سید عزیز کی تشییع جنازہ کے خلاف ایک عالمی جنگ

جب سے "سید حسن نصر اللہ" کے جنازے کی تشییع کا وقت اعلان ہوا ہے، ہر روز اس کی روک تھام کے لیے کوئی نہ کوئی نیا منصوبہ بن رہا ہے ، گویا "شہید سید" کے پاکیزہ جسد کے خلاف ایک عالمی جنگ جاری ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: جب سے “سید حسن نصر اللہ” کے جنازے کی تشییع کا وقت اعلان ہوا ہے، ہر روز اس کی روک تھام کے لیے کوئی نہ کوئی نیا منصوبہ بن رہا ہے ، گویا “شہید سید” کے پاکیزہ جسد کے خلاف ایک عالمی جنگ جاری ہے۔
فارس پلس گروپ:
ابھی تک “شہید سید” کا جنازہ کندھوں پر نہیں اٹھایا گیا، ابھی تک سڑکیں ہجوم سے بھری نہیں، ابھی تک ان کے چاہنے والوں نے ان کے ساتھ وفاداری کے نعرے بلند نہیں کیے، ابھی تک کیمروں نے اس تاریخی منظر کو قید نہیں کیا، لیکن جو کچھ بند دروازوں کے پیچھے ہو رہا ہے، وہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ دنیا کے بہت سے لوگ “ان کے جسد سے بھی خوفزدہ ہیں”۔
بیروت میں عوام کی شرکت کو روکنے کے لیے ایک وسیع، بے مثال اور منظم سیاسی، میڈیا اور سیکیورٹی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ اقدامات لبنان کے دارالحکومت کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے نہیں، بلکہ اس لیے کیے جا رہے ہیں کہ اتوار کے روز جو منظر تاریخ میں ثبت ہونے والا ہے، وہ تل ابیب اور واشنگٹن میں فیصلہ ساز محافل کی تمام سازشوں کو ناکام بنا دے گا۔
وہ لوگ جو “سید” کی شہادت کے بعد مسلسل یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ مزاحمت شکست کھا چکی ہے اور اس کی مقبولیت و قانونی حیثیت ختم ہو چکی ہے، وہ بھی خاموش نہیں بیٹھے ہیں۔ وہ بے بسی کے عالم میں کسی بھی طرح اس عظیم الشان تقریب کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، گوکہ یہ منظر ان کے وجود اور حکمت عملی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ اسی لیے انہوں نے ایک “پیشگی جنگ” کا آغاز کر دیا ہے۔
جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی، بیروت میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر وسیع اقدامات کا آغاز کر دیا گیا۔ جب ہم “عالمی سطح” کی بات کرتے ہیں، تو یہ حقیقتاً ایسا ہی ہے، کیونکہ کئی یورپی ایئرلائنز نے بیروت کے لیے اپنی پروازیں منسوخ کر دیں، تاکہ سینکڑوں مسافر، باوجود اس کے کہ ان کے پاس کنفرم ٹکٹ تھے، اپنا سفر منسوخ کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ یورپ سے بیروت کے لیے 120 سے زائد پروازیں یا تو منسوخ کر دی گئیں یا 23 فروری کے بعد تک ملتوی کر دی گئیں۔
ترکش ایئر لائنز نے بھی بغیر کسی وجہ کے اپنی 20 فیصد پروازیں، بشمول جرمنی سے استنبول اور انقرہ جانے والی پروازیں، منسوخ کر دیں۔ بعض ہوائی اڈوں پر لبنانی مسافروں کو بغیر کسی جواز کے تفتیش کا سامنا کرنا پڑا اور ان سے لبنان کے سفر کی وجوہات پوچھی گئیں، حالانکہ ایسا منظر لبنان کی خانہ جنگی کے بدترین ادوار میں بھی دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔
یہ دباؤ صرف ہوائی اڈوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ بعض کمپنیوں، اداروں، اخبارات، میڈیا ہاؤسز، ہوٹلوں اور لبنانی سماجی حلقوں پر بھی دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اتوار کے روز ہونے والے اس واقعے کے بارے میں انتباہ جاری کریں، گویا یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو پوری دنیا اور اس کے موجودہ عالمی نظام کو چیلنج کر سکتا ہے۔
مغربی حلقوں کی یہ حالیہ مزاحمت صرف سیاست تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس تاریخی موقع کی دستاویزی حیثیت کو روکنے اور اسے اجتماعی یادداشت میں محفوظ ہونے سے بچانے تک پھیل گئی ہے۔ وہ اپنی پوری طاقت جھونک رہے ہیں تاکہ یہ واقعہ بغیر کسی ریکارڈ اور تصویر نگاری کے گزر جائے، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک تحریک نہ بن جائے۔

یہاں تک کہ دنیا کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں، بشمول فیس بک اور انسٹاگرام، بھی اپنے صارفین پر دباؤ بڑھا رہی ہیں۔ وہ ان اکاؤنٹس کو معطل کر رہے ہیں جو اس تقریب کی تیاریوں کی مرحلہ وار رپورٹنگ کر رہے ہیں اور کسی بھی پوسٹ یا مواد کے شیئر ہونے کی روک تھام کر رہے ہیں، حتیٰ کہ اس سے پہلے کہ جنازہ اور تدفین کا عمل شروع ہو۔
یہ چیز ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور ہم سے کہتی ہے کہ تھوڑا پیچھے ہٹ کر خود سے یہ سوال کریں: اگر حزب اللہ واقعی ویسا ہی کمزور اور شکست خوردہ ہے جیسا کہ اس کے دشمن دعویٰ کرتے ہیں، اگر اس کے حامی تھک چکے ہیں، مایوس ہو چکے ہیں، تو پھر ایک جنازے کی تشییع کے حوالے سے اتنی بےچینی اور پریشانی کیوں ہے؟ آخر کیوں عوامی شرکت کو روکنے کے لیے اس قدر کوششیں کی جا رہی ہیں کہ یہاں تک کہ صیہونی ریاست کی طرف سے جنازے میں شریک افراد پر حملے کے امکانات تک زیر بحث آ رہے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ ایک جنازے کی تشییع پر نہیں، بلکہ ایک عظیم رہنما کے مقام و مرتبے اور اس اجتماعی بیداری پر ہے جو اس نے پیدا کی۔ جب لاکھوں لوگ باہر نکل کر اس کا نام بلند کرتے ہیں اور اس کے لیے نعرے لگاتے ہیں، تو وہ صرف ایک نام نہیں پکار رہے ہوتے، بلکہ اس مقصد کے لیے آواز بلند کر رہے ہوتے ہیں جس کے لیے اس نے اپنی جان دی۔ وہ صرف نعرے نہیں لگا رہے ہیں، بلکہ یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اس شخصیت کی یاد اور اس کا راستہ کبھی مٹایا نہیں جا سکتا۔

جب ضاحیہ سے بیروت تک کا علاقہ عوام کے جم غفیر سے بھر جائے گا، تو یہ ایک ایسا پیغام ہوگا جو کسی بھی میزائل سے زیادہ طاقتور اور کسی بھی تقریر سے زیادہ واضح ہوگا: ہم یہاں ہیں، ہم راستہ جاری رکھیں گے، اور یہ سرزمین ہماری ہے۔
یہ صرف ایک جنازے کی تشییع نہیں، بلکہ مزاحمت کی چالیس سالہ جدوجہد کی عوامی توثیق اور اس بات کا کھلا اعلان ہے کہ قتل، خونریزی اور موت کسی چیز کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ انہیں ایک جسد سے نہیں ڈر لگتا، بلکہ ان لوگوں سے خوف آتا ہے جو اس جسد کو کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔
سید حسن نصر اللہ کے جنازے پر حملہ محض ایک سیاسی تصادم نہیں ہوگا، بلکہ یہ ایک گہری نظریاتی اور تاریخی جنگ کی عکاسی کرے گا—ایک ایسی جنگ جو اقدار اور تاریخی تجربات سے جڑی ہوئی ہے۔
دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جو اپنی پوری سیاسی تاریخ میں کبھی ایسی شاندار گھڑی کا مشاہدہ نہیں کر سکے۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھ سکتے کہ ایسا رہنما ہونا کیا معنی رکھتا ہے جو آخری سانس تک دشمن کے خلاف جدوجہد کرے۔
ان کے لیے قیادت محض ایک اندرونی سیاسی ذمہ داری یا ایک اعلیٰ عہدہ ہے، اور بین الاقوامی سطح پر یہ صرف مفادات پر مبنی اتحادوں کی تشکیل کا ذریعہ ہے، نہ کہ اصولوں اور نظریات پر قائم کوئی رشتہ۔


اسی لیے جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ لاکھوں لوگ ایسے رہنما کو الوداع کہنے کے لیے جمع ہو رہے ہیں جس نے ایک لمحے کے لیے بھی ان سے غداری نہیں کی، تو یہ منظر ان کے لیے حیران کن اور صدمہ خیز ہوتا ہے، کیونکہ یہ انہیں ان کے اپنے ناکام سیاسی تجربات اور ان کے رہنماؤں کی غداریوں کی یاد دلاتا ہے۔
یہ صرف ایک جنازے کی تشییع نہیں، بلکہ عوام کی جانب سے مزاحمت کی چالیس سالہ جدوجہد کی توثیق اور یہ واضح اعلان ہے کہ “قتل، خونریزی اور موت کسی چیز کو تبدیل نہیں کر سکتے۔” دشمن ایک جسد سے خوفزدہ نہیں، بلکہ ان لوگوں سے ڈرتا ہے جو اس جسد کو کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔
سید حسن نصر اللہ کے جنازے پر حملہ صرف ایک سیاسی تصادم نہیں ہوگا، بلکہ یہ ایک گہری نظریاتی اور تاریخی جنگ کی عکاسی کرتا ہے—ایک ایسی جنگ جو اقدار اور تاریخی تجربات سے جڑی ہوئی ہے۔
دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اپنی پوری سیاسی تاریخ میں کبھی ایسی عظیم گھڑی کا تجربہ نہیں کیا۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھ سکتے کہ ایسا رہنما ہونا کیا معنی رکھتا ہے جو آخری سانس تک دشمن کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کرے۔
ان کے لیے قیادت محض ایک اندرونی سیاسی ذمہ داری یا ایک اعلیٰ عہدہ ہے، اور بین الاقوامی سطح پر یہ صرف مفادات پر مبنی اتحادوں کی تشکیل کا ذریعہ ہے، نہ کہ اصولوں اور نظریات پر مبنی کوئی وابستگی۔
اسی لیے جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ لاکھوں لوگ ایسے رہنما کو الوداع کہنے کے لیے جمع ہو رہے ہیں جس نے ایک لمحے کے لیے بھی ان سے غداری نہیں کی، تو یہ منظر ان کے لیے حیران کن اور صدمہ خیز ہوتا ہے، کیونکہ یہ انہیں ان کے اپنے ناکام سیاسی تجربات اور ان کے رہنماؤں کی غداریوں کی یاد دلاتا ہے۔
ایسی عظیم تاریخی گھڑی سے محروم رہنا بعض حلقوں کو اس بات پر اکسا رہا ہے کہ وہ “شہید سید” کے جنازے پر شدید حملے کریں۔ ان کا خوف صرف اس جنازے کے سیاسی اثرات سے نہیں، بلکہ اس تاریخی لمحے سے ہے جو اس جنازے کے دوران رقم ہوگا اور جس کی گونج آنے والی دہائیوں تک سنائی دے گی۔
کچھ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ احساسات اور اقدار سے لڑی جاتی ہیں، اور آج لبنان میں “شہید سید” کے جنازے کی تیاریوں کے دوران جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ایک عالمی جنگ کی عکاسی کرتا ہے—ایک ایسی جنگ جس میں ایک طرف وہ لوگ ہیں جو قربانی اور مزاحمت کے جذبے سے سرشار ہیں، اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو وجودی خلا کا شکار ہیں اور اس خلا کو نفرت سے بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔