فاران تجزیاتی ویب سائٹ: شام سے دہل دہلا دینے والی خبریں سامنے آ رہی ہے ۔ جس بیدردی کے ساتھ ہئیت تحریر شام کے سفاک درندوں نے شام کے ساحلی علاقوں میں بے گناہوں کا قتل عام کیا ہے اس نے رقہ اور دیگر علاقوں میں داعش کی سفاکانہ کاروائیوں کی یاد تازہ کر دی۔
شام میں حالیہ فرقہ وارانہ قتل عام اور اس پر عالمی اور اسلامی دنیا کے ردعمل کا تجزیہ کرتے اگر کیا جائے توہمیں شام کی موجودہ صورتحال اور اس کے تاریخی پس منظر کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
حالیہ واقعات کا پس منظر:
دسمبر 2024 میں، شامی اپوزیشن کے جنگجوؤں نے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کیا اور صدر بشار الاسد کو ملک چھوڑنا پڑا یوں اسد کی 24 سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔ اس دوران، فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا، اور مختلف گروہوں کے درمیان تصادم نے ملک کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا۔
فرقہ واریت کا سیاسی استعمال اور عالمی طاقتوں کا کردار:
شام میں فرقہ واریت کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے کیا گیا ہے، جس میں عالمی طاقتوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے مختلف گروہوں کی حمایت کی ہے۔ اس سے ملک میں مزید انتشار اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
داعش کا دوبارہ ابھرنے کا خدشہ:
فرقہ وارانہ لڑائی کے نتیجے میں داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے دوبارہ ابھرنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے، جو علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
عالمی اور اسلامی دنیا کا ردعمل:
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے پر عالمی رہنماؤں نے مختلف ردعمل ظاہر کیے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اسے “انصاف کا بنیادی عمل” قرار دیا اور شامی عوام کے حقوق کے تحفظ پر زور دیا۔ اسلامی دنیا میں بھی مختلف ردعمل دیکھنے میں آئے ہیں، جن میں بعض ممالک نے شام کی خودمختاری اور استحکام پر زور دیا ہے، جبکہ دیگر نے فرقہ واریت کے خاتمے اور قومی یکجہتی کی اہمیت پر تاکید کی ہے۔
شام میں حالیہ فرقہ وارانہ قتل عام اور اس پر عالمی اور اسلامی دنیا کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کو درپیش چیلنجز پیچیدہ اور متعدد ہیں۔ فرقہ واریت کا خاتمہ، قومی مصالحت، اور عالمی برادری کی متوازن حکمت عملی ہی شام میں پائیدار امن اور استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔
گزشتہ چند دنوں میں شام کے ساحلی علاقوں میں علوی فرقے کے افراد کے خلاف ہونے والے قتل عام کے اثرات، نتائج اور ردعمل کا جائزہ لیتے ہوئے، ہمیں حالیہ سیاسی تبدیلیوں اور ان کے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔
جیسا کہ ہم نے پیشتر عرض کیا
دسمبر 2024 میں، شامی باغی گروپ ‘ہیئت تحریر الشام’ اور دیگر مخالف گروہوں نے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کیا، جس کے نتیجے میں صدر بشار الاسد کی 24 سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔ بشار الاسد اور ان کا خاندان علوی فرقے سے تعلق رکھتا ہے، جو شام کی آبادی کا تقریباً 10 سے 13 فیصد حصہ ہیں۔
علوی فرقے کے خلاف حملے اور ان کے اثرات:
حکومت کی تبدیلی کے بعد، علوی فرقے کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا، خاص طور پر ساحلی علاقوں میں جہاں ان کی آبادی زیادہ ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں
انسانی جانوں کا نقصان: متعدد علوی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے، جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
سماجی تانے بانے پر اثرات بہت گہرے ہیں فرقہ وارانہ تشدد نے مختلف فرقوں کے درمیان عدم اعتماد کو بڑھایا، جس سے معاشرتی ہم آہنگی متاثر ہوئی ہے
لوگ جولانی حکومت کی سفاکانہ جولانیوں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں چنانچہ خوف اور عدم تحفظ کے باعث، علوی آبادی کے کچھ حصے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
مقامی اور عالمی ردعمل:
مقامی سطح پر: شام کے مختلف سماجی اور مذہبی رہنماؤں نے ان حملوں کی مذمت کی اور قومی یکجہتی پر زور دیا۔
عالمی سطح پر: اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام فرقوں کے تحفظ اور انسانی حقوق کے احترام کی اپیل کی یہ عمل ایسا ہی ہے کہ کسی مگر مچھ کے تالاب کے پاس مگر مچھوں کا جھنڈ کسی پر حملہ آور ہو جائے اورکوئی لوگوں کی حفاظت کے لئے بنایا گیا کوئی بین الاقوامی ادارہ محض اپیل کرتا رہے کہ تم لوگوں کو اپنے جبڑوں سے نکال دو اور موت کا تانڈو مت کھیلو
جب کہ موجودہ حالات میں سختی کے ساتھ پیش آتے ہوئے شامی حکومت پر نکیل کسی جا سکتی تھی ۔اسلامی تعاون کانفرنس نے بھی ابھی تک کوئئ بیان اس سلسلہ سے صادر نہیں کیا ہے یہ اپنے آپ میں سوال انگیز باتہے جبکہ ان حالات میں، شام کے لیے ضروری ہے کہ قومی مصالحت پر گہری گفتگو ہو تمام فرقوں کے درمیان مکالمہ اور مفاہمت کو فروغ دیا جائے تاکہ فرقہ وارانہ کشیدگی کم ہو۔
انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے اور مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
عالمی برادری کی معاونت کے بغیر یہ کام ممکن نہیں بین الاقوامی برادری شام کی تعمیر نو اور امن کے قیام میں مدد فراہم کرے۔
ان اقدامات کے ذریعے ہی شام میں پائیدار امن اور استحکام کا حصول ممکن ہے۔
ورنہ یہ نئے ورژن کا داعشی ٹولہ بے سوٹ بوٹ اور ٹائی میں ملبوس اپنے دور کے بغدادی کے احکامات پر گناہوں کے خون سے ہولی کھیلتا رہے گا اور کوئی بولنے والا نہیں ہوگا ۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں