حالات حاضرہ،13 دسمبر 2024

شام میں تبدیلی کا بناوٹی سناریو/ ایران نے کیوں بشار اسد کی مدد نہیں کی؟؛ حجۃ الاسلام سید جواد نقوی

یہ اب یہ معاملہ شام میں رکنے والا نہیں ہے شام کے ساتھ جو عراق کا سرحدی علاقہ ہے وہ وہی تکفیریوں کا علاقہ ہے جہاں پہلے بھی داعش قبضہ کر چکی تھی اور اب یہ تکفیری وہاں سے بغداد کا رخ کریں گے اور عراق حکومت کا بھی وہی حال ہو گا جو بشار اسد کا ہوا ہے۔

شام میں تبدیلی کا بناوٹی سناریو

حالیہ دنوں ایک اور بڑا عالمی بحران شروع ہوا ہے اور وہ ہے شام کا بحران۔ دو تین ہفتوں کے اندر اس بحران کا آغاز ہوا اور برق رفتاری کے ساتھ ایک باغی یا دھشتگرد گروہ نے ترکی کی مدد سے ۵۰ سالہ پرانے اسد خاندان کے اقتدار کا خاتمہ کر کے ملک شام پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ اس میں حیرت انگیز بات یہ تھی کہ بہت ہی آسانی کے ساتھ یہ دھشتگرد گروہ شام کے ایک ایک شہر کو فتح کرتا ہوا چند دنوں میں دمشق پہنچا اور دمشق کے صدارتی محل میں بیٹھا سابق صدر بشار اسد اپنے اہل خانہ اور تمام اساسوں کے ساتھ جہاز میں بیٹھ کر ماسکو پہنچ گیا اور یہ گروہ دمشق پر براجمان ہو گیا۔ اس عمل نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ دو مہینے پہلے اس بحران کے کوئی آثار نہیں تھے لیکن جب سید حسن نصر اللہ کی شہادت ہوئی ہے تو اس کے بعد اس بحران کا سناریو بنا ہے جس میں سب شامل ہوئے ہیں اور ڈرامائی طور پر سب نے مل کر شام میں یہ تبدیلی لائی ہے۔

بہرحال، لوگ مختلف رد عمل پیش کر رہے ہیں کہیں جشن و سرور کا سما ہے میٹھائیاں تقسیم ہو رہی ہیں اور کہیں کف افسوس ملا جا رہا ہے اور ندامت اور پشیمانی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ جو کچھ ہوا ہے ایک مضبوط حکومت کا خاتمہ اور کمزور گروہ سیرین لیبریشن آرمی کا کنٹرول شام پر ہوا ہے اور ایک ڈرامائی شکل جو اس بحران کی سامنے آئی ہے اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں چند پہلوؤں کا جائزہ لینا ہو گا۔

عرب حکمرانوں کی مشترکہ صفات

پہلا پہلو یہ ہے کہ شام کے اطراف کے عرب ممالک ہوں یا خطے کے دیگر تمام عرب ممالک، سب کے اندر تقریبا ایک ہی طرز کی حکومت پائی جاتی ہے نام نہاد انتخابات کروائے جاتے ہیں لیکن حکومت سب ملکوں میں ڈکٹیٹر شپ ہی ہے۔ ان سب ملکوں کی پالیسیاں کچھ اس طرح سے بنائی ہوئی ہیں کہ دکٹیٹر حکمران ہی حکومت کرتا ہے چاہے خلیجی ممالک ہوں یا غیر خلیجی ممالک۔ سب کی یہی خصوصیت ہے اگر کہیں کوئی فرق نظر آتا ہے تو وہ صرف انیس بیس کا فرق ہے۔ یہ سب مستبد اور ڈکٹیٹر ہیں یعنی حکومت شاہی خاندان سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ ان کی دوسری خاصیت یہ ہے کہ یہ سب غلام ہیں ایک بھی عرب ملک آزاد نہیں ہے۔ ان کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ بالاتفاق عیاش ہیں عیاشی میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ آپ دنیا کی عیاش ترین جگہوں پر جائیں عربوں کے مقابلے میں وہ کچھ نہیں ہیں۔ ان کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ یہ بے دین ہیں گرچہ بظاہر یہ اسلامی لبادے میں نظر آتے ہیں لیکن جب منصب اقتدار پر آتے ہیں تو ان کا کوئی دین و مذہب نہیں ہوتا۔ ان کی پانچویں صفت یہ ہے کہ بے ضمیر ہیں، انسانی ضمیر نام کی کوئی چیز ان میں نہیں ہے۔ چھٹی صفت یہ ہے کہ سب اقتدار پرست ہیں، اقتدار کی ہوس ان سب کے اندر اتنی شدت سے پائی جاتی ہے کہ ہمیشہ کے لیے ان کا خاندان یا قبیلہ اقتدار میں رہے۔ اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے یہ ہر طرح کا جرم کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ حتیٰ بنی امیہ اور بنی عباس کی طرح اپنے باپ کو بھی معاف نہیں کرتے، بیٹا باپ کو معزول کر کے حکومت پر قبضہ کر لیتا ہے۔ قطر اس کی زندہ مثال ہے۔ ان کی اگلی صفت یہ ہے کہ یہ خیانتکار ہیں، جتنے بھی عرب حکمران ہیں سب خیانتکار ہیں۔ اور سخت بزدل ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل سے سخت ڈرتے ہیں۔ جتنے بھی حاکم خاندان ہیں سب کی یہ مشترکہ صفات ہیں۔ چاہے وہ اسد خاندان ہو، چاہے سیسی خاندان ہو، چاہے آل سعود ہوں، چاہے آل نہیان ہوں سب کے سب ایسے ہی ہیں۔

اسد خاندان کے کچھ امتیازات

لیکن اسد خاندان ان دیگر عربی خاندانوں میں کچھ امتیازات رکھتا ہے۔ اسد خاندان کا ایک امتیاز یہ تھا کہ 1970 سے لے کر 2024 تک جو ان کے اقتدار کا دور تھا اس میں انہوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اسرائیل کے ساتھ کسی سازباز میں شریک نہیں ہوئے بلکہ برعکس اسرائیل کے ساتھ جنگ ضرور کی ہے۔ اگرچہ جنگ میں شکست کھائی اور جولان کی پہاڑیاں ہاتھ سے دے بیٹھے۔ لیکن اردن نے اسرائیل کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا، مصر نے سمجھوتہ کر لیا، عرب امارات، بحرین، سعودی عرب دیگر تمام عربوں نے اسرائیل کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا لیکن اسد نے نہیں کیا۔ یہ کسی بھی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے یہ اس حکومت کی بڑی خوبی تھی۔ باقی سب صفات میں یہ دیگر عربوں کے ساتھ شریک تھے۔ اسد حکومت کی دوسری خوبی یہ تھی کہ انہوں نے امریکی بلاک اختیار نہیں کیا اور نہ امریکہ کے دباو میں آکر اپنی پالیسیوں سے پیچھے ہٹے، گرچہ پہلے فرانس کے زیر تسلط رہے، فرانس سے آزادی کے بعد روس کی حمایت میں چلے گئے ابھی تک روس کے ساتھ ہی تال میل رکھا۔ جبکہ دوسرے تمام عرب ممالک امریکہ کے زیر تسلط ہیں۔

شام اسلامی انقلاب کا حامی

اسد حکومت کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ایران عراق کی جنگ میں شام نے ایران کی مدد کی۔ ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ابھی ایران اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوا تھا کہ عراق نے اس پر حملہ کر دیا تھا جبکہ ایران بالکل جنگی توانائی نہیں رکھتا تھا ایران کے پاس شاہ کے زمانے کی فوج بکھر چکی تھی، اسلحہ کے اعتبار سے بھی ایران کے پاس تیاری نہیں تھی، کسی بھی حوالے سے ایران جنگ کے لیے تیار نہیں تھا، لیکن جب ایران پر جنگ سونپ دی گئی تھی تو ایران اپنے دفاع پر مجبور ہو گیا۔ یہ وہ دور تھا جب پوری دنیا ایران کے مخالف تھی امریکہ نے انقلاب اسلامی کے فورا بعد ایران پر پابندیاں عائد کر دی تھیں، اور جب جنگ شروع ہوئی تو پابندیاں مزید بڑھا دی تھیں کہیں سے بھی ایران کو اسلحہ کی سپلائی میسر نہیں تھی، امریکہ، روس، تمام عرب ممالک سب صدام کی مدد کر رہے تھے، اس اثنا میں واحد ملک جو ایران کے ساتھ کھڑا ہوا وہ شام تھا چونکہ حافظ اسد کو عراقی حکومت کے ساتھ اختلاف تھا اس وجہ سے وہ ایران کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ جتنا اسلحہ ایران کو چاہیے ہوتا تھا وہ حافظ اسد خرید کر ایران کے حوالے کرتا تھا۔ امریکی پابندیوں کو بائی پاس کرنا ہوتا تھا تو حافظ اسد کے ذریعے بائی پاس کیا جاتا تھا۔ بہرحال حافظ اسد کا اس جنگ میں ایران کی مدد میں بہت بڑا کردار تھا۔

احسان کا بدلہ احسان

اب ظاہر سی بات ہے کہ ایران کو بھی حافظ اسد کا احسان یاد تھا لہذا ایران نے بھی کھل کر اس وقت شام کی مدد کی جب پوری دنیا بشار اسد کو گرانے پر تلی ہوئی تھی۔ شام کے ذریعے پھر ایران نے لبنان کی بھی مدد کی، لبنان پر جب اسرائیل کا قبضہ تھا تو لبنان میں سیرین آرمی تھی ایران نے اس وقت لبنان میں حزب اللہ قائم کی اور اسرائیل کو لبنان سے باہر کرنے میں لبنانیوں کی مدد کی۔ اور یہیں سے پھر اسرائیل کے مقابلے میں مزاحمت کا یہ محاذ قائم ہوا۔

جب سے لبنان میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی ہے تب سے شام ایک پل کا کردار ادا کرتا آیا ہے چونکہ ایران نے لبنان اور فلسطین کی جتنی بھی مدد کی وہ شام کے راستے سے کی گئی۔ یہ اسد حکومت کا سب سے بڑا کردار تھا اور حکومت کے خاتمہ تک یہ کردار باقی رہا۔

اب یہاں پر ایک بات غور طلب ہے ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد شیعہ حکومت کا قیام عمل میں آیا جبکہ شام میں بشار اسد کا تعلق شیعہ مذہب سے نہیں تھا اسے علوی کہا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یہ کمیونیسٹ تھا یہ مذہبی انسان نہیں تھا۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ یہ شیعہ حکومت تھی اور سنیوں پر مسلط کی گئی تھی جو اکثریت میں تھے، یہ بات لاعلمی اور جہالت کا نتیجہ ہے۔ بشار اسد اور ان کا باپ حافظ اسد اور ان کی حکومت کے دیگر کارکنان میں سے کوئی بھی شیعہ نہیں تھا لیکن چونکہ وہ ایران کے اتحادی تھے اس لیے انہیں سنی دنیا میں مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔

شام کے خلاف عرب حکمرانوں کو ابھارنا

اگر آپ کو یاد ہو تو کچھ سال پہلے ایک امریکی رائٹر نے ’شیعی ہلال‘ نام کی ایک کتاب لکھی جس میں اس نے سنیوں کو مخاطب کر کے کہا تم مٹنے والے ہو اس لیے کہ شیعی ہلال طلوع ہو چکا ہے۔ شیعی ہلال سے اس کی مراد شام، لبنان، عراق، ایران، بحرین اور یمن تھے کہ ان ملکوں میں شیعہ اور ولایت فقیہ کی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے اور سنی حکومتوں کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ لہذا سنیوں کو اکسانا اور تیار کرنا شروع کیا جس کا نتیجہ داعش، القاعدہ اور دیگر دھشتگرد گروہ تیار کئے تاکہ عراق اور شام پر قبضہ کر سکیں۔ اور انہوں نے قبضہ کر بھی لیا تھا اور اپنے حساب سے یہ شیعی ہلال توڑ بھی دیا تھا، یعنی ایران کا حزب اللہ سے رابطہ توڑ دیا ہے اور ایران تنہا رہ گیا ہے۔

یہاں پر بھی شام نے ایک بہت ہی اہم کردار ادا کیا، تقریبا شام اور عراق کے بہت سارے علاقوں پر قبضہ ہو چکا تھا لیکن شامی حکومت نے ایران کو مدد کے لیے طلب کیا اور ایران نے بڑی ہوشیاری سے ان دونوں ملکوں کو بچا لیا اور داعش کا خاتمہ کیا۔ یہاں پر پھر امریکی ایجنسیوں نے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی عراق اور شام پر ایران کا قبضہ ہو چکا ہے اور سنیوں پر شیعہ حاکم ہو چکے ہیں وغیرہ وغیرہ جبکہ ایران نے ہمیشہ یہی کہا شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے شیعوں اور سنیوں کو آپس میں متحد ہو کر امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کھڑے ہونا چاہیے۔ لیکن چونکہ عرب ملکوں کو اس اتحاد سے سخت نفرت تھی اور وہ کبھی بھی مسلمانوں کو آپس میں اکٹھا نہیں دیکھنا چاہتے تھے لہذا انہوں نے سنیوں کو مزید اکسایا اور دھشتگرد تنظیموں کو مزید تقویت دی اور نتیجے میں بشار اسد جیسے کمیونیسٹ حاکم ان کی زد میں آ گئے۔ چونکہ وہ ایران اور حزب اللہ کے اتحادی تھے اس لیے کہا گیا کہ یہ سنیوں پر ظلم کرتے ہیں۔

شام پر داعش کو مسلط کرنے میں ترکی کا کردار

جس داعش کو ایران نے روس اور حزب اللہ کی مدد سے تارو مار کیا تھا اور اس کا شیرازہ بکھیر دیا تھا وہ داعش دوبارہ کسی فرصت کی تلاش میں تھی کہ موقع ملے تو پھر اپنا وار کرے۔ اس بیچ ترکی کا سب سے بڑا خبیثانہ کردار ہے ترکی نے انتہائی خباثت دکھائی ہے۔ جس دن اسرائیل معرض وجود میں آیا تھا جس ملک نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا وہ ترکی تھا۔ آج تک اس کے ساتھ ترکی کے تجارتی اور سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ غزہ جنگ میں سب سے زیادہ ترکی نے اسرائیل کی مدد کی ہے۔ جس کے ثبوت الجزیرہ ٹی وی نے نشر کئے ہیں۔

رجب طیب اردوگان مکار ترین انسان

یہ بات سب جانتے ہیں کہ رجب طیب اردوگان گرگٹ صفت مکار ترین انسان ہے اگر ہم اس کی سیاست کو دیکھیں تو بعض تاریخی کرداروں سے ملتی جلتی ہے جب یہ اقتدار میں آیا تو سب سے پہلے اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ خیانت کی۔ پہلی خیانت اس نے فتح اللہ گولن کے ساتھ کی۔ اقتدار دلانے میں جس کا بنیادی کردار تھا۔ دوسری خیانت اس نے اپنے دوست عبد اللہ گل کے ساتھ کی جو اس کی حکومت میں صدر کے عہدے پر رہے ہیں۔ اس طرح مختلف طرح کی خیانتوں اور ڈراموں سے جیسے کودتا کا ڈراما رچا کر اپنے مخالفین کا قلع قمع کر دیا۔ یعنی یہ شخص سفاک بھی ہے اور مکار بھی ہے۔

سلطنت اردوگانیہ کا خواب اور شام کی تقسیم کا منصوبہ

اس شخص نے یہ منصوبہ بنایا کہ میں عثمانی خلافت کا دوبارہ احیا کرتا ہوں یعنی سلطان عثمان کی جگہ سلطان اردوگان بن کر سلطنت اردوگانیہ قائم کرنا چاہتا ہوں اس کے اس منصوبے کا ایک حصہ آدھا عراق اور آدھا شام ہے۔ شام کے اندر اس نے یہ جو کام کیا ہے وہ دراصل شام کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے کیا ہے۔ شام شہر حلب جہاں سے یہ باغی وارد ہوئے ہیں وہ ترکی سے جڑا ہے اور ان باغیوں میں خود ترکی کے بہت سارے لوگ بھی شامل ہیں۔ اور ترکی نے اب یہ بیان بھی دے دیا ہے کہ تاریخی طور پر حلب ترکی کا حصہ ہے کبھی بھی شام کا حصہ نہیں رہا۔ حلبی جتنے بھی ہیں وہ سب ترک ہیں۔ اسی طرح کردستان پر بھی ترکی کا دعویٰ ہے کہ یہ ترکی کا حصہ ہے لہذا ترکی نے اسرائیل کے ساتھ یہ سمجھوتہ کیا کہ شام کو تین حصوں میں بانٹ دیتے ہیں جنوبی حصہ گولان اور اس کے آگے دمشق تک اسرائیل کو مل جائے گا، حلب اور اس کے بعد دمشق تک جتنے شہر ہیں وہ ترکی کا حصہ بن جائیں۔ اور سنٹرل شام جو عراق اور لبنان کا سرحدی علاقہ ہے وہ تکفیریوں کے حوالے کر دیا جائے۔ یہ ان کا منحوس منصوبہ تھا جس کے تحت انہوں نے یہ کام کیا ہے۔

شام پر دھشتگردوں کا قبضہ کیسے ہوا؟

اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیسے ہو گیا اور یہ بہت چھوٹا سا گروہ جو ابتدا میں زیادہ سے زیادہ ۵۰۰ افراد پر مشتمل تھا کیسے یہ بنا کسی مزاحمت کے ایک ایک شہر کو فتح کرتے دمشق تک پہنچ گئے؟ یہ ایسے ہی قبضہ ہوا جیسے طالبان نے کابل پر قبضہ کیا۔ یہاں کوئی جنگ نہیں ہوئی ہے یہاں ڈیل ہوئی ہے یہاں سمجھوتہ ہوا ہے یہاں معاملہ ہوا ہے اور معاملے میں اسرائیل ترکی، سعودی عرب اور دیگر فریق اس معاملے کا حصہ تھے۔ اگر عام بس پر کوئی سفر کرے وہ بھی اتنا جلدی دمشق تک نہیں پہنچتا جتنا جلدی یہ لوگ قبضہ کرتے شہر فتح کرتے دمشق تک پہنچے ہیں۔

دھشتگردوں کا اس موقع کا انتخاب اور شامی حامیوں کا مدد نہ کرنا

یہ موقع انہوں نے کیوں انتخاب کیا؟ ٹائمنگ بہت اہم ہے یہ وقت اور ٹائمنگ بھی اسی بڑے نقشے کا حصہ ہے۔ چونکہ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں حزب اللہ کو کافی نقصان ہوا ہے ان کے رہنما شہید ہو گئے، ان کے جرنیل شہید ہو گئے ان کا انفراسٹریکچر ختم ہو گیا۔ گرچہ ابھی بھی حزب اللہ کے پاس بہت طاقت باقی ہے لیکن چونکہ ان کا نقصان بہت ہوا لہذا حزب اللہ کو تلافی کے لیے وقت چاہیے لہذا حزب اللہ پہلے کی طرح شام میں ان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ ایران نے جو مدد کرنا تھی وہ کچھ حزب اللہ کے ذریعے کرنا تھی اور کچھ ڈائریکٹ بشار اسد کی مدد کرنا تھی لیکن جو اسرائیل کے ساتھ ایران کا تنازع کھڑا ہوا اس میں ایران کے سامنے بھی بہت ساری رکاوٹیں تھیں اور ان میں سے ایک سب بڑی رکاوٹ اور مشکل ایران کی اندرونی مشکل تھی لیکن شام میں ایران کو شدید مشکلات پیش آئیں۔ لیکن دوسری طرف سے روس شام کا بڑا حامی تھا جسے شام کی حمایت میں آگے آنا تھا لیکن روس نے بھی یہ کام نہیں کیا۔ کیوں نہیں کیا؟ چونکہ روس نے یہاں پر لین دین کیا ہے۔ روس یوکرین میں پھنسا ہوا ہے اور ٹرمپ نے روس کو عندیہ دیا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے یوکرین کا مسئلہ حل کرے گا۔ لیکن اس کے بدلے میں روس نے اسرائیل کو ڈھیل دینی ہے اور اسرائیل کے لیے میدان فراہم کرنا ہے۔ اسرائیل کے لیے بہترین آپشن یہی تھا کہ روس شام میں مقابلہ نہ کرے اور تکفیری دھشتگرد وہاں آ جائیں اور پھر اسرائیل شام سے اپنا کام شروع کرے۔

اسرائیل کی اپنا حصہ لینے کی کوشش

اسی ڈیل کے تحت اسرائیل نے دمشق پر قبضہ ہوتے ہی اپنا کام شروع کر دیا اور ایک دن میں تین سو فوجی اڈوں اور اسلحہ کے گوداموں پر حملے کر کے شام کا سارا دفاعی سسٹم ناکارا بنا دیا جو کچھ جنگی ساز و سامان تھا سب اسرائیل نے تباہ کر دیا اور تکفیریوں نے اس کے ردعمل میں ایک جملہ بھی نہیں کہا اور نہ ہی عرب ممالک نے کوئی بیان دیا۔ یہ سب پہلے سے طے تھا۔ اور اسی تقسیم والے منصوبے کے تحت اسرائیل نے اپنے حصے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے ترکی کے جنگجو بھی حلب میں موجود ہیں اور تکفیریوں کو عراق اور لبنان کا سرحدی علاقہ دے دیا جائے گا۔ چونکہ یہ پلان خود اسد کی موافقت سے طے ہوا تھا لہذا بشار اسد نے بھی کسی سے کوئی مدد نہیں مانگی۔

ایران نے کیوں بشار اسد کی مدد نہیں کی؟

اس بیچ ایران نے تھوڑی کوشش کی کہ شام کی مدد کرے۔ ڈاکٹر علی لاریجانی رہبر انقلاب کے خصوصی ایلچی کے طور اس حملے سے پہلے بشار اسد کے پاس گئے اور جا کر کہا کہ ہم پہلے کی طرح تمہارے ساتھ ہیں لیکن بشار اسد نے حمایت قبول نہیں کی چونکہ وہ روس کے ساتھ پہلے سے معاملات طے کر چکے تھے۔

اب جو تکفیریوں کا معاملہ ہے وہ شام میں محدود نہیں ہو گا بلکہ وہ اپنے پہلے منصوبہ ’دولت عراق و شام ‘ کے تحت اس پر کام کریں گے اور اب ان تکفیریوں کا رخ عراق کی طرف مڑے گا۔ عراقیوں نے بھی ایران کے ساتھ ایک خیانت کی ہے جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو عراق سے آ کر کیا تھا۔ اور جب ایران نے جوابی کاروائی کرنے کی کوشش کی تو عراقیوں نے منع کر دیا کہ ایران ہماری فضائی حدود کا استعمال نہیں کر سکتا۔ اسی وجہ سے ایرانیوں کا تیسرا حملہ جسے ’وعدہ صادق ۳‘ کہتے ہیں وہ انجام نہیں پا سکا۔

عراق بھی دھشتگردوں کی لپیٹ میں آ سکتا ہے؟

یہ اب یہ معاملہ شام میں رکنے والا نہیں ہے شام کے ساتھ جو عراق کا سرحدی علاقہ ہے وہ وہی تکفیریوں کا علاقہ ہے جہاں پہلے بھی داعش قبضہ کر چکی تھی اور اب یہ تکفیری وہاں سے بغداد کا رخ کریں گے اور عراق حکومت کا بھی وہی حال ہو گا جو بشار اسد کا ہوا ہے۔ انہوں نے بھی آخر میں سمجھوتہ کر کے عراق سے بھاگ جانا ہے اور عراق کو تکفیریوں کے حوالے کر دینا ہے۔

بشار اسد نے ایران کی مدد قبول نہیں کی

لیکن یہاں پر ساری دنیا کو ایران پر تعجب ہے، روس نے تو یوکرین کی وجہ سے سمجھوتہ کر لیا، حزب اللہ جنگ میں ہونے والے نقصان کی وجہ سے اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ شام کی مدد کر سکے۔ لیکن ایران کے پاس تو توانائی تھی، پہلے بھی لشکر فاطمیون، لشکر زینبیون اور سپاہ پاسداران یہ سب پہلے بھی شام میں فعال کردار ادا کر چکے تھے لیکن اس دفعہ کیا ہوا کہ ان میں سے کوئی آگے نہیں بڑھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دفعہ جب رہبر معظم کے ایلچی بشار اسد کے پاس گئے اور امداد کی پیشکش کی لیکن بشار اسد نے پیشکش قبول نہیں کی اور انہوں نے واپس آکر بتا دیا کہ اسد صہیونی منصوبہ کا حصہ بن چکا ہے اور اب ہمارے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ہم وہاں اپنا کوئی کردار ادا کر سکیں لہذا انہوں نے شام سے اپنے آدمیوں کو محفوظ طریقے سے نکالنا شروع کر دیا تھا۔

ایران کی اندرونی مشکلات

خود ایران کے اندرونی مسائل بھی بہت شدید ہیں جتنے لبنان اور غزہ کے مسائل ہیں اتنے ہی شدید خود ایران کے اندرونی مسائل ہیں۔ ایران اس وقت سخت پابندیوں کا شکار ہے اور ان پابندیوں سے گزر کر کوئی چیز ایران تک نہیں پہنچ پا رہی ہے۔ ظاہر ہے ایران نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ہے لیکن ایران صرف انقلابی دھڑا نہیں ہے دوسرے فکر کے لوگ بھی بہت زیادہ ہیں اور یہ فکر بہت پہلے سے ہے ہمیں عالمی مزاحمت کا حصہ نہیں بننا چاہیے اور دوسروں کی خاطر ہم ایران کو قربان نہ کریں۔ ہم، فلسطین، لبنان اور یمن پر ایران کو قربان نہ کریں۔ یہ رفسنجانی صاحب کے دور کا نظریہ ہے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ حزب اللہ ایک سیاسی جماعت بن جائے اور سیاست کرے۔

لیکن رہبر انقلاب جو انقلابی رہنما ہیں انہوں نے روز اول سے اسی نہج کو جاری رکھا اور یہ کہا کہ ہمارا شرعی، دینی اور اخلاقی وظیفہ ہے کہ ہم ان مظلوموں کی مدد کریں۔ بہرحال جب صدر روحانی کا دور تھا اس دور کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے یہ کوشش کی کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کر کے مسائل کو حل کریں اور ملک سے پابندیوں کا خاتمہ کروائیں انہوں نے صدر روحانی کے دوسرے دور کے اختتام کے موقع پر ایک انٹرویو میں یہ کہہ بھی دیا تھا کہ میں جب بھی ڈپلومیسی کے ذریعے معاملات کو یہاں تک پہنچاتا تھا کہ پابندیوں کا خاتمہ ہو ملک کی سپاہ خصوصا سپاہ قدس لبنان، یمن یا شام میں کہیں نہ کہیں حملہ کروا کے میری ڈپلومیسی کو فیل کروا دیتی تھی۔

موجودہ ایرانی حکومت کی پالیسی

موجودہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی حکومت میں جواد ظریف ایک کلیدی پوسٹ پر ہیں اور انہوں نے ٹرمپ کے الیکشن میں کامیاب ہوتے ہی ٹویٹ کیا کہ ہم آپ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اور خود صدر پزشکیان نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو تقریر کی اس سے بھی سب کو یہ سگنل مل گیا تھا کہ وہ کیا سوچ رکھتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ انہوں نے وہاں پر یہ کہا تھا کہ اگر اسرائیل اپنا اسلحہ زمین پر رکھ دے تو ہم بھی رکھ دیں گے اور جنگ چھوڑ دیں گے۔ اس بیان کے اوپر ایران میں کچھ دن چے مے گوئیاں ہوئیں لیکن پھر خاموشی چھا گئی۔

بہرحال چونکہ صدر پزشکیان انتخابات میں اپنے حریف ڈاکٹر جلیلی کو شکست دے کر آئے ہیں جو ایک انقلابی اور مزاحمت کا حامی شخص تھا ظاہر ہے کہ وہ اب ان پالیسیوں پر نہیں چل سکتے جن پالیسیوں کو ان کے حریف لے کر آئے تھے۔ اور پھر جواد ظریف صاحب نے ان کے الیکشن کے دوران انہیں باتوں سے پزشکیان کے لیے ووٹ حاصل کئے تھے کہ وہ امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ کر کے ملک سے پابندیوں کا خاتمہ کروائیں گے لیکن بشرطیکہ صدر صاحب ملک پر کنٹرول رکھیں اور سپاہ کو کوئی ایسی کارروائی نہ کرنے دیں جو اس راہ میں رکاوٹ کھڑی کر سکتی ہے۔

بنابرایں، پزشکیان صاحب کسی بھی طور پر نہ کسی حملے کے لیے تیار تھے اور نہ ہی کسی ایسی جگہ خود کو پھنسائیں گے جہاں انہیں کل امریکہ کے ساتھ ڈیل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ چونکہ ان کا انتخابات میں حصہ لینے کا مقصد ہی یہی تھا کہ وہ ملک سے پابندیاں ہٹوا کر ملک کو پرسکون بنائیں گے۔

لہذا ایران میں دو فکر کے لوگ ہیں ایک طبقہ مزاحمت والا ہے جس میں سر فہرست رہبر انقلاب ہیں دوسرا طبقہ لیبرل نظریات والا ہے جو یہ چاہتا ہے کہ ایران ہی کیوں ہر جگہ قربانیاں دے اور کیوں اپنا نقصان کروائے۔

ایران کا مزاحمت سے ہاتھ کھینچنا افسوسناک

بہرحال اس موقع پر آکر اگر ایران مزاحمت سے ہاتھ کھینچ رہا ہے تو یہ انتہائی افسوس ناک ہے چونکہ اب تک مزاحمت نے بہرحال بڑی قربانی دے دی ہے۔ سید نصر اللہ شہید ہو گئے ہیں، ان کے دست و بازو سب شہید ہو گئے ہیں اسماعیل ہنیہ، یحیٰ سنوار یہ سب شہید ہو گئے ہیں، اگر صدر پزشکیان کو یہاں پر آکر سرینڈر کرنا تھا تو وہ یہ کام روز اول ہی کر دیتے تا کہ اتنا نقصان نہ ہوتا۔ لیکن رہبر انقلاب نے اپنے بدھ کے روز کے بیان میں یہ فرمایا ہے کہ یہ حالات جو بھی بنے ہیں تکفیریوں کو ایک سازش کے تحت لایا گیا ہے۔ اسرائیل امریکہ اور عرب ملکوں نے یہ کردار ادا کیا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مزاحمت ختم ہو جائے گی، مزاحمت ختم نہیں ہو گی بلکہ مزید طاقتور بن کر دوبارہ میدان میں آئے گی۔

اب ہر کسی کے ذہن میں یہ سوال اٹھا ہے کہ حزب اللہ کا مستقبل کیا ہو گا چونکہ ایران اور حزب اللہ کے درمیان کا پل ٹوٹ چکا ہے، لیکن رہبر انقلاب نے اپنے دور رہبری میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایسے مشکل ترین مسائل کی کشتی کے ناخدا ہیں وہ راستہ نکال لیں گے اور مزاحمتی طاقتوں کی روشیں بدلی جائیں گی اور مزاحمت کسی بھی صورت میں ختم نہیں ہو گی۔

لیکن اس وقت جو ہم سب کا فریضہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم ہر طریقے سے غزہ اور لبنان والوں کی حمایت جاری رکھیں اور محاذ مقاومت کے ساتھ اپنا رابطہ مزید مضبوط بنائیں ۔