئے چند ایک اہم نکات کی جانب توجہ ضروری ہے۔

1)۔ اسرائیل میں سیاسی جماعتوں کے درمیان رونما ہونے والے اختلافات محدود پیمانے تک باقی نہیں رہے جنہیں محض “سیاسی مقابلہ بازی” قرار دیا جا سکے۔ یہ اختلافات ایک طرف اسرائیل کے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اختلافات میں تبدیل ہو چکے ہیں جبکہ دوسری طرف صیہونی معاشرہ بھی واضح طور پر دو حصوں میں بٹ کر گلی کوچوں میں ایکدوسرے کے خلاف صف آرا ہو چکا ہے۔ اگر کوئی اختلاف صرف چند سیاسی جماعتوں کے درمیان ہو تو قانون وضع ہو جانے کے بعد ختم ہو جاتا ہے کیونکہ روایتی سیاسی جماعتیں قانون کے مقابلے میں سر نہیں اٹھا سکتیں۔ روایتی سیاسی جماعتوں اور غیر روایتی سیاسی جماعتوں (اپوزیشن) کے درمیان فرق یہی ہے۔ ایک سیاسی نظام کی اپوزیشن قانون وضع ہونے کے خلاف بھی احتجاج جاری رکھتی ہے لیکن روایتی سیاسی جماعتیں اس وقت تک ایک بل کے خلاف اعتراض کرتی ہیں جب تک وہ قانون میں تبدیل نہ ہو جائے۔

گذشتہ دو برس سے اسرائیل میں وضع کئے گئے قوانین کی اکثریت ایسی ہے جسے اکثر سیاسی جماعتیں ایک خاص سیاسی جماعت کا قانون قرار دیتی ہے اور اسے قومی حیثیت دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر گذشتہ ایک سال کے دوران اسرائیل کی مقننہ، عدلیہ اور مجریہ سیاسی جماعتوں کی حد تک نیچے آ گئی ہیں اور ان سے مخالفت کو ایک سیاسی جماعت سے مخالفت جیسا تصور کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی مقننہ کا ایک سیاسی جماعت کی حد تک نیچے آ جانے سے یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ “قانونی اور قومی ادارے کہاں چلے گئے ہیں؟”۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومت، اسرائیل کی حکومت نہیں ہے، پارلیمنٹ، اسرائیل کی پارلیمنٹ نہیں ہے اور ایسے ہی عدلیہ، اسرائیل کی عدلیہ باقی نہیں رہی۔ اسی بنیاد پر سابق صیہونی وزیر خارجہ اور “اسرائیل ہمارا گھر” نامی سیاسی جماعت کے سربراہ اویگڈور لیبرمین نے چینل 12 پر انٹرویو دیتے ہوئے تورات سے متعلق ایک نئے قانون پر اعتراض کیا تھا۔

اگر ہم گذشتہ چند ماہ میں صیہونی پارلیمنٹ کینسٹ میں منظور شدہ بلوں کا جائزہ لیں تو دیکھیں کے ان کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کی اکثریت بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں حکمران اتحاد کے اراکین کی ہے۔ اس اتحاد کے پاس 64 سیٹیں ہیں جبکہ مخالفین کے پاس 56 سیٹیں ہیں۔ مذکورہ بالا بلوں کی منظوری میں تمام 64 اراکین نے ان کے حق میں جبکہ تمام 56 اراکین نے ان کی مخالفت میں ووٹ کاسٹ کیا ہے۔ یہ درحقیقت وہی قومی قانون کے مقابلے میں ایک پارٹی کے قانون کا تصور ہے۔ صیہونی رژیم کے اعلی سطحی حکام اسی حقیقت کی جانب اشارہ کر رہے ہیں جس نے اسرائیل کو نابودی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ دوسری طرف مقبوضہ سرزمین میں گذشتہ 31 ہفتوں سے ہر اتوار کو وسیع پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین سمجھتے ہیں کہ حکومت، ریاست، کینسٹ، فوج اور سکیورٹی سسٹم کے اقدامات قابل قبول نہیں ہیں۔

2)۔ اسرائیل کے زوال کا ایک اور پہلو سماجی پہلو ہے۔ اسرائیل کی نسل پرست رژیم کبھی بھی حقیقی معنی میں عوامی اور جمہوری نہیں رہی۔ گذشتہ چند عشروں میں مقبوضہ فلسطین میں الیکشن کا نتیجہ ایک خاص گروہ کا معاشرے پر حکمفرما ہو جانے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ گذشتہ 75 برس کے دوران اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے اپنی بقا کیلئے دو چیزوں کا سہارا لیا ہے۔ ایک سوشل ڈیموکریسی اور دوسرا لبرل ڈیموکریسی۔ اس وقت بنجمن نیتن یاہو اور لیکوڈ پارٹی نے ایک طرف حریف سیاسی جماعتوں کو میدان سے نکال باہر کر رکھا ہے جبکہ دوسری طرف آرتھوڈوکس یہودیوں کو اپنی حکومت میں شامل کر کے فلسطینیوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات میں تیزی لائی ہے۔ اسرائیل نے ان دو سہاروں کے ذریعے بھی بہت مشکل سے اپنا وجود برقرار رکھا ہوا ہے۔ اب جبکہ صیہونی معاشرہ شدید اختلاف کا شکار ہو کر حقیقی معنی میں دولخت ہو چکا ہے تو وہ اپنا وجود برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔

اسرائیل اپنی آبادی 85 لاکھ ظاہر کرتا ہے جس میں سے کم از کم 15 لاکھ ایسے مسلمان عرب باشندے ہیں جو 1948ء کی سرزمین کے باسی ہیں۔ لہذا غاصب اسرائیلی حکومت میں یہودیوں کی آبادی زیادہ سے زیادہ 70 لاکھ ہے۔ دوسری طرف پوری فلسطینی سرزمین پر بسنے والے مسلمان عرب باشندوں کی کل آباد کم از کم 76 لاکھ ہے۔ جبکہ ایک معتبر عالمی سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین میں مقیم عرب مسلمانوں کی آبادی یہودیوں سے 2 لاکھ زیادہ ہے۔ اگر صیہونی رژیم مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں اپنے ظالمانہ اقدامات جاری رکھنا چاہے، یعنی انہیں بھی مقبوضہ سرزمین سے ملحق کرنے پر اصرار کرے تو اسے وہاں مقیم عرب مسلمان شہریوں کے بنیادی حقوق ادا کرنا پڑیں گے جس کا مطلب فلسطین کو یہودیانے کی آرزو بھلا دینا ہو گی۔ لہذا سماجی لحاظ سے بھی نابودی اسرائیل کا مقدر ہے۔